قومی سیاست کے حقائق

(پروفیسر رشید احمد انگوی)
آج ملک و قوم کو جس سیاسی صورتحال کا سامنا ہے اس کا حقیقی تجزیہ بہت ضروری ہے۔ مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھ دی جائے تو جتنی چاہے اُونچی دیوار بنا لیں وہ ٹیٹرھی ہی رہے گی’’خشت اول چوں نہد معمار کج تا ثریا می رود دیوار کج‘‘۔ انیس سو اسی کی دہائی میں یہ سانحہ پیش آیاکہ ضیا دور میں پنجاب کا ایک گورنر جیلانی نام کا تھا اس کا لوہے کے تاجر مستری شریف سے یارانہ قائم ہو ا ۔ تاجر بہت تیز انسان تھا اس نے غاصب فوجی حکمرانوں کی کمزوریوں کا بغور جائزہ لینے کے بعد خصوصی انویسٹمنٹ کا فیصلہ کر لیا۔ اپنے دوست کی خدمت میں زیرو میٹر مرسیڈیز پیش کی ، اُس کے بنگلے کی تعمیر میں مال و اسباب کے ساتھ ذاتی ماہرانہ نگرانی کی خدمات پیش کیں اور اس کا دل اتنا جیت لیا کہ اس کے بیٹے نواز کی انگلی پکڑ کر اسے صوبائی کیبنٹ میں بطور وزیر پلانٹ کر دیا ۔ کہا جا سکتا ہے کہ غیر سیاسی اور چور دروازے سے ایک فرد کو صوبائی سیاست کے اہم مقام صوبائی وزارت پر صفر فی صد میرٹ پر بیٹھا دیا گیا۔ یہ تھی سیاست کے میدان کی پہلی ٹیٹرھی اینٹ جو کرپشن کی بنیاد پر حاصل کی گئی۔ سوچیے کہ ایک عام شہری کو صوبائی وزارت تک پہنچنے کیلئے کتی جد جہد کرنا پڑتی ہے، کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، تب اقتدار کی یہ کرسی نصیب ہوتی ہے مگر لاہوری تاجر ’’ اپنی آہنی خدمات‘‘ کے عوض میں یہ سب کچھ یوں حاصل کر لیتا ہے کہ نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے۔ یہ تھی جنرل جیلانی کی نظرِ عنایت کے طفیل نواز شریف کی ’’ سیاسی پیدائش‘‘ جسے سمجھے بغیر آج کی موصوف کی اینٹی عدلیہ مہم اور ووٹ کے تقدس، اور وزیر اعظموں کی تاریخ کے ارشادات کچھ بھی تو سمجھ نہیں آ سکتے۔ کرپشن کے ذریعے سیاست’’ خرید کر‘‘سیاست کے میدان میں داخل ہونے والے کردار کو سینتیس سال بعد خالص میرٹ کی بنیاد پر عالی مرتبت سپریم کورٹ جھوٹا اور بد دیانت ہونے کا تمغہ عطا کرتی ہے تو اس میں بگڑنے والی بات کونسی ہے۔ نواز شریف کے جملہ عقیدت مندوں سے ڈنکے کی چوٹ پر یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ آپ کے یہ سیاسی دیوتا سیاست کے میدان میں کس میرٹ کے ساتھ داخل ہوئے تھے ۔ کیا ’’جیلانی سے عدالت تک‘‘ کے علاوہ بھی موصوف کی کوئی سیاسی تاریخ ہے۔ موصوف کا صوبائی وزیر بننے تک کوئی سیاسی کارنامہ یا سیاسی بصیرت کا حامل ہونا نہ کوئی حقیقت تھی اورنہ آج ہی ہے ۔ وہ کاروباری اور پیسے والی شخصیت رہے اور آج بھی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ کاروباری وسعتیں براعظموں کی حدود پھلانگ چکی ہیں اور ابھی دنیا کے سامنے کھل کر آنے والی ہیں۔ نوجوان نسل کے اس دنیا میں آنے سے پہلے یہ پہلی ٹیٹری اینٹ رکھی جا چکی تھی جس پر تعمیر شدہ بلند و بالا ٹیڑھی دیوار بزبان حال بتا رہی ہے کہ ’’ میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی‘‘ سیاست کے مورخین کی ذمہ داری ہے کہ نو جوان نسلوں کو اس سانحہ کی حقیقت سے آگاہ کریں کیونکہ اس کے بغیر ’’ مجھے کیو ں نکالا گیا ہے‘‘ اور ’’کوئی وزیر اعظم اپنا وقت پورا کیوں نہ کر سکا ‘‘ اور ’’ووٹ کا تقدس بحال ہونا چاہیے‘‘ جیسے اقوالِ شریف سمجھ آ ہی نہیں سکتے ۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے عوام اور ووٹراصلاً اتنے سادہ طبع اور نیک دل ہوتے ہیں کہ بڑے بڑے کاریگر قسم کے سیاست دانوں کے ساتھ عقیدت کا رشتہ قائم کر لیتے ہیں اور وہ لوگ نہایت چالاکی سے ان غریب عوام کی عقیدتوں کا استحصال کرتے ہیں ۔ زرداری اینڈ کمپنی کی مجاور پالیسی ہو یا نا اہل لیڈر کی جی ٹی روڈ یاترا ہو(جس کا اصل راز چھوٹے بھائی کا پنجاب کا حکمران ہونا ہے) جس میں کئی دنوں کے لیے قومی شاہرا ہ ہی بند کر دی گی اور صرف سیاسی ڈرامے کیلئے استعمال کی گئی ۔ یقیناً اس کا ثواب بھی گورنر جیلانی کی روح کو پہنچتا رہا کہ ساری طاقت تو اسی کی بخشی ہوئی تھی۔ راقم اپنی طویل اور گہرے مشاہد ے کی بنا پر ووٹروں کی اپنے لیڈروں کیلئے اندھی عقیدت کو ’’ مہلک قومی کینسر‘‘ قرار دیتا ہے جو قومی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ سوچیے کہ زرداری یا نواز کی عقیدت کے مناظر کیا آزاد انسانوں کو زیب دیتے ہیں۔ یہاں یہ مسئلہ بھی ابھر کر سامنے آیا ہے کہ پنجاب کا لامتناہی آبادی کا صوبہ قائم رہنا قومی وحدت اور استحکام کیلئے کس قدر تشویش ناک امر ہے۔ حاجی سیف اﷲ ڈاکٹرائن کی فائیلیں پارلیمنٹ کے ریکارڈ میں سے نکال کر ملک میں صوبوں کے غیر متوازن یا عدمِ توازن پیدا کرنے والے صوبوں پر قومی سطح پر غور و خوص ہونا چاہیے۔ بلوچستان کے معروضی حالات کیا پختون ، کوئٹہ، بلوچ اور گوادر صوبوں کے متقاضی نہیں۔ کراچی کو کب تک جبراً اندرون سند ھ سے چپکایا جاتا رہے گا۔ پنجاب کے تین نہیں متوازن آبادی کے پانچ صوبے وقت کی ضرورت ہیں ۔ اسی طرح کے پی کے کا انصاف سے جائزہ لیا جائے، قبائلی صوبہ بطور آزادے صوبے کے بھی تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ مختصر یہ کہ ہر ڈویژن کو انتظامی بنیاد پر صوبہ بنانا حب الوطنی اور عقل کا تقاضہ ہے اور دلیل کو طاقت سے ٹھکرانا کمزور موقف ہے۔ ایک دلچسپ امر کی جانب آپ کی توجہ مبذول کرائی جاتی ہے وہ یہ کہ نواز شریف کی حکمرانی کا ایک اہم پہلوسستی و کاہلی یعنی معاملات کو وقت پر حل نہ کرنا اور بلا وجہ تاخیر کرتے جانا، اس پر دو رائے نہیں مگر عجب منظر ہے کہ عدلیہ مخالف تحریک برپا کرنے میں رات دن ایک کیا جا رہا اور بیٹھے ہوئے گلے کے ساتھ کیا وزیر ، کیا وکیل سب کے ساتھ خطابات جاری ہیں۔ ’’ریاست اور ذات ‘‘ کے بارے میں کیا آپ کو کچھ سمجھ آتی ہے۔سست روی کا طعنہ دینے والے اب میا ں صاحب کی پھرتیاں اور آنی جانیاں تو دیکھیں۔ ہم آپ کو بھی اپنے مشاہدے میں شریک کر لیتے ہیں کہ موصوف کی بعد از نا اہلی جو کار کردگی اورسر گرمی دیکھی جا رہی ہے اس کے پس منظر می موصوف کی شخصیت اور نفسیات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔باڈی لینگویج اور طرزِ گفتگو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ اس نفسیات کا حامل شخص کیا اپنی ذات کے خول سے نکل کر بھی کوئی غوروفکر کرسکتا ہے ۔ کیا وطن عزیز عشروں سے ایسے انا پرست یا ذات پرست کرداروں کے چنگل میں رہا ہے۔ کیا اس میں استغفار کا بھی کوئی مقام ہے ، اور ہاں ذرا آئین کی اہمیت بھی تو دیکھ لیں ۔ ایسے لگتا ہے کہ اسے اہلِ جاتی عمرہ کی لونڈی سے زیادہ درجہ دینا مطلوب نہیں کہ فی الفور اس میں فلاں ترمیم یا مرمت کر ڈالو۔ ’’تاحیات پابندی‘‘ بہت اہم نقطہ ہے اسے خوشامدی اور مطلبی قسم کے ماہرین ’’ بس معمولی سی تبدیلی‘‘ قرار دے کر بدل دینا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ باسٹھ تریسٹھ میں عمر کے اندراج اور بغیر تعین تا حیات سزا کے بارے میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب ٹی وی انٹرویو میں بہت وضاحت کر چکے ہیں۔ پارلیمنٹ آئین سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے’’ جیلانی سیاست کے تقاضوں ‘‘کو پائے حقارت سے ٹھکرا دے۔ خورشید شاہ نے بجا طور پر حکومتی دورانیہ کے لیے چار سال کی آواز بلند کی ہے ۔ یہ بالکل بروقت اور اہم قومی اہمیت کا مسئلہ ہے ۔ قوم کو پانچ سال کے طویل دورانیے سے نجات دلائی جائے۔اسی کے ساتھ ہر سطح پر رجسٹرڈ ووٹوں کی پچاس فیصد سے زائد شرح سے کامیابی کو لازمی قرار دیا جائے تاکہ دس کروڑ ووٹوں میں سے پانچ کروڑ سے زائد حاصل کرنے والا ہی اکثریت کا نمائندہ قرار پائے۔پارلیمنٹ سے ہماری اپیل ہے کہ اپنے مغربی آقاؤ ں کو خوش کرنے کے لیے علامہ اقبال سے منسوب سالانہ’’ یومِ اقبال‘‘کو جو ختم کر دیا گیا ہے یہ اصل میں قومی جرم ہے ۔ یومِ اقبال کی چھٹی بحال کر کے سابقہ نا اہل حکمران کی مجرمانہ غلطی کی تلافی کی جائے۔

Muhammad Noor-Ul-Huda
About the Author: Muhammad Noor-Ul-Huda Read More Articles by Muhammad Noor-Ul-Huda: 48 Articles with 34108 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.