نبی ﷺ امن کے داعی اور امتی نفرت کے سوداگر ۔۔۔؟

آج ایک افسوسناک خبر نے دل کو زخمی اور آنکھوں کو پر نم کردیا ،چنیوٹ کے علاقے آسیاں میں تبلیغ کے سلسلے میں مقیم ایک جماعت پر شر پسند عنا صر نے اس وقت حملہ کیا جب وہ محو استراحت تھے ،الزام لگایا اور بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے گستاخی کی ،اور اس کی پاداش میں ایک منچلے جوان نے کلہاڑیوں کے وار سے بزرگ شخص جن کا تعلق کراچی سے بتایا جاتا ہے کو شہید کردیا ،انا ﷲ وانا الیہ راجعون ۔موصول اطلاعات کے مطابق قاتل ایک دینی مدرسے کے طالب علم ہیں اورکسی مسئلے میں بحث کے بعد جب دلیل نہ بنی تو اس اندوہناک واقعہ کا اقدام کر ڈالا ۔اس بات سے قطع نظر کہ تبلیغی جماعت کے احباب مناظرہ ومناقشہ سے اعراض کرتے ہیں ،وہ کسی بھی اختلافی مسئلہ میں نہیں پڑتے ،ان کے بارے میں مشہور ہے اگر کوئی دائیں گال پر مارے تو بائیں کو پیش کردیتے ہیں ،بے ضرر اور محبت باٹنے والے یہ لوگ اگر محفوظ نہیں تو دوسرا کون محفوط ہوگا ۔آئے روز اس طرح کے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن میں مسلکی اختلافات کو بھڑکا کر مذموم مقاصد حاصل کیے جارہے ہیں ،مذہبی منافرت پھیلانا انتہائی مذموم ہے ،جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ،قتل کا اقدام اس وقت کیا جاتا ہے جب دلیل اور مکالمہ ناپید ہو جاتاہے ،جب اختلاف برائے اختلاف رہ جاتا ہے، فریق مخالف بات چیت کے دروازے بند کردیتا ہے،مسلکی خول جب آنکھوں پر چڑھا دیا جاتا ہے اور حق جب صرف خود تک محدود ہوتا ہے،اس کے علاوہ سب باطل دکھتا ہے تو ایسے میں شدت پسندی پروان چڑھتی ہے ،معصوم لوگوں کی زندگی کے چراغ گل کئے جاتے ہیں، قاتل بھی مسلما ن مقتول بھی مسلمان ۔۔اسلام ان چیزوں کی مذمت کرتا ہے ،قرآن تفرقہ بازی کے مقابلہ میں’’ حبل اﷲ ‘‘دین کی رسی کو تھامنے کا حکم دیتاہے۔اور اتحاد واتفاق کا درس بھی قرآن میں موجود ہے ،باہمی منازعت اور رسہ کشی قوت کے بجائے ضعف کے اسباب پیدا کرتی ہے ،ولا تنازعوا فتفشلو ا وتذھب ریحکم واصبروا‘‘جھگڑو مت کمزور ہو جا و گے تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ۔جیسے واشگاف الفاظ بھی قرآن کا حصہ ہیں۔

رسول خدا ﷺ کی سیرت سے بڑھ کر کسی سیرت ہوسکتی ہے بھلا ؟ثمامہ بن اثال کا واقعہ احادیث کی کتب میں موجود ہے ،باوجود کافر ہونے کے مسجد نبوی ﷺ کے ستونوں سے باندھ دیے جاتے ہیں ،آپ ﷺآتے جاتے حال دریافت کرتے اور اسلام کی دعوت دیتے ہیں چنانچہ حسن اخلاق سے متاثرہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوتے ہیں ،لیکن ان کے جانے کے بعدآپ ﷺنے مسجد کو دھونے کا حکم صادرنہیں فرمایا اور ہمارا حال کہ کافر نہیں مسلمانوں کے مسجد داخل ہونے پر پابندی اور پھرداخلہ کے بعدمساجد کو دھونا ،کہاں رہ گئی مسلمانیت اور کدھر ہے انسانیت ؟حکیم الامت اشرف علی تھانوی رحمہ اﷲ کا مشہور مقولہ ’’اپنا مسلک چھوڑو نہیں دوسروں کا چھیڑو نہیں ‘‘کیا کمال کا مقولہ ہے ،کیا اختلافات کے باوجود ہم بھائی بھائی بن کر نہیں رہ سکتے ،یونس بن عبد الاعلی امام شافعی رحمہ اﷲ کے خاص تلامذہ میں سے ہیں ،کہتے ہیں میں نے امام شافعی سے زیادہ عقل مند کوئی انسان نہیں دیکھا ،ایک مرتبہ میرا ان سے مناظرہ ہوگیا ،کچھ عرصہ بعد ملاقات ہوئی تو میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ،’’اگر ہمارا کسی مسئلے میں بھی اتفاق نہ ہو توکیا ہم بھائی بھائی بن کر نہیں رہ سکتے ‘‘۔یعنی تمام مسائل میں ایک دوسرے سے اختلاف کے باوجود اخوت کا رشتہ قائم کیا جا سکتا ہے ۔ہمارے بیشتر مسائل ایسے ہیں جن میں اتفاق ہے ،کلمہ نماز ،روزہ ،زکوۃ اور حج سبھی کے نزدیک مسلم ہیں ،توحید ورسالت بھی مشترک ہے پھر فروعی اختلافات کیوں کر اس حد تک ہیں کہ ایک دوسرے کی جان کے پیچھے پڑے ہیں ۔

مفتی محمد شفیع مرحوم کے صاحبزادے مفتی رفیع عثمانی نے اپنے ایک خطاب میں جو بعد میں ایک رسالے ’’اختلاف رحمت ہے ،فرقہ بندی حرام ہے ‘‘کے نام سے طبع ہوا ،مختلف فرقوں کے باہمی اختلافات کے حوالے سے کہا کہ ان اختلافات کو اس تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے کہ ایک کا موقف یقینا غلط اور دوسرے کا یقینا صحیح ،بلکہ اس حوالے سے دیکھنا چاہیے کہ جس پر ہمارا اطمینان ہے اس کے صحیح ہونے کا غالب امکان ہے اگرچہ یہ احتمال بھی موجود ہے کہ وہ غلط ہو ۔اسی طرح دوسرے کا موقف بھی ہمارے گمان کے مطابق خطا پر مبنی ہے تاہم اس کی صحت کا بھی احتمال ہے ۔یحیی بن سعید انصاری جلیل القدرتا بعی فرماتے ہیں اہل علم وسعت اختیار کرنے والے ہوتے ہیں ،اس لیے ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے ۔

امام مالک رحمہ اﷲ سے جب خلیفہ وقت نے درخواست کی کہ ان کی تصنیف کردہ کتاب موطا کو خلافت کی عملداری والے علاقوں میں نافذ کردیا جائے تو امام مالک نے اس رائے کو ناپسند کیا کہ ان کی رائے کو تمام لوگوں پر نافذ کیا جا ئے ،لوگوں نے مختلف احادیث سن رکھی ہیں اب جس چیز کو وہ درست سمجھ کر اختیار کر چکے ہیں انہیں روکنا سنگین ہوگا ۔اس طرح کی وسعت قلبی اگر علماء اختیار کریں اور منبر و محراب سے محبت رواداری اور برداشت کا درس دیں اختیار تو مسالک کے درمیان توازن کے ساتھ اخوت کا رشتہ قائم کیا جا سکتا ہے ،مسلکی اختلافات قدیمی ہیں لیکن اس کے باوجود کیا ممکن نہیں کہ اختلاف کے باوجود سماجی تعلق قائم رہے ،اس میں دراڑیں نہ پڑھیں ،رواداری کا مظاہرہ کیا جائے ،دوسرے کے مقدسات کا لحاظ رکھا جائے ،بدگمانی سے حتی الوسع گریز کیا جائے کیوں کہ بہت سے مسائل اور اختلافات غلط فہمی اور بدگمانی پر قائم ہیں اور ان میں شدت پیدا ہوتی جارہی ہے لیکن باہمی مکالمہ اور گفت وشنید سے دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں آسانی ہو تی ہے ،مکالمہ سے اختلاف ختم تو نہیں البتہ کم ضرورہوتے ہیں ،آئیے محبت بانٹیں ،رواداری کا مظاہرہ کریں ،امن دشمنوں کا اتحاد و اتفاق کے ذریعے قلع قمع کریں ۔رسول خداﷺ تو سراپا محبت اور امت سراپا نفرت کیوں ؟؟ْ

Mufti Tuseef Ahmed
About the Author: Mufti Tuseef Ahmed Read More Articles by Mufti Tuseef Ahmed: 35 Articles with 31937 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.