”ماہ“ بے تحاشہ مبارک ہے کیونکہ اس ماہ میں ”حج“جیسی عظیم
عبادت اور سنتِ ابراہیمی کے ذریعے ہم مسلمان اپنے رب کو راضی کرتے ہیں ۔۔۔
”حج“ ان عبادتوں میں سے ایک ہے جسکے بارے میں نبی اللہﷺ کی حدیثِ مبارکہ ہے
جسکا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ”جو شخص حج اسطرح ادا کرے جسطرح اسکا حکم ہے تو
وہ بلکل ایسا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے جنا ہے “
یعنی گناہوں سے دور ۔۔۔۔۔۔۔
اور وہ ”قربانی“ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل
علیہ السلام کی صورت میں خاص عشقِ حقیقی کی خاطر دی جس محبت کو دیکھ کر
اللہ تبارک و تعالٰی نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ جانور سے بدل دی
اور اس قربانی کو قبولیت کا درجہ رکھنے کے ساتھ ساتھ محبوب عمل بھی ٹھہرایا
اور ایک ایسا عمل بنا دیا جو آنے والی امت کے لئے ”سنت“میں بدل گیا اور کہا
گیا کہ صاحبِ استطاعت اپنے رب کے عشق میں بلکل ویسے ہی قربانی دیں جیسے
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دی۔
مگر ۔۔۔۔!
بے تحاشہ افسوس کے ساتھ ۔۔۔۔
جب میں اپنی اس قوم کی قربانی کے طور طریقے دیکھتی ہوں تو مجھے یہ ”رسم
ورواج“ کے علاوہ کچھ نہیں لگتا وہ رسم و رواج جو باپ دادا کی نسل سے چلتا
آرہا ہے اور دکھاوے کے ساتھ ساتھ ”ٹرینڈ اور فیشن “ میں بھی بدل گیا۔۔۔۔
”رسم ورواج ، فیشن اور ٹرینڈ“ کے مطلب سے آپ سبھی با خوبی واقف ہونگے اور
اس بات سے بھی کہ ہمارے وطنِ عزیز میں مشرق کو چھوڑ کر مغرب کو فولو کرنے
کے لوگ کتنے ماہر ہیں جسکے نتیجے میں ہماری تہزیب اور ثقافت مر گئی ہے اور
ہماری پہچان ہمارے ہی اندر دم توڑ چکی ہے ۔۔
دنیاوی لحاظ سے تو یہ ”دکھاوا ، فیشن اور ٹرینڈ“ سب بھلا لگتا ہے کیونکہ
دنیا کی باتیں دنیا میں ہی رہنے والی ہیں لیکن جب یہ طور طریقے ”دین“کے نام
پر لاگو کیے جائیں تو اس میں گھاٹے کے سودے کے ساتھ ساتھ عذابِ الٰہی کو
بھی مدعو کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔
اب تک منڈیوں میں لوگوں کا بے تحاشہ رش دیکھنے کو ملا ۔۔
کو ئی پڑوسی سے زیادہ اونچے لمبے اونٹھ کی تلاش میں ہے تو کسی کو بیل جتنے
دراز قد بکرے چاہئیں جنہیں دیکھ کر محلے والے اور دیگر رشتےدار واہ واہ
کرتے نہ تھکیں کچھ کو موٹے تازے دمبے چاہئیں جنکی تصاویر سوشل میڈیا پر
کڑوڑوں لوگوں کی نظر ہوں اور لوگ تعریفوں کے پل باندھیں ۔۔۔
یہ وہ ”دکھاوا“ ہے جسے ”قربانی“ کے نام پر ہم مسلمان کر رہیں ہیں اور اسطرح
کرنے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں جسکی وجہ سے شائد ہماری عبادت اور ہماری
قربانی رب کو اتنی محبوب نہ ہو جتنی کہ ہونی چایئے ۔۔۔ یہ تو ہوا دکھاوا
۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ ہی دن پہلےمیں لاہور کے مقامی چینل پر ایک خبر دیکھ رہی جو عیدالاضحٰی
کی خوشی میں جانوروں کی منڈی سے نشر کی جا رہی تھی جسے دیکھ کر ایک منٹ کے
لئے تو میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی اور بے تحاشہ افسوس کرنے کے سوا
میرے پاس کچھ نہ بچا جب میں نے سنتِ ابراہیمی کا مزاق اپنے ہی مسلمان بہنوں
اور بھائیوں کے ہاتھوں اڑھتا دیکھا ۔۔۔۔
میں نے کہیں پڑھ رکھا تھا کہ ”ہم ایک مردہ قوم ہیں “ تب مجھے اس بات کو
لکھنے والے پر بہت غصہ آیا لیکن جب میں نے جانوروں کی منڈی سے نشر ہونے
والی خبر دیکھی جس نے مجھے احساس کے ساتھ شرمندگی بھی دلائی اور یہ یقین
بھی دلایا کہ واقعی ”ہم ایک مردہ قوم ہیں “ ۔۔
اس سے بڑی بات اور کیا ہو گی کہ اللہ کے دین میں اللہ کا بنایا قانون توڑ
کر ہم ”سنت“کے نام پر” بے حیائی“ کو فروغ دیں ۔۔۔
مجھے منڈیوں میں مردوں کی موجودگی کا تو علم تھا ہی لیکن جب اس خبر میں
مردوں کے ساتھ عورتوں کو نا زیبہ لباس میں ملحوظ قربانی کے جانوروں کے ساتھ
ماڈلنگ اور ڈانس کرتے دیکھا تو خدا کی قسم ایک لمحہ کو دل دھل گیا کہ اگر
ابھی اللہ کا عذاب ہماری قوم پر نازل ہو جائے تو ہم کہاں جائینگے ؟
یہ عورتیں جو بھری دنیا کے سامنے نامحرم مردوں کے بیچ میں قربانی کے
جانوروں کے ساتھ اپنے جسم کی نمائش کر کے ڈانس کر رہی ہیں اللہ کے بنائے
ایک ”تہوار“کا مزاق اڑا رہیں ہیں کیا انہیں اللہ کا ذرا خوف نہیں ؟
اور مجھے حیرانگی تو اس بات کی تھی کہ وہاں کھڑے مرد جو اللہ کی خاطر
قربانی کے جانور لینے آئیں ہیں جنہیں سنتِ ابرہیمی کے تحت قربان کرنا ہے ،
اپنے موبائل فونز سے ان نامحرم بے شرم عورتوں کی ویڈیو بنا رہے تھے اور جس
ماڈل نے جو بھی گائے ،بیل ،بھینس ،بکرا تھاما اسے خریدنے کے خوابوں میں تھے
، اسی وقت شرم سے مر کیوں نہیں گئے؟؟
جس عملے کے تحت سنتِ ابراہیمی کے نام پر وہ ”ایونٹ “ جانوروں کی منڈی سے
نامحرم عورتوں کے ناچ گانے کی صورت میں براہِ راست نشر کیا جا رہا تھا
انہیں بروقت منع کیوں نہ کیا گیا ؟
وہاں جو اتنی تعداد میں لوگ موجود تھے جانوروں کے ساتھ ”ریمپ“ پر ماڈلنگ
کرنے کے ساتھ اونچی آواز میں گانوں پر اچھل کود کرنے والی خواتین کو روکتے
کیوں نہ تھے؟
کیا کسی ایک کا ایمان بھی سلامت نہیں تھا ؟
کیا کسی ایک نے بھی ایسا محسوس نہ کیا کہ اللہ کا عذاب جب آتا ہے تو بتا کر
نہیں آتا ؟
کیا وہاں میڈیا بس کووریج کے لئے تھا ؟
اگر یہ شور شرابا کسی کی شادی کا بھی ہوتا تو اتنا برا نہ لگتا لیکن یہ شور
شرابا کس نام پر تھا؟
اور عید الاضحٰی ہے کیا؟
اس سے تو ہم سب با خوبی واقف ہیں ــ
اللہ تعالٰی قرآن میں فرماتے ہیں ترجمعہ
” اللہ کو ہرگز نہ انکے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون ہاں تمہاری پرہیزگاری
اس تک باریاب ہوتی ہے یونہی انکو تمہارے بس میں کردیا کہ تم اللہ کی بڑائی
بولو اس پر کہ تم کو ہدایت فرمائی ۔ اور اے محبوب خوش خبری سناؤ نیکی والوں
کو“۔
یہ آیت خاص ”تقوٰی“ سے منسلک ہے اللہ کو میرے اور آپکے قربانی کے جانوروں
کا خون نہیں پہنچتا نہ ہی اللہ کو آپکی بھاری رقم سے غرض ہے اگر اللہ کو
غرض ہے تو صرف ہمارے ”تقوٰی“ سے جو خالص اس کے لئے ہو لیکن نہایت افسوس کے
ساتھ کہ ہماری نیت تو بس دنیا کے دکھاوے کے علاوہ کچھ بھی نہیں رہی ۔۔۔
نیت تو بس پڑوس کو جلانا ہے
جانوروں کے ساتھ سیلفیاں لینی ہے
محلے میں اپنے اونٹھ کی ، بیل کی نمائش کرنا ہے
منڈی میں جا کر عورتوں کے ڈانس کرتی حالت سے لطف اندوز ہو کر ماڈل کا ہاتھ
لگا جانور خریدنا ہے
اور دنیا والوں کو بتانا ہے اتنی بھاری رقم کا جانور خریدا ہے
اور وہ جانور جو رب نے ہمارے لئے حلال کئے ہمارے بس میں کئے انکے ہم نے نام
ہی بگاڑ دئیے عید سے پہلے تک تو وہ بکرا،اونٹھ،بیل،گائے ہی جانے جاتے تھے
لیکن عید قریب آتے ہی وہ منی،شیلہ،پپو،ٹولا،پانامہ اور نہ جانے کیا کیا بن
گئے ۔۔۔
افسوس صد افسوس ۔۔۔۔۔ !
ایک لمحہ کو سوچیں کہ کوئی دوجہ جب ہمارے دین پر بات کرے تو ہمیں برداشت
نہیں ہوتا لیکن جب ہم خود اس دین میں بگاڑ پیدا کریں تو تب ہمارا ایمان
کہاں جاتا ہے؟
کہاں جاتا ہے وہ معاشرہ جو اسلامی تہزیب کی باتیں کرتا ہے ؟
کہاں جاتے ہیں ”اسلامی جھموریہ“کا دم بھرنے والے ۔۔۔ ؟؟؟؟
اللہ کے دین کا مزاق اڑانے والے اللہ کے نزدیک بہت برے جرم کا ارتکاب کرتے
ہیں اور انکا انجام بہت برا ہے اس میں چاہے کوئی بھی ہو ۔۔۔
یہ بات معنی نہیں رکھتی کہ آپکا جانور کتنی قیمت میں آیا لیکن ہاں یہ بات
ضرور معنی رکھتی ہے کہ کون کس حد تک خالص اللہ کی رضا کے لئے کوئی عمل کرتا
ہے ۔۔۔۔
خدارا ۔۔۔! قربانی خاص اللہ کے لئے ہے پڑوسیوں یا باقی دنیا کے لئے نہیں
انہیں لوگوں کی نظر کر کے گناہ نہ کمائیں
جب حلال کام کرنا ہے تو طریقہ کیوں حرام اپناتے ہیں ؟
عورتوں کو منڈی میں ماڈلنگ کروا کر اوراللہ کی راہ میں بے زبان قربان ہونے
والے جانوروں کا مزاق اڑوا کر اللہ کے عذاب کو دعوت مت دیں ۔۔
اللہ کی خاطر سادہ طریقہ اپنائیں جو اللہ کو بھائے دنیا والوں کے پیچھے
دکھاوے کی نظر عبادات اور اعمال کا کوئی فائدہ نہیں ۔ یہ سنت ہے سنت کو سنت
رہنے دیں۔ دکھاوے کا عمل اللہ کے ہاں سب سے برا عمل ہے اور ایسے اعمال اور
عبادات سے بہتر ہے کہ کوئی عمل ہی نہ کیا جائے ۔۔۔۔
قربانی خاص اللہ کو خوش کرنے کانام ہے اپنا تقوٰہ دو پل کی خوشی کی نظر نہ
کریں طرح طرح کی سیلفیاں لے کر لوگوں کو جانور کی قیمت نہ جتائیں ۔
اللہ یقینً نیک اعمال ضائع نہیں ہونے دیتا ۔۔۔۔
اور وہ خواتین جو پبلی سٹی کی خاطر چند روپوں کے لئے اللہ کے معصوم جانوروں
کی لگام تھامے قربانی کے نام پر ماڈلنگ کرتیں ہیں اچھل کود کرتیں ہیں یہ مت
بھولیں کہ اللہ کے ہاں کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں جسے اسکے فرشتے لکھ نہ
رہیں ہوں ۔ آپ لوگوں کو کیا لگتا ہے کہ ایسا عمل اللہ کے ہاں قابلِ قبول
ہے؟ ہرگز نہیں ۔۔۔۔۔ دنیا میں دین تلاش نہ کریں نہ ہی دنیا میں دین ہے ۔۔
دین میں دنیا ڈھونڈیں ۔۔ دو چار روپوں کی خاطر اپنی عزت کے ساتھ اور دین کے
ساتھ کھلواڑ نہ کریں ۔۔۔۔ اللہ سے توبہ کریں کہ اللہ توبہ سننے والا ہے ۔۔۔
اور دل کی تسکین کے لئے دین کا مزاق نہ اڑائیں اور یہ نہ بھولیں کہ تمام
اختیارات اللہ کو ہی ہیں ۔۔۔
ہمارا معاشرہ اسلامی معاشرہ ہے جب اس میں ہم بگاڑ پیدا کر سکتے ہیں تو چند
لوگ اٹھ کر اسکو سدھار کیوں نہیں سکتے ؟ کم از کم دین کے معاملے میں تو
بولیں ۔۔ بے زبان تو جانور ہیں اللہ نے آپکو اشرف المخلوقات بنایا ہے اسکا
ثبوت آواز بلند کر کے دیں ۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں کامل ایمان عطا فرمائیں
اور دکھاوے کے عمل سے بعض رکھیں ۔۔ ہمارے کبیرہ و صغیرہ گناہ معاف فرمائیں
۔۔۔
اللہ ہماری قربانیاں قبول فرمائیں ۔ آپکو اور مجھے ”ہدایت“ سے نوازیں ۔۔۔
آمین یا رب العالمین ! اس امیدکے ساتھ اجازت طلب ہے کہ آئندہ آنے والے سال
میں آپ ”قربانی“ کے نام پر کچھ نازیبہ عمل دیکھیں گے تو اسے روکیں گے ضرور۔
اللہ آپکا اور میرا حامی ناصر ہے ۔ طالبِ دعا ۔۔۔
|