عمامہ کو کہانی شروع کرتے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ لکھنے
والے نے دل سے کہانی کے کرداروں پر محنت کرتے ہوئے دل کو چھو لینے والی
تحریر لکھی ہے۔عمامہ نے پہلی بار ہی اس کہانی کے مصنف کو پڑھا تھا اور وہ
نا چاہتے ہوئے بھی سوچ رہی تھی کہ اس کی باقی تحریریں کہاں سے مل سکتی ہیں
وہ اس کی غائبانہ شخصیت سے متاثر ہو چلی تھی کہ کہانی کے اختتام تک پرستار
ہو گئی تھی۔عمامہ ابھی آٹھویں جماعت کی ہی طالبہ تھی اور اپنی دوست پاکیزہ
کے کہنے پر ایک رسالے کی کہانی پڑھ لی تھی۔
عمامہ کو اُس زمانے میں نصابی کتب سے زیادہ کہانیوں میں دل چسپی سی تھی وہ
چونکہ اکیلی رہنے کی عادی تھی تو اس کے مشاغل بھی اپنی دیگر تین بہنوں سے
مختلف تھے۔عمامہ چپ چاپ سی رہ کر اپنے تعلیم کو جاری رکھے ہوئے تھی او ر
ساتھ میں اپنے پسندیدہ لکھاری کی تحریروں کو بھی کہیں نہ کہیں سے کھوج لیتی
تھی کہ اس کی شخصیت اس کی پہلی ہی تحریر سے اس پر حاوی ہوتی چلی جا رہی تھی
اوروہ اپنے خوابوں میں بھی اُس لکھاری کی کہانیوں میں خود کو ایک کردار کے
طور پر دیکھنے لگی تھی انہی دنوں میں اُس نے میٹرک بھی کرلیا تھا۔
اپنے فراغت کے لمحوں میں وہ اُس لکھاری سے وہ سب باتیں کیا کرتی تھی جو وہ
کبھی دل سے کسی کو نہیں بیان کر سکتی تھی۔عمامہ کی عادت ہی ایسی تھی کہ وہ
سب سہہ لیتی تھی مگر شکوہ زبان پر نہیں لاتی تھی۔ اپنی بہنوں کے ساتھ بھی
اس کا برتاو اچھا تھا اور اپنی والدہ سے بھی ایک خوف رہتا تھا کہ وہ اس کو
سمجھاتی تھی مگر وہ کبھی کبھی تاخیر تک رات گئے جاگ کر اپنے پسندیدہ مصنف
کی کہانیوں کو پڑھا کرتی تھی۔
اک بے نام سے رشتے میں بندھ کر
وہ اپنا آپ مٹانے چل پڑی ہے پگلی
کہانیاں وہ پڑھتے پڑھنے ایف ۔اے کر گئی اور اس کے بعد بی۔اے میں بھی والدہ
کے زور پر داخلہ لے لیا تھا۔پھر اس کے بعد اُس نے ایک اسکول میں کچھ عرصہ
کے لئے تعلیم کے میدان میں نوکری کرنے کی خاطر ڈپلومہ کورس کرنا بھی شروع
کر دیا تھا۔اگرچہ وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ وہ جذبانی پن تو برقرار رہا
تھا مگر اس کی محبت اُس لکھاری کے ساتھ اس قدر زیادہ ہو گئی تھی کہ وہ سوچا
کرتی تھی کہ کاش وہ سچ میں مل جائے اور اسکی کہانی میں وہ آجائے،جیسے
کہانیوں میں ہوتا ہے کہ خوشگوار انجام ہوتا ہے اسکی زندگی میں بھی بہار
آجائے۔اس کے پاگل پن پر اسکی دوستوں نے اُس کو پگلی پرستار کا خطاب دے دیا
تھا کہ وہ اکثر اسکول میں اپنے پسندیدہ مصنف کی تحریروں کو ہی پڑھ کر سنانے
لگی تھی،جبکہ وہ ایسا تو گھر میں بغیر نام بتائے اسکی کہانیوں کو سنا کر
دلی مسرت محسوس کرتی تھی۔اُسکی پہلی کہانی کو پڑھ ابھی آٹھ سال تک وہ مصنف
سے براہ راست رابطہ نہیں کر پائی تھی کہ اُس زمانہ میں رابطے کے وسائل کم
تھے۔اُنہی دنوں میں موبائل فون کی نئی نئی آمد ہوئی تھی۔عمامہ نے دل کے
ہاتھوں مجبور ہو کر موبائل فون تو خرید تھا مگر ابھی تک مصنف کا رابطہ نمبر
نہ مل پایا تھا جو اپنی جذبات سے سے اُس کو آگاہ کر سکتی۔بہرحال ایک دن اس
کا رابطہ رسالے کی انتظامیہ سے ہوا مگر وہاں سے معلوم ہوا کہ وہ مصنف وہاں
سے کہیں اور ملک بسلسلہ روزگار چلا گیا ہے۔عمامہ نے اپنے دل کو تھام لیا
تھا کہ منزل پاس تر آکر بھی دور ہو چلی تھی۔
اُس نے اپنی فیس بک آئی ڈی بنا لی تھی اور مصنف کے ہم نام لوگوں کو دیکھا
کر تی تھی کہ وہ کبھی نظر آئے گا تو حال دل بیان کر سکے گی کہ انکی کہانیوں
نے اس کے دل و دماغ پر کتنا اثر ڈالا ہے اور وہ کس قدر تبدیلی سے ہمکنار
ہوئی ہے۔عمامہ کا خیال تھا کہ یہ سب تحریریں اس کے لئے تھیں وہ اُن کو
احتیاط سے سنبھالے ہوئے تھی۔مگر تاحال اس کو نہ تو کوئی ای میل ایڈریس مل
پایا تھا، نہ رابطہ نمبر مل سکا تھا اور فیس بک پر بھی کوئی اتقافی ملاقات
نہ ہوئی تھی اور اسی دوران اسکی شادی ہو گئی۔اُس نے گھر والوں سے اپنے ہونے
والے ہم سفر کے بارے میں کچھ بھی دریافت نہ کیا تھا۔اُس کی خواہش تھی کہ وہ
شادی سے پہلے ہی مصنف سے مل لیتی تو باقی کی زندگی خوشگوار گذر جاتی ۔اُس
کے والدین نے یوں بھی ایک کے بعد ایک بہن کی شادی ہو گئی تھی تو آنے والے
شخص کو جو کہ اگرچہ اُ سے عمر میں کافی سال بڑا تھا سے بات طے کر دی
تھی۔اُس کو اس بات پر کوئی اعتراض نہ تھا۔وہ کافی سال باہر رہ کر آیا تھا
اور ایک بہترین کاروباری شخصیت کا روپ دھار چکا تھا۔
ابھی شادی میں کچھ دن باقی تھے جب اُس کی طبیعت خراب ہوئی اور ہسپتال سے
علاج معالجہ شروع ہوا تو اسکے خواب ٹوٹ گئے تھے،اس کو ابتدائی مرحلے کا
کینسر ہو چکا تھا۔اس کے گھر والوں نے اسکی شادی کو رکوانا چاہا تھا مگر اس
نے رضامندی ظاہر کر دی تھی۔عمامہ نے شروع سے اب تک دل کی باتوں کو بیان
نہیں کیا تھا وہ اپنے ہر دکھ درد کی خود ہی رازدان تھی تب ہی اُس دن اُس پر
انکشاف سا ہوا تھا کہ وہ اُس مصنف سے عشق کے روگ میں آچکی تھی۔کہیں سے بھی
کوئی رابطہ نہ ہونا بھی اسکے لئے ایک سنگین المیہ تھا۔
شادی کے بعد وہ بیماری سے لڑنے کی ہمت و حوصلہ پا گئی تھی۔اُس کے سب گھر
والے حیران تھےکہ وہ کس طرح سے بیماری کو شکست دے رہی ہے، عمامہ کی روز
بروز صحت یابی ایک معجزہ قرار دیا جا رہا تھا۔مگر دوسری طرف اس حقیقت سے
کوئی واقف نہ تھا کہ اس کی سچی طلب نے کیاسے کیا کر دیا تھا۔وہ جس مصنف کی
خاطر برسوں سے انتظار کر رہی تھی وہی اس کا ہم سفر آ بنا تھا۔جس کی خبر
اُسے بھی نہ تھی کہ کوئی اُس کے لئے کس قدر دیوانہ ہو چکا تھا۔
عمامہ کو شادی کے دوسرے روز ہی میں اس بات نے بے پناہ مسرت دے دی تھی کہ وہ
اسی مصنف کی ہم سفر بن گئی تھی جس کی کہانیوں میں کوئی ہیروئین کسی ہیرو کی
شریک حیات بن جاتی تھی۔عمامہ نے اپنے لبوں کو سی لیا تھا اُس نے اپنی چاہت
سے اپنی فطر ی عادت سے مجبور ہو کر بیان نہیں کیا تھا کہ وہ بولنے سے قاصر
تھی مگردوسری جانب سے ملنے والی محبت نے اُس کو اتنا حوصلہ دے دیا تھا کہ
وہ اپنے بیماری کو جڑ سے ختم کرا دے۔عمامہ اسکے بعد پہلے سے زیادہ مطمن اور
خوش ہو کر جینے لگی تھی اُس نے ایک دن اپنے ہم سفر کو جو کہ اس کا پسندیدہ
مصنف بھی رہ چکا تھا بتا دیا تھا کہ وہ کس قدر پگلی پرستار تھی اور اپنی
ایک حسرت کو کیسے اُس کے رب نے پورا کر دیا تھا۔ |