روزی نے فراز کو صاف صاف کہہ دیا تھاجب تک آپا کی پرابلم
حل نہیں ہوجاتی،،،ہمارے آنے والےکل پر،،
سوالیہ نشان لگارہے گا،،،فراز اوراس کی ماں بہت اپ سیٹ تھے،،،نداکو امجد
پسند نہیں تھا،،،
وہ اتنا صبر کرنے کے بعد ایک بچے کے باپ سے شادی نہیں کرسکتی تھی،،،
وہ خود فیصلہ نہیں کرپا رہی تھی،،،کہ وہ یہ سب سلمان کی وجہ سے سوچ رہی تھی
،،،یہ،،،
در حقیقت وہ اک شادی شدہ انسان جس کے گھربہت مسائل تھے،،،وہ جانے سے ڈر رہی
تھی،،یاپھر،،،
امجدکابیٹا اسے قبول ہی نہ کرے گا،،،
چھوٹا ہوٹل میں کام کرکے گھر کو نہیں چلا پارہا تھا،،،اس سب کے لیے اسکی
ہمت،،حوصلہ،،سوچ،،
اور ماں کی بیماری،،،جیسے اسے کمزور کررہے تھے،،،
سلمان اپنی ذات کو بھول گیا تھا،،،وہ تنہا رہنا چاہتا تھا،،،نہ روزی،نہ
ندا،نہ ہی چھوٹو کاسامناکرنا چاہتا تھا،،،
اس کی طبیعت میں بے زاری سی پیدا ہو رہی تھی،،،وہ بیڈ پر لیٹا چھت کو گھور
رہا تھا،،،
کیامیں اک کبوتر ہوں؟؟۔۔!جو بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کیے ہوئے لیٹا ہوا
ہے،،،یا میں اک ایسا،،
انسان ہوں جسے دریا پار کرنا ہے،،،مگر وہ دریا میں جانا ہی نہیں
چاہتا،،،سلمان نے خودکو ملامت کیا،،،
اور بیڈ سے اٹھ کر اس نے نہا دھو کر کریم صاحب کے بنگلو جانے کی تیاری
کرلی،،،
فراز کا چہرہ اداس سا ہورہا تھا،،،اس کی ماں بھی بہت ناراض سی تھی،،،کچھ دن
پہلے جس گھرمیں،،،
مہمان شورشرابہ تھا،،،وہاں اک عجیب سی بے چین کر دینے والی خاموشی تھی،،،،
جیسے قبرستان خاموش ہو جاتا ہے،،،جیسے ہی میت دفنا کے لوگ چلے جاتے
ہیں،،،ویسی خاموشی،،،
سلمان نے حالات کی نزاکت کا اندازہ کرنے کے لیے سیدھا برکت کے کچن کا رخ
کیا،،،سلمان کو دیکھتے،،،
ہی برکت کے چہرے پر پریشانی سی آگئی،،،سلمان بھائی کہاں تھے،،،روزی میڈم
کئی بار‘‘،،،
یہاں کا چکرلگا چکی ہیں،،،مگر آپ کا اک بار بھی نہیں پوچھا،،،مگر ہربار وہ
صرف آپکو ہی ،،،
دیکھنے آئی تھی،،،سلمان کو وہ اک سانس میں ساری بات بتانا چاہ رہا
تھا،،،یہاں سب کچھ ٹھیک نہیں،،،
سب کچھ عجیب سا ہے ،،،بس،،،مجھےان کے دکھ درد یاپریشانی دیکھی نہیں
جاتی،،،نمک کھایا
ہے نہ میں نے یہاں کا،،،سلمان بھائی آپ سب کچھ سیٹ کرسکتے ہو،،،
برکت کی اس بات پر سلمان نے چونک کربرکت کو دیکھا،،،،(جاری)
|