میں سلمان ہوں(٧٤)

کس قدر نادان ہو تم
کسی کی عزت کسی کی امان ہو تم
گھر بھر کی عزت کی تھانے دار ہو تم
کچھ بھی کرو مگر سوچ لو
اسلام کی پہرے دار ہو تم

ندا کے گھر والے بہت مطمئن ہو کے گھر لوٹے تھے،،،وہ امجد کی چھوٹی سی فیملی سے خوش تھے‘‘،،،
اک بوڑھی ماں تھی جو آج ہے کل نہیں،،،امجد سیدھاسیدھا سا انسان تھا،،،بس بچے کی سوتیلی ماں سے،،
ڈرتا تھا،،،سلمان نے اس کے دماغ میں بیٹھادیا تھا کہ ندا نہ صرف اس کے بچے،ماں،بلکہ پورے گھر،،
کو سنبھال لے گی،،،اس طرح سے وہ گھر،ماں،بچے سے بے فکر رہ پائےگا،،،
اس سب کے بعد سلمان کا کام آسان ہوگیا تھا بہت جلد ندا اپنے گھر کی ہوجائے گی،،،بقیہ زندگی،،
وہ اک مرد کے نام کے ساتھ گزارے گی کچھ عرصے میں اس کا دل بھی لگ جائے گا،،،
بانو سلمان کی بہت شکر گزار تھی،،،اسےبہت افسوس تھاکہ اس نے اسے بہت برا بھلا کہاتھا‘‘،،،
مگر اس نے بات دل میں رکھنے کی بجائےگھر کے اک فرد کی طرح سوچا،،،
جس سے اسے ندا کی بات یادآئی،،،ماں دیکھ لینا اک دن تو اپنے رویے پر بہت پچھتائے گی،،
جب سلمان کی اصلیت کھل کے آئے گی،،،وہ بہت الگ ہے سب سے،،،اس کے حالات سے اسے،،،
نہ تولا کرو،،،حالات کب اک سے رہتے ہیں،،،ٹھیک کہتی تھی ندا،،،میری بیٹی کو مجھ سے ذیادہ،،
لوگوں کی پہچان ہے،،،
گھر آکر اس نے ندا کے سامنے اس کے ہونے والے سسرال کی تعریفوں میں زمین آسمان اک کردئیے،،،
ندا نے ذرا بھی انٹرسٹ نہ لیا تو بانو غصے سے بولی،،،اچھا جا،،سلمان سے پوچھ لے‘‘،،،
اس دنیا میں سب سے ذیادہ تیرا حمایتی اور تو اس کی حمایتی ہے‘‘،،،ہمارا یقین نہ کرنا‘‘،،،
اس کی ہربات وزن والی ہوتی ہے‘‘،،،ہم ماں باپ تیرے دشمن،،،ندا خاموشی سے اٹھ کر سلمان کے کمرے‘‘،،
کی طرف چل پڑی،،،،پوچھوں گی،،،اس سے تو ضرورپوچھوں گی‘‘،،،میرا بزرگ بنا ہوا ہے آجکل‘‘،،،
اس کی تو میں،،،،ماں نے حیرت سے نداکو دیکھا‘‘،،،بولی ہائے،،،اب تو اس سے پوچھے گی،،،

لڑے گی اس سے،،،یا اللہ،،،یہ میں کیا دیکھ سن رہی ہوں،،،،ندااب سلمان پر غصہ کرے گی،،،
ندا نے پلٹ کے ماں کو دیکھا،،،سلمان سے نہیں،،،رشتے والی ماسی سے لڑنے جا رہی ہوں‘‘،،،
ماں کی سانس میں سانس آگئی،،،مسکرانے لگی‘‘،،،(جاری)
 

Hukhan
About the Author: Hukhan Read More Articles by Hukhan: 1124 Articles with 1189876 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.