’’ ہم نے صرف پاکستان کا مطالبہ نہیں کیا ،جو کہ
ایک زمین کا ٹکڑا ہے بلکہ ہم نے ایک ایسی ریاست کو چاہا ہے
جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں۔‘‘
﴿ قائدِاعظمؒ 1946 ء اسلامیہ کالج پشاور﴾
’’مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرزِ حکومت کیا ہوگا ؟پاکستان
کے طرزِ حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں ۔مسلمانوں کا طرزِ حکومت
آج سے 1300سال قبل قرآنِ کریم نے وضاحت کیساتھ
بیان کردیا تھا،الحمداﷲ قرآن ِکریم ہماری رہنمائی کیلئے موجود ہے اور قیامت
تک کیلئے موجود رہے گا۔‘‘
﴿قائدِاعظمؒآل انڈیا مسلم لیگ خواتین فیڈرشن کا اجلاس بتاریخ۱۵نومبر۱۹۴۷ء﴾
۲ مارچ ۱۹۴۵ء پشاور میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔
’’کہ جسطرح ہمارا انگریزوں سے کوئی تعلق نہیں اسی طرح ہمارا ہندوؤں سے بھی
کوئی تعلق نہیں اور یہ آپس میں متحد بھی ہوجائیں پھر بھی ہماری ان دونوں
کیساتھ جنگ رہے گی (اور ایک الگ مملکت کا مطالبہ کیا) ‘‘
اُن کے اس خطاب سے ممبر اور ،مہراب پر ایک بھونچال آگیا قائدِاعظم کو
کافرِاعظم تک کہا گیا ،بالکل آپ کے پورب میں ایک جلسہ ہوا وہاں کہا گیا کہ
پاکستان تو کیا ہم پاکستان کا ’’پ‘‘ بھی نہیں بننے دینگے۔علامہ اقبال
ؒ1938ء میں زندگی اور موت کی کشمکش میں تھے لیکن انہوں نے اس نظریے کی
تبلیغ اس وقت بھی نہیں چھوڑی حسین احمد مخدوم ٹانڈوی کے نام آپ کے مکتوبات
موجود ہیں جسمیں آپکا ان سے مکالمہ و مناظرہ جو ہوا وہ تاریخ کے اوراق میں
اب بھی موجود ہے جب اس نے یہ فتویٰ دیا کہ ’’ملتیں اوطان سے بنتی ہیں وطن
خمیر ہے قومیت کی‘‘۔علامہ اقبال ؒ نے اسکا جو جواب دیا تھا وہ کلیاتِ اقبال
میں حسین احمد کے نام سے موجود ہے فرمایا
سرود برسرِمنبر کہ ملت است وطن است
چہ بے خبر زمقامِ محمد ﷺ عربی است
بمصطفیٰﷺبرساں خویشِ را کہ ہمہ اوست
اگر بہ اونہ رسیدی تمام بو لہبی است
اقبال علیہ الرحمتہ نے جو دلیل پیش کی وہ کتنی خوبصورت ہے اُسکے مفہوم سے
اُسکی خوبصورتی کا ندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
کہ ملتیں اگر اوطان سے بنتی ہوتیں اگر وطن کی مٹی سے ملتیں معرزِوجود میں
آتی ہوتیں پھر آنحضرت ﷺ کو ابو لہب سے کیا اختلاف تھا وہ تو رشتے میں آپ کے
سگے چچا تھے وطن بھی وہی ،دیس بھی وہی، مٹی بھی وہی، آب و ہوا بھی وہی ابو
جہل سے کیا اختلاف تھا لیکن کہا گیا کہ
﴿لکم دینکم ولی دین﴾ ترجمہ: ’’تمہارا دین تمہارے لئے میرا دین میرے لئے‘‘۔(القرآن)
تو ثابت یہ ہوا کہ یہ دو قومیتیں وجود میں جو آئیں یہ وطن کی بنیاد پر
معرزِوجود میں نہیں آئیں یہ دین و اعتقاد کی بنیاد پر معرزِوجود میں آئیں
ایک طرف سگے چچا ہیں انکو فرما رہے ہیں کہ ’’میرا آپ سے کوئی تعلق نہیں‘‘
اور دوسری طرف فارس سے آئے ہوئے حضرت سلمان فارسی ؓ ہیں جنہیں سینے سے لگا
کر فرماتے ہیں کہ’’ لوگو ں سن لو سلمان میرے اہلِ بیت میں سے ہیں۔‘‘ان کا
نسب اور تھا رنگ اور تھا لیکن حضورﷺ کا یہ کہنا اس نظریے کی بنیاد پر مہر
ثبت ہوگیا تو یہ نظریہ نہ ہمارا ایجاد کردہ ہے اور نہ ہی آپکا بلکہ اسکے
موجد قرآن و حدیث کی رو سے خود ہمارے نبی آخرالزماں ﷺ ہیں اگر کسی کو اس
نظریے پہ اختلاف ہے تو وہ نہ صرف نظریہ پاکستان کی توہین کا مرتکب ہے بلکہ
نعوزباﷲ قرآن و حدیث کے منافی کا بھی مرتکب ہے۔
اس نظریے کی اساس کو عملی طور پر بانی ِ پاکستان قائدِ اعظم ؒ نے عملی طور
پر تب ثابت کیا جب بمبئی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کے دوران ایک ہندو صحافی
کھڑا ہوا اس نے کہا آپ دو قومی نظریے کی بات کرتے ہیں ہندوستان کو تقسیم
کرنے کی بات کرتے ہیں جبکہ ہمارے آباؤ اجداد تو ایک ہی تھے یہ تو بعد میں
کچھ لوگ عرب سے آئے انہوں نے انکے نظریات بدل دئے اور وہ مسلمان ہو گئے
لیکن ہمارے آباؤ اجداد تو ایک ہی ہیں لحاظہ آپ ہمیں کیوں تقسیم کرنا چاہتے
ہیں آپ خون کو تقسیم کر رہے ہیں وطن تقسیم کر رہے ہیں مٹی تقسیم کر رہے ہیں
غرض وہ بڑے غم وغصے کے انداز میں نہایت تلخ لہجے میں آپ سے مخاطب تھا ۔قائد
اعظم نے اسکی گفتگو نہایت تحمل سے سنی اور کچھ دیر خاموشی اختیار کرنے کے
بعد انتظامیہ سے ایک گلاس پانی طلب کیا ،پانی پیش کیا گیا جسے تھوڑا سا پی
کر آپ نے وہ پانی اس صحافی کو پیش کرتے ہوئے تبسم آمیز لہجے میں فرمایا
لگتا ہے آپ بہت غصے میں ہیں یہ لیں یہ پانی پی لیں سکون میں آجائیں گے ۔اس
صحافی نے قائدِ اعظم کی طرف انتہائی حقارت سے دیکھتے ہوئے نفرت آمیز لہجے
میں کہا یہ پانی میں پیوں ایک مُسلے کا جھوٹا پانی اور انکار کر دیا آپ نے
اسکو جواب دینے کے بجائے مجمع میں سے ایک ترکی نسل کے نوجوان کو مخاطب کرتے
ہوئے پانی پینے کو کہا اُس نے فوراََ وہ گلاس لے کر چند ہی لمحوں میں گلاس
خالی کر دیا اب دوبارہ قائداعظم اس صحافی کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ
آپ کہتے ہو کہ ہم ایک قوم ہیں مجھے یہ بتاؤ میں اگر آپ کے ساتھ زندگی
گزارنا چاہوں تو میری زندگی آپ کے ساتھ بہتر گزرے گی یا اس نوجوان کے ساتھ
صحافی سناٹے میں آگیا آپ نے توقف کے ساتھ فرمایا اسکا میرا نسبی تعلق کوئی
نہیں خاندانی تعلق کوئی نہیں میرا سکا وطن کا ربط و رشتہ بھی کوئی نہیں
لیکن اسلام کی بنیاد پر یہ میرے ساتھ باآسانی زندگی گزار سکتا ہے اور تم
میرے ہم وطن ،ہم زبان ہو لیکن تمہارے ساتھ میری زندگی نہیں گزر سکتی ۔ انکی
یہ گفتگو دو قومی نظریے کیلئے عملی دلیل ثابت ہوئی۔
یہ تمام باتیں اور حقائق جو میں نے آپکو یہاں بیان کئے انکا مقصد صرف یہ
نہیں کہ میں آپکو یہاں پاکستان کی کوئی نظریاتی ڈبیٹ پیش کروں جی نہیں ہر
گز ایسا نہیں ہے دکھ اسبات کا ہے کے ہمارے قائد کے تاریخ میں کچھ کئے گئے
فیصلے اور اقدامات کو بہت سے لوگ اپنے منفی مقاصد کیلئے استعمال کر کے
حقائق کو نہایت توڑ مروڑ کر پیش کرنے میں فنکارانہ صلاحیت رکھتے ہیں لیکن
میرے بیان کئے گئے واقعات و حقائق ہر زی شعور انسان کے زہن میں ہمارے قائد
کے مقاصد اور انکے نسب العین سے بخوبی واقف ہو گئے ہونگے ۔ہمارے اکابرین و
رہنماؤں کی قربانیاں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صورت میں انکی طرف سے ایک
امانت ہیں ہمیں کچھ بھی کہنے سے پہلے یہ خیال رکھنا چاہئے کہ کہیں ہم اپنے
قائدین کی قربانیوں کو اپنے الفاظوں کے نشتر سے نامحسوس طریقے سے نشانہ تو
نہیں بنا رہے اور ان نامکمل غیر تصدیق شدہ شواہد پیش کر کے لوگوں کے ازہان
پر ان قربانیوں کیلئے شبہات تو نہیں پیدا کر رہے۔
ایک حقیقت جو میں آپکو قائد اعظم ؒ کہ پرسنل سکیٹری مکتوب الحسن کی کتاب سے
اقتباس کرنا چاہتی ہوں وہ ملاحظہ کیجئے
قائدِ اعظم ؒ نے وائسرائے کو اطلاع دی کہ جو حکومت آپ نے قائم کی ہے وہ
مسلمانوں کی نظر میں بہت غلط ہے لیکن موجودہ حالات میں حکومت کی باگ ڈور
کانگریس کے ہاتھوں میں چھوڑدینے سے بھی مسلمانوں اور اقلیتوں کا مفاد خطرے
میں پر جائے گا ۔چنانچہ وائسرائے کیمطابق مسلم لیگ کے پانچ نمائیندے نامزد
کئے گئے انہی میں ایک نام نیچ زات کے ہندو جوگندرناتھ منڈل کا بھی تھا ۔ان
واقعات نے ہندوستان کی سیاسی فضا بدل دی اور اسکے کئی ا ثرات سامنے آئے ایک
تو یہ کہ مسلم لیگ کا حکومت میں اسطرح سے گھس جانا وائسرائے اور حکومتِ
برطانیہ کے وزارتی مشن کے کرتوت کا منہ توڑ جواب تھا دوسرے یہ کہ جو گندر
ناتھ منڈل ہندوؤں کی نیچ زات سے تعلق رکھتا تھا اور اسکی نامزدگی سے یہ
مطلب نکالا گیا کہ اقلیتوں کی خیر خواہ اگر کوئی جماعت ہے تو وہ صرف مسلم
لیگ ہے۔
قائدِ اعظم ؒ کی اس حکمتِ عملی نے برطانوی اور ہندوستانی سیاسی حلقوں میں
ایک کھلبلی مچا دی ایک برطانوی اخبار نے تو قائدِ اعظم ؒ کو سیاسی جادوگر
کا لقب بھی دیدیا ،1946ء میں مسلم لیگ نے عبوری حکومت میں اپنے نمائندے
نامزد کئے جسمیں جوگر ناتھ منڈل کو بھی شامل کیا گیا یہ ایک ایسا سیاسی داؤ
تھا جس سے ہندو اور انگریز دونوں قیادتیں ھکا بککا ہو گئیں ۔
قائداعظمؒ کی اسوقت کی سیاسی حکمتِ عملی اور سیاسی بصیرت کو انکے اسوقت کے
پیش کردہ حالات کے پیشِ نظر انکی طے کی گئے اقدامات کو آج کل کے کچھ عناصر
نجانے کن مقاصد کے تحت کسی اور رنگ میں پیش کرکے لوگوں کے ازہان میں قائد
کیلئے شبہات پیدا کرتے ہیں یہ بات درست ہے کہ قائدِ اعظم نے اسلامی اصولوں
کے پیش نظر اقلیتوں کے حقوق کی ہمیشہ پاسداری کی اور اتنی ہی حد تک کی جتنی
کے اسلام نے تعین کی ہے ، نیز اسبات کا بھی خیال رکھا کہ ہر کسی کو اسکی
قابلیت کی بنیاد پر کوئی نا کوئی اعزاز سے نوازا پر کہیں بھی انہوں نے
پاکستان کے آئین و قوانین کسی اقلیت سے نہیں بنوائے خود شامل ہو کر
پارلیمنٹ اور شوریٰ کی مرضی سے متعین کئے نیز اسلامی قدروں کو ملحوظِ خاطر
رکھا۔آپ پاکستان بننے کے بعد سے اب تک کی قومی اسمبلی کے صدور کی لسٹ
نکالیں آپکو کہیں ان اسپیکرز میں منڈل صاحب کا نام نظر نہیں آئے گا رہی بات
مزید نوازشات کی تو وہ آپ نے نظریہ پاکستان کے منشور کو ملحوظِ خاطر رکھتے
ہوئے عطا کیں ۔
ہم اگر اپنے اکابرین کے فیصلوں کو اپنی سمجھ کی عینک لگا کر لوگوں کے بھی
ازہان پر وہی باتیں پیوسط کرنا چاہینگے جسسے پاکستان کی اساس یا ہمارے قائد
کے نظریات پر عوام کسی قسم کے ابہام کا شکار ہوں اور انکی قربانیاں لوگوں
کی نظر میں بے وجہ ٹھریں تو ہم سے زیادہ بے انصاف اور کوئی نہیں ہم اگر
اپنے وطن کے نظریات پر دن دہاڑے ڈاکہ ڈالینگے تو ہاں ہم بے انصاف ہیں،ہاں
ہم واقعی بے انصاف ہیں ۔ |