بھٹو کا نواسہ

پی پی کے لیے یہ دو تین سال کبھی اوپرکبھی نیچے والی صورتحال بنی رہی ہے۔جب یہ خبریں آتیں کہ پارٹی کی تنظیم نو ہورہی ہے۔پارٹی قیادت جلد ملک گیر دورے کرنے جارہی ہے۔تو ہلچل مچ جاتی۔جیالے گھروں میں پڑی بھٹو کی تصویروں کو چمکانے لگتے۔اور پارٹی کے دیے گئے۔کارڈ اور سندوں کوکھنگالنے لگتے۔یہ معاملہ زیادہ دن تک نہ چل پاتا۔جلد ہی قیادت کی طرف سے یاتولمبی خاموشی اختیار کرلیتی یا قیادت ملک سے باہر چلی جاتی ۔کبھی بلاول باہر ہیں۔کبھی زرداری صاحب دوبئی نکل لیے۔جیالوں کے لیے یہ کبھی ہاں کبھی ناں والی صورتحال مایوس کن ہے۔انہیں پارٹی قیادت کے رویے پرافسوس ہے۔مگر کریں بھی تو کیا کریں۔موجودہ قیادت کو پارٹی کے وقار کی فکر ہے ۔نہ اس کی بقاکی خواہش۔بھٹو خاندان کو اب تک تاریخ میں زندہ جاوید رہنے کاموقع ملا ہے تو اس کے پیچھے دو وجوہات ہیں۔پہلی ان کی جانوں کانذرانہ اور دوجا ان کے کچھ کارنامے ۔اگر ان دونوں میں سے ایک چیز بھی مائنس کردی جائے تو اس خاندان کے لیے تاریخ میں اپنا حاصل کیا ہوا مقام قائم رکھنا مشکل ہوجائے گا۔اگر بھٹو اور بے نظیر کی غیر طبعی موت نہ ہوتی تو شاید ان کے سیاسی معرکے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی تاثیر کھو بیٹھتے۔یہ جانوں کا نذرانہ ہی ہے۔کہ بھٹو صاحب کے کارہائے نمایاں عوام کے ذہنوں سے محو نہیں ہورہے۔اور نہ بے نظیر کی شہادت ان کی سیاسی کردار کو فراموش ہونے دے رہی ہے۔پی پی کی کامیابی کا ایک سبب قیادت کا ویژن بھی ہے۔ اگر بھٹو اور بے نظیر کی غیر طبعی موت تو واقع ہوتی مگر ان کے کھاتے میں کوئی سیاسی کردار نہ ہوتاتوبھی تاریخ میں ان کا نام زیادہ جلی نہ ہوتا۔پاکستان میں موجود دیگر سیاسی جماعتوں سے زیادہ مضبوط ہونے کا اصل سبب بھی پی پی قیادت سے جڑے کچھ کارنامے بھی ہیں۔

نوازشریف عدالت کی طرف سے نااہل ہونے کے بعد سرگرم ہیں۔اب بھی سیاست اننہی کے گرد گھوم رہی ہے۔میڈیا میں اب بھی یہی بحث چل رہی ہے کہ میں صاحب اب کیا کرنے جارہے ہیں۔۔اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے نوازشریف کی سیاست کو تنقیدکا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ نوازشریف کو ان کی حماقتوں نے یہاں تک پہنچایا۔پیپلزپارٹی نے ہمیشہ جمہوریت کی با ت کی اور میاں صاحب نے ہمیشہ جزباتی فیصلے کیے۔خورشید شاہ کا تبصرہ موجودہ پی پی کے کلچر کا آئمنہ دارہے۔شاہ صاحب کو اپنی ذومعنی گفتگو میں انہیں کافی شہرت حاصل ہے مگر انہوں نے نوازشریف کے فیصلوں کو جزباتی کہہ کر خود فریبی کا مظاہرہ کیا ہے۔وہ اپنی پارٹی کی سیاست کو جمہوریت کے لیے کی گئی سیاست قراردیتے ہیں۔جبکہ عملا پی پی کی سیاست کسی بھی قیمت پر اقتدار پالینے کی سیاست ثابت ہوئی ہے۔آج بھی خورشید شاہ کی قیادت کا نکتہ نظر یہی ہے کہ کسی طرح سے مقتدر حلقوں کو خوش کرکے اقتدار تک پہنچا جاسکے۔عملا اس وقت پی پی قیادت کے پاس کہنے کو کچھ نہیں نہ دکھانے کوکچھ ہے۔جناب زرداری اور بلاول اپنی دھواں دھار تقریروں میں تو پارٹی کے چھاجانے کی بات کرتے ہیں۔پی پی کی اگلی حکومت بننے کے دعوے کررہے ہیں۔مگر قوم حیران ہے کہ کسی بنیاد پر ایسے دعوے کیا جارہے ہیں۔اپنی حکومت میں زرداری صاحب نے قوم کو سوائے کھیل تماشوں کے کچھ نہیں دیا۔ان کا تمام تر دور نظام انصاف کو کچلنے میں گزرگیا۔یہ نظام انصاف ان کے کھیل تماشوں کی راہ میں مزاحم تھا۔بندر بانٹ میں مشکل پیش آرہی تھی۔تب حکومت کے تمام بڑے کسی نہ کسی سکینڈل کی زد میں رہے۔اب تک پیشیاں بھگتی جارہی ہیں۔اگر پی پی کی یہ سیاست جمہوریت کے لیے ہے ۔تویہ کوئی الگ قسم کی جمہوریت ہی قراردی جاسکتی ہے ۔

زرداری دور پی پی کی بقا کا مسئلہ کھڑ اکر گیا۔مگر قیادت ہوش کے ناخن لینے پر آمادہ نہیں ۔دوہزار تیرہ کے الیکشن میں پارٹی قیادت منہ چھپائے پھر رہی تھی۔اب جبکہ دوہزار اٹھرہ کے الیکشن سر پر ہیں۔اب بھی پی پی تہی دامنی کی شکار ہے۔نہ کہنے کو کچھ ہے ۔نہ دکھانے کو کچھ۔پی پی کے پاس ان الیکشن کے لیے بلاول بھٹو ترپ کا پتہ تھا۔مگر وائے حسرت کہ ایک زرداری دوسروں کے ساتھ ساتھ بلاول پر بھی بھاری ہوچکے۔چھوٹی قیادت نے بلاول کو موقع دینے کی جتنی فرمائشیں کی۔زرداری صاحب کی ضد اتنی ہی بڑھتی چلی گئی۔جب بھی بلاول نے تھوڑا رنگ جمایا ۔زرداری دھڑا متحرک ہوگیا۔پی پی کی چھوٹی قیادت کے لیے اس سے بڑھ کر بد قسمتی کیاہوگی کہ الیکشن دوہزار اٹھرہ کے لیے تیار شدہ یہ آخری تدبیر بھی بے کار کردی گئی ہے۔پارٹی چیئرمین بلاو ل بھٹو زردار ی اس وقت عملا ایک دوراہے پر کھڑے کردیکے گئے ہیں۔زرداری کے سپوت کے ایک طرف پارٹی پر چھایا زرداری رنگ ہے۔جو پارٹی کو عروج سے زوال کی طرف لے آیا۔دوسری طرف انہیں بھٹو رنگ اپنی طرف کھینچ رہاہے۔بھٹو کے نواسے کواپنے نانا کے دور کی پی پی کا احیاء کسی سہانے خواب کی مانند لگ رہا ہے۔مگر اس خواب کی تعبیر آسا ن نہیں لگتی۔اگر وہ خورشید شاہ ٹائپ سیاست کا انتخاب کرتے ہیں تو لوگ انہیں زرداری کا سپوت سمجھے گی۔پھر ان کا ہونا نہ ہونا کچھ معنی نہیں رکھتا۔یہ آسان کام ہے۔مگر اگر وہ بھٹو کا نواسہ کہلوانے کی تمنا رکھتے ہیں ۔تو اس کے لیے انہیں پارٹی کی اوور ہالنگ کی مشقت سے گزرنا ہوگا۔جیالے بلاول کو بھٹو کے نواسے کے سوا کچھ اور نام نہیں دینا چاہتے۔مگر کیا بلاول یہ جوکھم کرنے کے لیے تیارہیں۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 141016 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.