فرازؔ ۔خوبصورت خیالوں اور پر کشش لب ولہجے کا شاعر

اردو شاعری کا دامن بے شمار بلند پایہ اور معروف شاعروں سے بھراہوا ہے۔ ان بڑے اور معروف شاعروں میں احمد فرازؔ کا نام بھ شامل ہے جو شاعری میں خوبصورتی ، حسین خیالوں ،عشق و محبت کی سچائی لیے شہرت کی بلندیوں پر نظر آتے ہیں۔ اردو کا یہ شاعر پاکستان کے شہر کوہاٹ میں 12جنوری 1931کو پیدا ہوا اور شاعری کی دنیا کو 77 برس روشن کرنے کے بعد25اگست2008کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ان کا اصل نام سید احمد شاہ علی تھا۔ابتدائی تعلیم کوہاٹ ہی میں حاصل کی ایڈورڈ کالج پشاور کے طالب علم رہے۔ شروع ہی سے ادبی رجحان تھا۔ شاعری سے رغبت اسکول کے زمانے سے ہی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ طالب علم کی حیثیت سے کہانیاں اور فیچر لکھنے لگے ، ساتھ ہی ساتھ شاعری میں ۔ چنانچہ ابھی وہ بی اے کر رہے تھے کہ ان کا شعری مجموعہ ’’تنہا تنہا‘‘ شائع ہوگیا۔ ابھی انہوں نے کسی بھی سبجیکٹ میں ماسٹر ز نہیں کیا تھا کہ شاعر ی ان کی پہنچان بن گئی۔ بعد میں انہوں نے اردو اور فارسی میں ماسٹرز کیا۔ ابتداء میں ریڈیو سے وابستہ رہے ، تعلیم مکمل کرنے کے بعد ریڈیو کو خیر باد کہا اور ٹیچنگ کا پیشہ اختیار کر لیااور جامعہ میں اردو کے استاد ہوگئے۔ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’’درد آشوب ‘‘ تھا جسے خوب پذیرائی ملی اور وہ اردو کے نامور شاعر اور ادیبوں میں شمار کیے جانے لگے۔ فیضؔ جیسا پائے کا شاعر فرازؔ کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا۔ فرازؔ کی شاعری کے بارے میں فیضؔ کا کہنا تھا کہ ’خلوص، گداز اور سچائی احمد فرازؔ کے کلام کی امتیازی خصوصیت ہیں‘۔

میں شمیم حنفی کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ احمد فرازؔ ، فیض احمد فیضؔ کے بعد اپنے عہد کے مقبول ترین شاعر تھے۔ اردو شاعری میں میرؔ و مرزاغالبؔ کو دور تو سب سے بلند و بالا تھا جس میں شعرائے مقدمین اپنا جادو دکھاتے رہے ان میں محمد حسین آزادؔ ، حالیؔ ، شبلی نعمانی، اسماعیل میٹھی اکبر الہ آبادی اور علامہ ڈاکٹر اقبال اور دیگر شامل تھے جنہوں نے اردو شاعروں کو ہر اعتبار سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔ اس کے بعد دلی کے تباہی نے اردو شاعری کو بھی متاثر کیا، اس دور میں لکھنؤ کی تہذیب پروان چڑھی ، پھر انیسویں صدی شاعری کے اعتبار سے دور متوسطین کہلائی جس میں معروف شعراء سامنے آئے ان میں محسن کاکوروی، بیخودؔ دہلوی، سائل دہلوی، آزادؔ بیکانیری، آرزو لکھنوی، نوح ناروی، جوہر، مولانا ظفر علی خان، حسرت، فانی،اصغر گونڈوی اور دیگر شامل تھے۔ بقول مولانا حالیؔ ’’شعرائے متوسطین نے اگلوں کے چبائے ہوئے نوالوں کو چبایا اور قدما کی تقلید سے آگے قدم نہ رکھا‘‘۔ متوسطین کے بعد متاخرین شعرا نے اردو شاعری کو ایک نیا رنگ و اسلوب دیا۔ ان شعرا میں جگرؔ ، جوشؔ ، حفیظؔ ، فراقؔ ، چراغ حسن حسرت، اختر ؔ شیرانی، صوفی تبسمؔ ، احسان دانشؔ ، میراجی، فیضؔ ، عدمؔ ، ماہر القادری، ن۔م۔راشد، احمد ندیم قاسمی، ساحر لدھیانوی اور دیگر شامل ہیں۔ ان میں فیضؔ نے منفرد واعلیٰ مقام حاصل کیا۔ شعرائے متاخرین کے بعد جدید دور کے شعرا میں بے شمار دشعرا نے اپنے آپ کو منوایا ان میں جان نثار اختر، قتیل شفائی، جمیل الدین عالیؔ ، شورش کاشمیری، سیف الدین سیف، اد ا جعفری، خاطر غزنوی، ناصر کاظمی اور احمد فرازؔ شامل ہیں۔ اس دور کے شعرا میں فراز ؔ کو جو شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی وہ دیگر شعرا کے حصے میں کم کم آئی۔ کہا جاتا ہے کہ اقبالؔ اور فیضؔ کے بعد فرازؔ کے حصے میں جو عوامی مقبولیت آئی اتنی کسی اور شاعر کو نہیں ملی حالانکہ ناصر کاظمی، حبیب جالب ،عالی ؔ جی، ادا جعفری اپنی اپنی جگہ اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔مجروح سلطان پوری کا کہنا ہے کہ فرازؔ آئے فیض اور ن۔م۔راشد کے بعد مگر اساتذہ سخن میں شمار ہوتے ہیں، ایک اچھا شاعر اپنے بعد آنے والوں کو راہ دکھاتا اور متاثر کرتا ہے ،فرازؔ کا شمار اب ان میں ہوتا ہے‘‘۔اردو کے معروف شاعر احمد ندیم قاسمی مرحوم نے بھی احمد فرازؔ کو اردو شعراء کی صف اول کا شاعر قرار دیا تھا۔

فرازؔ ایک اچھے انسان ہونے کے ساتھ ساتھ خوش بیان شاعر بھی تھے،بقول فراق گورکھپوری ’احمد فراز کی شاعری اُردو میں ایک نئی اور انفرادی آواز کی حیثیت رکھتی ہے‘۔ وہ بزلہ سنج واقع ہوئے تھے، جس محفل میں ہوتے پوری محفل کو اپنے پر مزح جملوں سے زعفران زار بنائے رکھتے۔ ان کی غزلوں کو نئی نسل بہ حد پسند کیا کرتی ہیں۔ ان کی زندگی میں ایک دور ایسا آیا جب انہوں نے ملک میں مارشل لا کے خلاف شاعری کی اور ان کی شاعری کو مقبولیت بھی حاصل ہوئی۔ یہ دور جنرل ضیاء الحق کا دور تھا ۔ ڈکٹیٹر تو پھر ڈکٹیٹر ہی ہوتے ہیں۔ اپنے اس عمل کے نتیجے میں گرفتار بھی کیے گئے اور بعد میں خود ساختہ جلاوطنی بھی برداشت کرنا پڑی پھر ان کے مزاج نے پلٹا بھی کھایا حکومتی عہدوں پر بھی رہے، جنرل پرویز مشرف کے دور میں انہیں ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ لیکن یہ اعزاز انہوں نے دو سال بعد حکومتی پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے واپس بھی کردیا۔ وہ اپنی زندگی کے اختتام تک سرکاری عہدے پر فائز رہے۔ وہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے چیئمین کی حیثیت سے کافی عرصے خدمات انجام دیتے رہے۔ ویسے تو ان کی شاعری کے مجموعے لوگوں میں بہت مقبول تھے اور ان کے کئی کئی ایڈیشن شائع بھی ہوئے ، اس عنصر کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ طویل عرصے کتابیں شائع کرنے اور فروخت کرنے والے سرکاری ادارے سے وابستہ رہے اس کا بھی دخل ان کے اپنے شعری مجموعوں کی فروخت پر ہوسکتا ہے۔

احمد فرازؔ بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کا کہنا ہے کہ فرازؔ کی شاعری غم دوراں اور غم جانا کا ایک حسین سنگم ہے۔ ان کی غزلیں کرب و الم کی غمازی کرتی ہیں جس سے ایک حساس اور رومانٹک شاعر کو دوچار ہونا پڑتا ہے، ان کی نغمیں غم دوراں کی بھر پور ترجمانی کرتی ہیں اور ان کی کہی ہوئی بات ’’جو سنتا ہے اسی کی داستان معلوم ہوتی ہے‘‘۔ فراز کی ایک غزل ؂
سلسلے توڑ گیا ، وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے، کہ آتے جاتے
شکوۂ ظلمتِ شب سے، تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی ، جان سے جاتے جاتے
اِ کی وہ جانے اُسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
تم فرازؔ ! اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
فرازؔ کی ایک اور مقبول ترین غزل ؂
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر مین کچھ دن ٹہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو ہاتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلا، بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کی شبستاں سے متصل ہے بہشت
مکیں اِدھر کے بھی جلوے ، اُدھر کے دیکھتے ہیں
اب اس شہر میں ٹہریں یا کوچ کر جائیں
فرازؔ آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں

فرازؔ ایک محبِ وطن شاعر بھی تھا ۔ اپنے وطن سے محبت اور عقیدت اس کے جسم و جاں میں تھی۔ وطن سے محبت اور کشمیری کاز سے انسیت کے متعدد واقعات کتابوں میں درج ہیں۔ فراز کے شعری مجموعوں میں تنہا تنہا، دردِ آشوب، شب خون، نایفت، میرے خواب ریزہ ریزہ، بے آواز گلی کوچوں میں، نابینا شہر میں آئینہ، سب آواز یں میری ہیں، خواب گل پریشاں ہے، بودلک، جاناں جاناں اور اے عشق جنوں پیشہ شامل ہیں۔ احمد فراز ؔ نے 77سال کی عمر میں 25اگست 2008کو داعی اجل کو لبیک کہا۔
 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1274042 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More