اللہ جلّ شانہ نےانسان کوعقل جیسی عظیم نعمت
سےنوازاہے،اورجب تک عقل وحی آسمانی کےنورسےمنوراوراس کےتابع رہتی ہے،تب تک
یہ وحی کی قیدمیں مقیداورلغزش سےکسی حدتک محفوظ رہتی ہے،لیکن جب یہ وحی کی
قیدسےآزادہوجاتی ہےتب اسکی پروازکاکوئی ٹھکانانہیں رہتا،ہواؤں کومسخرکرتی
ہے،فضاؤں کوماپتی ہے،اورچاندپہ پہنچادیتی ہےلیکن خوداپنےخالق کی پہچان
سےہمیشہ قاصر رہتی ہے
یہی وجہ ہےکہ اس کوخالق کےحکمت سےبھرپوراحکام میں بھی کجی نظرآنےلگتی ہے -
عالمِ اسلام کےتمام مسلمان بخوبی جانتےہیں کہ
قربانی ایک مستقل عبادت بلکہ شعائر اسلام میں سے ہے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم نے مدینہ منورہ کے دس سالہ قیام میں ہر سال قربانی فرمائی، حضرات
صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم، تابعین و تبع تابعین بلکہ پوری امت کا
متوارث و مسلسل عمل بھی قربانی کرنے کارہا ہے، آج تک کسی مفسر،محدث اورفقیہ
نے نہ اسے حج اور مکہ معظمہ کے ساتھ خاص سمجھا ہے اور نہ ہی صدقہ و خیرات
کو اس کامتبادل سمجھا ہے۔
اسمیں کوئی شک وشبہ نہیں کہ اسلام نے زکوة کے علاوہ صدقہ وخیرات کے ذریعہ
غریبوں کی مدد کی بہت ترغیب دی ہےلیکن اسکایہ مطلب نہیں کہ قربانی کےدنوں
میں صدقہ وخیرات قربانی کاقائم مقام ہوسکتاہےبلکہ دونوں کی اپنی اپنی اہمیت
ہے،چونکہ ہمارے ہاں قربانی بہت شوق سےکیجاتی ہےاس لئے سازشی ٹولہ ایک عرصہ
سے متواتر دینِ اسلام کے یقینی طور پر ثابت شدہ احکام و شعائر کو مسلمانوں
کی مادی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ باورکراکر ان میں قطع و برید اور ردوبدل کے
در پے رہتا ہے اور جہاں اس سے بھی کام بنتا نہیں دیکھتا تو سرے سے انکار کر
بیٹھتا ہے، یوں غریبوں اوریتیموں کے درد اور خیرخواہی کے پردوں میں الحاد
کا بہت بڑا دروازہ کھل جاتا ہے اور جاہل عوام احکام اسلام کے بارے میں شکوک
و شبہات کا شکار ہوکر گمراہ ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات ایمان ہی سے ہاتھ دھو
بیٹھتے ہیں،اعاذنااللہ من ہذہ الفتَن،حالانکہ
قربانی کے بارے میں جتنی آیات یا احادیث ہیں وہ سب جانوروں کا خون بہانے سے
متعلق ہیں، نہ کہ صدقہ و خیرات سے متعلق۔ نیز ان میں حج اور مکہ معظمہ کی
کوئی تخصیص نہیں،ارشادربانی ہے:
(۱)وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً لِّیَذْکُرُوْا اسْمَ اﷲِ عَلیٰ
مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ۔(سورۂ حج) ترجمہ: ہم نے ہر
امت کے لیے قربانی کرنا اس غرض سے مقرر کیا تھا کہ وہ ان مخصوص چوپاؤں پر
اﷲ کا نام لیں جو اس نے ان کو عطا فرمائے ہیں۔
امام ابن کثیر اوربعض دیگرمفسرین نےوضاحت فرمائی ہے کہ خون بہا کر جانوروں
کی قربانی کا دستور شروع دن سے ہی تمام اَدیان و مذاہب میں چلا آ رہا ہے۔
(تفسیر ابن کثیر)
(۲)وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً ھُمْ نَاسِکُوْہُ۔ (سورۂ حج
ترجمہ: ہم نے ہر امت کے لیے ذبح کرنے کا طریقہ مقرر کیا ہے کہ وہ اس طریقہ
پر ذبح کیا کرتے تھے۔ (۳)فَصَلِّ لِرَّبِکَ وَاْنَحْر۔(سورۂ کوثر۔
ترجمہ: سو آپ اپنے پروردگار کےلئے نماز پڑھئے اور (اسی کے نام کی) قربانی
کیجئے
حدیث نمبر1
ترجمہ: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص استطاعت رکھنے کے
باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے،(ابن ماجہ
حدیث نبر2
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصۂ قیام میں آپ
مسلسل قربانی فرماتے رہیں۔
ترمذی
مذکورہ آیات و احادیث سے مندرجہ ذیل چند امور ثابت ہوئے:
(۱) استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والے پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا، حتیٰ کہ اس کا عیدگاہ کے قریب آنا بھی پسند
نہیں فرمایا۔
(۲) رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کےدس سالہ قیام میں ہر سال
قربانی فرمائی، حالانکہ حج آپ نے صرف آخری سال فرمایا۔ معلوم ہوا کہ قربانی
نہ حج کے ساتھ خاص ہے اور نہ مکہ معظمہ کے ساتھ، ورنہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
مدینہ منورہ میں مسلسل نوسال قربانی نہ فرماتے
(۳) قربانی سے مقصد محض ناداروں کی مدد نہیں جو صدقہ و خیرات سے پورا
ہوجائے، بلکہ قربانی میں مقصود جانور کا خون بہانا ہے، یہ عبادت اسی خاص
طریقہ(خون بہانے) سےہی ادا ہوگی، محض صدقہ و خیرات کرنے سے نہ یہ عبادت ادا
ہوگی، نہ اس کے مطلوبہ فوائد وثمرات حاصل ہوں گے، ورنہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم اور صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے دور میں غربت و افلاس دورِ حاضر
کی نسبت زیادہ تھا، اگر جانور ذبح کرنا مستقل عبادت اوراللہ تعالی کاحکم نہ
ہوتا تو سرورِعالم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کے بجائے ناداروں کے لیے چندہ
جمع کرتے یا اتنی رقم رفاہی کاموں میں صرف فرماتے،آپ تویتیموں کےسرپردستِ
شفقت رکھنےوالےتھے،انکی پرورش کرنےوالوں کوجنت میں اپنی رفاقت کی
نویدسنائی،غریبوں اورلاچاروں کےرکھوالا تھے لیکن پھربھی آپ نےعیدالاضحی
کےموقع پرقربانی ہی کیوں فرمائی؟ ظاہرہےکہ اللہ کاحکم تھا،سنت ابراہیمی
تھی،تب ہی تواُمت کوبھی ترغیب دی اورخودبھی اہتمام فرمایا
خودکوروشن خیال کہنےوالے(تاریک خیال) مادیت کی پوجاسےفارغ ہوں تواُن کوپتہ
چلےکہ قربانی کی روح دراصل لِلّٰہیت اورجان نثاری ہے، معبودِ برحق
کیسامنے(کیوں) کالفظ نہیں بولاجاتا،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تولخت
جگرکےجگرپرچھری چلاتےہوئےبھی کیوں نہیں بولا،دلیل نہیں مانگی،حکمت جاننےکی
کوشش نہیں کی بلکہ محضِ اللہ کےحکم کےسامنےسرِتسلیم خم کیا،
جانِ من!
معبود،معبودہوتاہے وہ
جب اشارہ کر دے تو اس سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ کیوں؛ اور نہ اس کےحکم کے
آگے ’معاشی و مالیاتی‘ مشورے دیئےجاتے ہیں کہ وہ چیز کیونکرمطلوب ہے یہ
کیوں نہیں لیتے
تمہاری یہ نامبارک تحریک کہ:
(اسی رقم سے کسی غریب کے ہاتھ پیلے کرلو)جو تم دینِ اسلام کے شعائر کے موقع
پر چلاتے ہو، کیاکبھی اس قسم کی کوئی ’مخلصانہ‘ تحریک تم نے، ہیپی نیو ایئر
اور ویلنٹائن کے موقع پربھی چلائی،شادی اورغمی کےموقع پرخودساختہ رسومات
پرخرچ کرتےہوئےبھی کبھی غریب یادآیاہےدانشورکو؟
ہمارےمعاشرےمیں شادی بیاہ پرکیا کچھ نہیں لٹایاجاتا! غیروں کےتہواروں پر
کیسی کیسی پارٹیوں کااہتمام ہوتا ہے،لیکن اِس مالیاتی اسراف پر کسی تاریک
خیال کو آج تک کوئی تکلیف ہوئی نہ اس کے خلاف ان کے ہاں تحریک اٹھانے کی
کبھی نوبت آئی،ان مواقع پر ’غریب کی عید‘ کے پلے کارڈ اٹھائے ان کو آپ نے
کبھی نہیں دیکھا ہو گا۔
تو پھر ’’شعائراللہ‘‘کوتوکم ازکم معاف کیجئے کہ یہ تمہاری عقل سے
بلنداوربہت بلند ایک چیز ہے، اس کو دمڑیوں سے ماپنے کی بات خدارا مت
کرو!اورغریب کےلئےجھوٹی صدا مت لگاؤ
خاطرجمع رکھوکہ ، ہمارے شعائر میں تو غریب کا باقاعدہ حصہ رکھا گیا ہے؛
ارشادِ باری تعالی ہے:
فَکُلُوا مِنۡھَا وَأطۡعِمُوا الۡبَائِسَ الۡفَقِیۡرَ (الحج: 28)
’’ان (قربانیوں) سے خودبھی کھاؤ اور تنگ دست محتاج افراد کو بھی کھلاؤ‘‘۔
ہمارےمعاشرےمیں خطِ غربت سےنیچےزندگی گزارنےوالوں کی کمی نہیں جن کو پورا
سال گوشت کھانا نصیب نہیں ہوتا… سوائے ان قربانیوں کےدنوں میں،جی ہاں یہی
وہ دن
ہوتےہیں جن میں غریب کابھی پیٹ بھرجاتا ہے،گوشت چک لیتےہیں اورچہرے پر بھی
کچھ رونق اور خوشی عود کر ہی آتی ہے؛ رحمتِ خدا،عام ہوجاتی ہےاورآپ
جیسےمنکرینِ قربانی
بھی باربی کیو کےمزےاڑالیتےہیں،پھرآگےآئیں اور ہماری آوازمیں
آوازملائیں،خودبھی قربانی کریں اوردوسروں کوبھی ترغیب دیں
بات توفیق کی ہےکسی کامال نائٹ کلبوں،مجروں اوراداکاراؤں کےنخروں کی
نظرہوجاتاہےاورکسی کےمال سےیتیموں،غریبوں اورلاچاروں کی اُداسی دورہوجاتی
ہے،واللہ ہوالموفق |