مجدی اپنے کیبن میں بیٹھا فیس بک پر کچھ نئی قسم کی پوسٹس
اپ ڈیٹ کر رہا تھا۔ اسے پرویز صاحب نے مذہب کے خلاف کچھ نئی باتیں بتائیں
تھیں تا کہ لوگوں کے ذہن میں مذہب سے نفرت پیدا ہو اور پاکستان میں عوام
دین سے دور ہو جائے۔ مگر مجدی کے ذہن کے ایک گوشے میں وہ رات اور اس کا
پرسرار ماحول اب تک اجاگر تھا۔ جب اس کا یہ آفس کوئی عام بنگلہ نہیں بلکہ
کوئی بھوت بنگلہ لگ رہا تھا۔ اس نے فیس بک پیج پر ایک پوسٹ اپ ڈیٹ کی اور
اپنی سیٹ پر ٹیک لگا کر کچھ سوچنے لگا۔
اس رات کا اندھیرا یک دم اس کی آنکھوں پر چھا گیا۔ ان کا آفس بڑا خاموش قسم
کا ہوتا تھا۔ پر کوئی اپنے دڑبے نما کیبن میں گھسا کچھ نا کچھ تخریب کاری
کرتا رہتا تھا۔ بہت ذیادہ ہلچل یا گہما گہمی یہاں نہیں ہوتی تھی۔ مجدی
آہستہ سے اٹھا اور اپنے کمرے سے باہر کو نکل کر کھڑا ہو گیا۔ سامنے وہی
لکڑی کا یڑا سا گول دروازہ تھا جو روز کی طرح آج بھی بند تھا۔ مین ہال میں
کوئی نہیں تھا۔ مجدی غور سے اس دروازے کے نیچے بنی جھری کو دیکھنے لگا۔ وہی
جھری جہاں سے اس دن اسے مدھم مدھم سی روشنی نظر آئی تھی۔ کہیں وہ اس کا وہم
تو نہ تھا۔ کیا واقعی اس رات اس بند دروازے کے پیچھے کوئی تھا؟؟؟
پھر اچانک اسے یاد آیا کہاس کے کولیگ زین کو دیکھتی ہی کچھ دیر میں وہ مدھم
روشنی بھی بجھ گئی تھی۔’’ اس کا مطلب ہے واقعی وہاں کوئی موجود تھا!!!‘‘
مجدی ٹکٹکی باندھے اس دروازے کو دیکھتا جا رہا تھا اور جانے کیا کچھ سوچتا
جا رہا تھا۔ ہال میں کوئی نہ تھا۔ مجدی نے چار پانچ قدم آگے بڑھائے اور
ہاتھ بڑھا کر اس دروازے کا ہینڈل گما دیا۔
’’ٹی ٹا ٹی ٹا ٹی ٹاٹی ٹا!!!‘‘ کہیں سے زور زور کا سائرن بجنے لگا۔ مجدی کی
تو جیسے جان ہی نکل گئی۔ وہ کپکپا کر پیچھے کو ہٹا اور تیز تیز قدم چلتا
ہوا اپنے کیبن میں گھس گیا۔
’’اْف! وٹ از دیٹ؟؟؟‘‘ مجدی بہت گھبرا گیا تھا۔ اس کے تو تصور میں بھی نا
تھا کہ ایسا کچھ ہو جائے گا۔ وہ عجیب بے چین سا ہو گیا۔
’’ٹی ٹا ٹی ٹا ٹی ٹاٹی ٹا!!!‘‘ سائرن اب تک بج رہا تھا۔
’’شٹ یار!‘‘ مجدی خود کو کوسنے لگا کہ کیا ضرورت تھی جیمز بانڈ بننے کی۔
اسے پتا تھا اب یکے بعد دیگر سب جمع ہو جائیں گے اور کسی نا کسی طرح سب کو
پتا چل ہی جائے گا کہ یہ مجدی تھا۔
وہی ہوا۔ زین، سلمان، پرویز صاب اور ایک خاتون بھی ۔۔۔ سب باہر ہال میں جمع
ہو کر ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ کس نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی ہے۔
’’بہتر ہے میں بھی باہر نکل جاؤں۔۔۔‘‘ مجدی نے خود سے کہا اور شرمندگی کے
عالم مفں باہر ہال میں آیا۔ اس کے نمودار ہوتے ہی سب کی نظریں اس پر جم
گئیں۔ ہر کوئی اسے گھور گھور کر دیکھنے لگا۔سب کو پتا چل گیا تھا کہ مجدی
کا ہی کارنامہ ہے۔
’’ام م م ۔۔۔ سوری سر ۔۔۔ یہ بس میں نے۔۔۔ کھول دیا تھا۔۔۔‘‘ مجدی کسی
کھسیانی بلی کی طرح بات کر رہا تھا۔
’’اوہ۔۔۔‘‘ پرویز صاحب نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
’’جی بس۔۔۔ بس یونہی میں نے ۔۔۔ ا م م م ۔۔۔ غیر ارادی طور پر۔۔۔‘‘ مجدی
کٹے پٹے جملوں میں بات کر رہا تھا۔
’’اچھا! ویل ۔۔۔ او کے۔۔۔ دیر از نتھنگ انسائڈ اٹ۔۔۔کچھ نہیں ہے یہاں۔۔۔‘‘
صاف یتا چل رہا تھا کہ پرویز صاحب کو مجدی کی یہ حرکت بری لگی ہے۔
’’سوری سر۔۔۔‘‘ مجدی بولا اس کے چہرے کا رنگ لال ہو گیا تھا۔
’’اٹس او کے۔۔۔‘‘ کہہ کر پرویز صاحب نے ایک دیوار پر لگا ایک بٹن دیایا جس
سے وہ سائرن آف ہو گیا۔ سب ایک ایک کر کے اپنے اپنے ڈیسکس پر واپس چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔
میں مغرب کی نماز پڑھ کر اپنے کمرے میں بیڈ پر بیٹھ گیا۔ ایک کتاب اٹھائی
اور اس کی ورق گردانی کرنے لگا۔ اتنے میں امی اور بہن کمرے میں چہکتی ہوئیں
داخل ہوئیں۔
’’کیا کر رہے ہو بیٹا؟؟؟‘‘ امی نے چہرے پر ایک بڑی سی مسکراہٹ پھیلی ہوئی
تھی۔
’’بس امی کچھ نہیں۔۔۔ کیا ہوا؟؟؟‘‘ میں ٹکر ٹکر امی اور بہن کو تکنے لگا کہ
جانے کیا خوشخبری لائیں ہیں جو اتنی کھلییں کھلییں سی ہیں۔ میں بیڈ پر سے
نیچے زمین پر پیر رکھ کر بیٹھ گیا ۔
’’یہ دیکھو بیٹا ۔۔۔ یہ ہے وہ لڑکی جس کی اس دن ہم بات کر رہے تھے۔‘‘ امی
نے ایک خوبصورت لڑکی کی تصویر میرے سامنے کر دی۔
’’ ہی ہی ہی۔۔۔ ‘‘ میں ہلکا سا ہنس دیا اور سمجھ گیا کہ کیا چکر ہے۔ لڑکی
تو واقعی خوبصورت تھی۔ میں نے کچھ لمحے اسے دیکھا اور تصویر واپس امی جان
کو تھما دی۔
’’اچھی ہے نا؟؟؟‘‘ امی اور بہن دونوں ایکسائٹڈ ہو کر پوچھنے لگیں۔
’’ہاں! ماشاء اللہ اچھی ہیں۔‘‘ میں نے کچھ فارمل سا ہو کر کہا پھر دوبارہ
مسکرانے لگا۔ امی بھی وہیں بیڈ پر ساتھ بیٹھ گئیں۔
’’تو بات کروں؟؟؟ چلیں ان کے گھر؟؟؟‘‘ امی ڈاکٹر ذیشان کے مشورے پر بہت
اچھی طرح عمل کر رہیں تھیں کہ جلد از جلد مجھے شاری کے بندھن میں باندھ
دیں۔ میں بھی شادی کرنا چاہتا تھا مگر کسی اور سے۔۔۔
’’امی وہ۔۔۔‘‘ میں نے رک رک کر سنجیدہ لہجے میں بات کی۔ امی ٹکٹکی باندھ کر
مجھے دیکھنے لگیں کہ جانے کیا سنجیدہ بات میں کہنے لگا ہوں۔
’’وہ۔۔۔ اصل میں میں۔۔۔ میں ۔۔۔ مجھے ’روشن‘ میں ایک لڑکی پسند ہے۔‘‘ میں
نے مشکل سے اپنی بات کی۔ میں کچھ شرما سا رہا تھا۔
’’روشن میں؟؟؟‘‘ امی نے حیرت سے پوچھا۔
’’جی۔‘‘ میں مسکرا گیا۔
’’اچھا کون؟؟؟‘‘ وہ پوچھنے لگیں۔
’’سمینہ ۔۔۔ سمینہ نام ہے اس کا۔۔۔‘‘ میں نے امی کو سمینہ کا نام پتا کام
دھام سب بتا دیا۔ اس کی ساری روداد انہیں سنا دی۔ امی اور بہن کو بھی سمینہ
سے بہت ہمدردی ہونے لگی۔ انہوں نے جلد ہی ’روشن‘ جا کر سمینہ کے والد سے
میرے رشتے کی بات کرنے کا فیصلہ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
مجدی اس دن میرے آفس میں ہی تھا۔ شام ہو چکی تھی۔ ہم دونوں ہی اپنے اپنے
کاموں سے فارغ ہو گئے تھے۔ میں نے اپنے آفس سے بیٹھے بیٹھے ہی مجدی کو ہاتھ
سے اشارہ کیا۔
’’ہاں کیا ہوا؟؟؟‘‘ مجدی نے آفس کے اندر آتے ہی پوچھا۔ اسے لگا شاید کوئی
کام ہے۔
’’کیا ہو رہا ہے؟؟؟ ہو گئے فارغ؟؟؟‘‘ میں تو گپ شپ کے موڈ میں تھا۔
’’ہاں۔ بس وائنڈ اپ ہی کر رہا تھا۔۔۔‘‘ مجدی بھی آفس سے نکلنے کی ہی تیاری
کر رہا تھا۔
’’چلو! پھر کہیں چلتے ہیں۔۔۔ دلاور کو بھی لے لیتے ہیں۔۔۔‘‘ میرا کچھ
گھومنے پھر نے کا موڈ بنا ہوا تھا۔ کافی دنوں سے ہم دوستوں کی کوئی گیدرنگ
نہیں ہوئی تھی۔ میں نے سوچا دلاور کو بھی فون کر کے بلا لوں گا اور کہیں
کافی شافی پی لیں گے۔ تھوڑا فریش ہو جائیں گے۔
’’اچھا میں اپنا لیپ ٹاپ لاگ آف کر دوں۔ پھر نکلتے ہیں۔۔۔‘‘ مجدی بھی تیار
ہو گیا۔
مجدی کے آفس سے نکلتے ہی میں نے موبائیل پر دلاور کا نمبر ملایا۔ مجھے کچھ
خاص توقع نہیں تھی کہ وہ اس وقت مل پائے گا۔ کیونکہ اس کے اپنے ہی کوئی نا
کوئی پروگرام چل رہے ہوتے تھے۔
بیل جانے لگی ۔ مگر کسی نے فون نہ اٹھایا۔ میں نے کال نہیں کاٹی۔
دوسری طرف دلاور اپنا موبائیل اپنے ہاتھ میں لیے کچھ پریشان سا کھڑا تھا۔
میرا نام اور نمبر اس کے موبائیل پر چمک رہا تھا۔ مگر وہ کال ریسیو نہیں کر
رہا تھا۔ بس اپنے موبائیل کو گھور گھور کر تکتا جا رہا تھا۔ وہ کال کاٹنا
بھی نہیں چاہتا تھا کہ اس طرح مجھے پتا چل جاتا کہ اس نے کال کاٹی ہے۔
تھوڑی دیر میں میں نے خود ہی کال کاٹ دی۔ دلاور نے ایک گہرا سانس لیا اور
موبائیل اپنی جیب میں رکھ دیا۔ وہ وہیں اپنے کمرے میں اپنی جگہ جم کر کھڑا
تھا۔ کسی گہری سوچ میں گم تھا ۔ یک دم اس کا موبائیل دوبارہ بجنے لگا۔ میں
نے پھر کال ملا دی تھی۔ بیل جاتی رہی مگر دلاور نے فون نہیں اٹھایا۔ اس نے
موبائیل سائلینٹ کیا اور بستر پر ایک طرف پھینک کر خود بھی دھڑام سے بستر
پر گر گیا۔
’’ دلاور تو پتا نہیں کہاں ہے!!! فون نہیں اٹھا رہا ۔‘‘ میں نے مجدی سے کہا
اور ہم دونوں آفس سے باہر نکلے۔
’’کہیں ہو گا۔۔۔ اس کا توتمہیں پتا ہی ہے۔‘‘مجدی نے سرسری سا جواب دیا۔
جیسے اسے پہلے سے ہی پتا تھا کہ اتنے شارٹ نوٹس پر دلاور آنے والا نہیں ۔
بہرحال ہم دونوں وہیں موجود ایک نزدیکی کافی شاپ گئے او وہاں سے دو کافی
اور کچھ ڈونٹس لے لئے۔
’’چلو ’روشن‘ چلتے ہیں!!!‘‘ اچانک میرے ذہن میں خیال آیا۔ میں نے مجدی سے
پوچھاتو اس نے بھی سر ہلا کر او کے کہہ دیا ۔ میں نے خوش ہو کرگاڑی دوسری
سڑک پر ٹرن کر لی۔
’’آج تمہیں ’روشن‘ میں کسی سے ملواؤں گا۔۔۔‘‘ میں نے چمکتی آنکھوں سے مجدی
کی طرف دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر بھی ایک شرارتی مسکراہٹ ابھر آئی ۔میں اسے
سمینہ سے ملوانا چاہتا تھا۔ اندر ہی اندر میں بہت خوش تھا۔ خود ہی خود
سمینہ کو اپنا جیوان ساتھی بنانے کے خواب دیکھنے لگا تھا۔ اب تو میں گھر
والوں سے بھی سمینہ کے بارے میں بات کے چکا تھا۔ مجھے پوری امید تھی کہ اب
میں جلد ہی شادی کے بندھن میں بندھ جاؤں گا۔
راستے میں مجدی نے اور میں نے ایک دو بار پھر دلاور کو فون کیا مگر اس بار
بھی دلاور کی طرف سے کوئی جواب موصول نہ ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔
’روشن‘ میں داخل ہوتے ہی ہمیں سامنے ہی ڈاکٹر ذیشان نظر آ گئے۔ وہ کچھ
اسٹاف ممبرز کے ساتھ ایک نئی عمارت کا معائنہ کر رہے تھے جس کی تعمیر ابھی
جاری تھی۔
’’اوہ ۔۔۔ مجدی بیٹا!۔۔۔ ذولقرنین!‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے ہم دونوں کو دیکھتے ہی
گرم جوشی سے مخاطب کیا۔ ہم دونوں بھی آگے بڑھ کر ان کے لگے لگ گئے۔ کچھ دیر
اور اسی نئی عمارت کا معائنہ کر نے کے بعد وہ ہمیں لے کر گارڈن میں سوئمنگ
پول کے پاس آ بیٹھے۔ ہم بھی وہیں آمنے سامنے رکھے بینچ پر بیٹھ گئے۔
’’دیکھو بیٹا! ایسا نہیں ہے کہ اللہ کو اس دنیا سے کوئی غرض نہیں ہے اور
یہاں جو بھی حالات وقع پزیر ہو رہے ہیں وہ ان نے لا علم ہے یا لا تعلق
ہے۔‘‘ ان کے ذہن میں اب تک مجدی کے پوچھے گئے سوالات دبے ہوئے تھے۔ آج
انہوں نے مناسب موقع جان کر مجدی کو سمجھانا شروع کیا۔
’’یہاں جب بھی کوئی آفت آتی ہے تو خدا تعالی کی مرضی ہی سے آتی ہے۔‘‘
’’ہر ایک کی موت کا وقت مقرر ہے۔ جو کسی زلزلے سے نہیں مرتا یا قحط سے نہیں
مرتا وہ کسی بیماری سے مر جاتا ہے۔ یہ تو ایک حقیقت ہے۔
’’ ۔۔۔یا کوئی کسی دہشت گردی کی واردات سے انتقال کر جاتا ہے۔ اللہ تعالی
ہی اس دنیا کو چلا رہا ہے مگر اس نے ہم انسانوں کو یہاں کی خلافت اور
انتظام سونپ دیا ہے۔ ہم یہاں اللہ کے نمائندے ہیں۔ اب اگر ہم ہی اپنا کام
ٹھیک طرح سے نہیں کریں گے اور ہر فتنہ جو ہماری کوتاہیوں سے برپا ہوتا ہے
اس کا قصور وار اللہ کو ٹھہرا دیں تو یہ تو صحیح نہیں نا۔۔۔‘‘
’’جنگیں کون کرتا ہے؟ حکومتیں‘‘
’’وسائل پر قبضہ کون کرتا ہے؟ طاقتور قوتیں‘‘
’’کسانوں کا خون کون جوستا ہے؟ زمیندار‘‘
’’مجبوروں کو۔۔۔ غریب قوموں کو سودی قرضوں میں کون پھنساتا ہے؟ انسانوں کے
قائم کردہ بنک۔‘‘
’’دنیا میں اتنے وسائل آج بھی موجود ہیں کہ زمین جتنی آبادی کے تین سیاروں
کو پالنے کے لئے کافی ہیں۔‘‘
’’سب فتنے خود پھیلا کر ہم اللہ کو ساری مصیبت کی وجہ کہنے لگیں۔ یہ تو
کوئی منصفانہ بات نہ ہوئی۔۔۔‘‘
’’حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں ایک بار شدید قحط آیا۔ سات سال تک بارش کی ایک
بوند بھی نہیں گری۔ دیائے نیل ،دنیا کا سب سے بڑا دریا سوکھ گیا۔۔۔ مصر اور
اس کے گرد و نواح کی تمام زمین بنجر ہو گئی۔ مگر اللہ خود لوگوں کو پانی
پلانے عرش سے نہیں اترا۔۔۔ اس نے مصر کے بادشاہ کو خواب میں آنے والے مشکل
وقت کے بارے میں مطلع کیا ۔۔۔ اور پھر آگے تو سارا قصہ بائیبل میں بھی لکھا
ہے۔ ‘‘
’’بائیبل تو آپ نے پڑھی ہی ہو گی؟‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے مجدی سے پوچھا۔ مجدی نے
نے ہلکا سا اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’بادشاہ نے حضرت یوسف ؑ سے خواب کی تعبیر پوچھی اور انہوں ا ن لوگوں کو اس
مشکل سے نکلنے کا حل بتا دیا۔ کہ سات سال تک خوب بارش ہو گی۔ ان سات سالوں
میں آنے والے قحط کے لئے غلہ جمع کر لیں۔‘‘
’’اب اگر بادشاہ نبی وقت کی بات نہ مانتا ان کی نافرمانی کرتا تو کیا اس
میں اللہ کا قصور ہوتا؟؟؟ اللہ نے تو اپنا نمائندہ بھیج کر انہیں تباہ ہونے
سے پچا لیا۔ جب کہ اس وقت مصر کے لوگ اہل ایمان بھی نہیں تھے ۔۔۔ پھر
بھی۔۔۔‘‘ مجدی نے ایک گہرا سانس لیا۔ جیسے ڈاکٹر ذیشان کی باتوں سے اسے کسی
قدر گھٹن کا احساس ہو رہا ہو۔وہ تو اپنا فیصلہ کر چکا تھا۔ اب وہ کچھ بھی
سمجھنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ ویسے بھی جیسی عیش و عشرت اور دولت کی فراوانی
اسے اب میسر آرہی تھی وہ پہلے تھوڑی میسر تھی۔ اور نہ ہی اسے کوئی امید تھی
کہ اپنی یہ جاب چھوڑ کر اسے کہیں اور اسے اتنی اچھی آمدنی حاصل ہو سکتی ہے۔
’’۔۔۔بالکل اسی طرح اگر ہم بھی رسول اللہ ؐ کی بتائے ہوئے طریقے پر اپنا
نظامِ زندگی مرتب کریں گے تو اللہ بھی با وقتِ مشکل ضرورضرور ہماری امداد
کرے گا جیسے مصریوں کی کی۔۔۔‘‘
’’چچ۔۔۔ چھوڑیں ان باتوں کو ۔۔۔ یہ سب من گھڑت قصے کہانیاں ہیں۔ جو ہمیشہ
سے چلتے آ رہے ہیں۔۔۔‘‘ مجدی نے بیزار ہو کر کہا۔ میں اور ڈاکٹر ذیشان مجدی
کی بات سن کر ٹھٹھک کر رہ گئے۔
’’نہ کوئی اللہ ہے نہ کوئی رسول نہ یوسف نہ عیسی نہ موسی ۔۔۔ یہ سب لوگوں
بنائی ہوئی باتیں ہیں ۔۔۔ مجھے تو ان توہمات پر تب تک یقین نہیں ہو گا جب
تک کہ میں خود اللہ کو نہ دیکھ لوں یا فرشتوں کو یا کوئی اور بڑا معجزہ
مجھے بھی نہ دکھایا جائے جیسے پہلے لوگوں کو دکھائے گئے تھے۔۔۔‘‘ مجدی کے
لہجے میں انتہا درجے کا غرور و تکبر چھلک رہا تھا۔
’’ہونہہ۔۔۔ ‘‘ ڈاکٹر ذیشان ہلکا سا طنزیہ ہنس دئیے۔ ’’ہماری اتنی استطاعت
نہیں ہے کہ ہم اللہ کو دیکھ سکیں بیٹا ! ورنہ وہ ضرور اپنے آپ کو عیاں کر
دیتا!‘‘ مجدی نے یہ بات سن کر اپنا مونہہ ٹیڑھا کر لیا۔
’’کیا تمہاری آنکھیں چمکتے سورج کو دیکھ سکتیں ہیں؟؟؟ نہیں۔۔۔ مگر سورج
موجود ہوتا ہے۔‘‘
’’کیا تم کسی تنود میں بیٹھ سکتے ہو ؟؟؟ نہیں۔ جل کر راکھ ہو جاؤں گے۔ تو
کیا وہ تنور موجود نہیں؟؟؟‘‘
’’کیا تم جانوروں کی طرح سونگھ سکتے ہو؟ سن سکتے ہو؟‘‘
’’موسی نے بھی اصرار کیا تھا کہ اللہ کو دیکھیں۔۔۔ مگر جب وہ توانائی کا
منبہ وہ تجلی ایک پہاڑ پر ڈالی گئی تو وہ بھسم ہو گیا اور موسی غش کھا کر
گر پڑے۔۔۔ مگر رہتی دنیا میں خدا تعالی کا دیدار نصیب نہ ہوا۔‘‘
’’مجدی بیٹا! یہ شیطان ہمیں پٹیاں پڑھاتا ہے۔ ہمیں گمراہ کرنے کے لئے۔ ورنہ
انسان کے اندر اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ اللہ کا دیدار اس دنیا میں کر سکے ۔
وہ ایک ایسی طاقت ہے ایسی توانائی ہے جو اگر ظاہر ہو جائے تو پہاڑ بھی ریزہ
ریزہ ہو جائیں۔ ہم تو کچھ بھی نہیں۔‘‘
’’کوئی شیطان ویطان نہیں ہے۔ کوئی فرشتے ورشتے نہیں ہوتے۔ میں تنگ آ گیا
ہوں آپ کی باتوں سے۔۔۔‘‘
’’آئی ایم جسٹ لیونگ۔۔۔ ذولقر مجھے ڈاپ کر دو۔‘‘ مجدی اپنی جگہ پر اٹھ کھڑا
ہو گیا اور غصے میں بڑبڑانے لگا۔ ڈاکٹر ذیشان بھی شرمندہ سے ہو کر سر نیچے
کر کے اداس ہو گئے۔
مجدی ’روشن‘ کے خارجی دروازے کی طرف تیز تیز چلنے لگا ۔ میں بھی افسوس کرتا
ہوا چار و ناچار اٹھا اور اپنے سر کو دائیں بائیں جنبش دیتا ہوا اس کے
پیچھے پیچھے ’روشن ‘سے باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
|