تہوار اور عید کسی قوم کے لیے جشن اور خوشی کا دن اس لیے
ہوتا ہے کہ اس دن ان کی زندگی یا قوم کی تاریخ میں کوئی ایسا دن آیا ہوتا
ہے جس کے ساتھ ان کی قوم کا، تاریخ کا، اللہ کے احسانات کا رشتہ بندھا ہوا
ہوتا ہے۔ مثلاً عیسائی لوگ کرسمس عید کے طور پر مناتے ہیں وہ اس لیے کہ
حضرت عیسیؑ ٰ کی پیدائش کا دن تصور کرتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ اس دن
حضرت عیسیؑ ٰ نے صلیب پر چڑھ کر اپنے ماننے والوں کے گناہوں کا کفّارہ ادا
کیا، حضرت عیسیؑ ٰ پر ایمان لانے سے ان کی بخشش اور نجات ہوگی۔
اسی طرح یہودی اُن کے عقیدے کے مطابق اس دن عید مناتے ہیں جس دن اللہ نے ان
کو فرعون سے نجات دی، دریائے نیل کو پھاڑدیا، ان کی قومی زندگی میں یہ دن
اللہ کی بشارت اور اللہ کے انعامات اور اللہ کے احسان کا یادگار دن ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی عید کے دونوں دنوں کو قرآن مجید اور ہدایت کی
نعمت کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔ جس میں روشنی بھی ہے، رہنمائی بھی، اور سارے
انسانوں کے لیے ہدایت بھی ہے۔ عید الفطر کا دن نزول قرآن کی سالگرہ کا جشن
ہے۔اور عید الاضحی سے ایک دن پہلے عرفہ کے روز اللہ تعالیٰ نے اپنا فرمان
نازل کیا۔اس عید کے دن اللہ تعالیٰ کے احسان پر شکر کی ادائیگی بھی شامل ہے
کہ اس نے ہمارے اوپر دین کو مکمل فرمایا، ہدایت کی نعمت، اپنی سب سے بڑی
نعمت ہمیں عطا فرمائی اور ہمارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند فرمایا۔
دونوں عیدوں کا خدا کی نعمتوں سے گہرا تعلق ہے۔ رمضان سے تقویٰ، صبر،
ہمدردی، ڈسپلن، ضبط نفس پیدا ہوتا ہے اور عید قرباں اپنے آپ کو منانے، اپنے
دین پر مکمل عمل کرنے، اور قربانیاں دینے کے لیے تیار کرتی ہے۔
ہر سال ہمارے درمیان عید قرباں کے تاریخی ایام آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔
لیکن ہم میں سے آج بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں جو اس بات کی ضرورت محسوس کرتے
ہیں کہ اس کی حقیقت کو جانیں اور سمجھیں کہ اس میں ایسی کون سی خصوصیات ہیں
کہ اس دن کو قیامت تک کے لیے یادگار قرار دیا گیا ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ کی وہ ایثار و قربانی اور حصولِ رضائے الٰہی کا وہ جذبہ ہی
تھا جس کی بنیاد پر ابراہیم ؑ نے گھر، وطن، دولت تو چھوڑی ہی بادشاہ وقت سے
بھی بغاوت کی، پھر اللہ کی خاطر بیوی اور ننھے سے دودھ پیتے بچے کو بے آب
وگیاہ میدان میں بے سہارا چھوڑ آئے اور خود آگ کے دہکتے الاؤ میں ڈالے گئے،
یہاں تک کہ اپنی جان ہی نہیں لختِ جگر کی قربانی کے آخری حکم کی بھی تعمیل
کی۔ اخلاص و سچائی اور ایثار و قربانی کا یہ ایسا بے نظیر واقعہ ہے جس کی
مثال آج تک کوئی قوم پیش نہیں کرسکی، اسی لیے اللہ نے اس بلند ترین عمل کو
قیامت تک کے لیے ایک فریضہ کی حیثیت دے دی، تاکہ عید قرباں کی تاریخی حیثیت
پر نگاہ رکھتے ہوئے بندۂ مومن اپنے اندر بھی وہی جذبہ پیدا کرے اور رضائے
الٰہی کے حصول کے لیے وہ سب کچھ قربان کردے جو میسر ہو۔ لیکن افسوس کا مقام
ہے کہ لوگوں نے اسے بھی رسم بنا ڈالا، نہ اس کی حقیقت کو پہچانا اور نہ اس
کے تقاضے کو سمجھا۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہ جانور کا گوشت اور نہ اس
کا خون چاہیے بلکہ مومن کا تقویٰ اور رضائے الٰہی مطلوب ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ کے واقعہ میں ہمارے لیے بڑی نصیحت ہے کہ ہم نے بھی یہی
اقرار کیا ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ ہمارا نہیں ہے اللہ کا ہے۔ ہم اللہ
کے حکم پر چلیں گے، اور اس کے حکم کے سامنے نہ اپنے دل کی بات مانیں گے اور
نہ کسی دوسرے کی خواہش کی پرواہ کریں گے۔
ہم جس طرح جانور کی قربانی کرتے ہیں۔ اسی طرح اپنی نفسانی خواہشات کو بھی
قربان کردیں گے، تاکہ اختلاف، انتشار بغض و حسد، کبر و غرور، عناد و دشمنی،
مکر و فریب اور حق تلفی وجاہ طلبی کے ذریعہ انسانیت کی تباہی کا ذریعہ نہ
بنیں بلکہ عظمت و بلندی کا جو معیار قرآن مجید نے بتایا ہے، اسے ہم اپنی
زندگی میں سجا بسا لیں۔ ذات برادری، رنگ و نسل اور دولت و غربت کے سارے
امتیازات کو مٹا کر اخوت و مساوات، پیار و محبت اور ایک خدا کی عبادت و
بندگی کی فضا قائم کریں۔
|