عید کے روز قربانی سے فارغ ہو کر دوست احباب اور رشتہ
داروں کو گوشت کا حصہ ان کے گھروں کو پہچانے کے بعد بکرے کے سری پائے کھانے
کا ارادہ تھا خیال آیا کہ بازار میں ان کو جلا کے صاف ستھرا بنا کے ٹکڑے
کردیتے ہیں اس غرض سے راجن پور بازار میں ہزاری ہوٹل کے پر گیا تو وہاں پر
تین چار لوگ اپنے کام میں مکمل مصروف عمل تھے ایک لڑکا آگ میں بکروں اور
گائے بیل کے سرے اور پائے جلا رہا تھا جس سے بال جلنے کی بدبو نے ہر طرف
قہر مچا رکھا تھا بس پائے کھانے تھے اس لئے یہ بو نا قابل برداشت ہوتے ہوئے
بھی برداشت کرنی پڑ رہی تھی وہاں ایک ادھیڑ عمر کا آدمی ایک تیز دھار ٹوکے
سے بکروں اور بیل گائے کے جلے بڑے بڑے سروں کو کاٹ رہا تھا اس کی جسمانی
طاقت اور تیز دھار ٹوکے کے ایک ہی وار سے سرے دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتے
وہ پھر ہاتھ کی مدد سے اس سرے سے مغز یعنی بھیجا نکال کر ایک طرف رکھا دیتا
بکروں اور گائے بیل سب کے دماغ یعنی مغز دیکھنے میں ایک جیسے ہی لگ رہے تھے
بس سرا جس کو عام زبان میں کوپر یا سر کہتے ہیں سر یا کوپر کسی جانور کا
بڑا تھا اور کسی کا چھوٹا ان کے مغز کی بناوٹ دیکھا کر ہوبہو انسانی دماغ
کے جیسی ہی لگ رہی تھی جیسا ہم مختلف میڈیکل کی ویڈیوز یا تصاویر میں
دیکھتے ہیں شاید سب بڑے چھوٹے سر اور کوپر والے جانداروں کے دماغ کی بناوٹ
ایک جیسی ہوتی ہو گی پر بناوٹ ایک جیسی ہوتی ہے لیکن ان میں فرق صرف سافٹ
وئیر کا ہوتا ہے اسی سافٹ وئیر میں انسانوں کا الگ سافٹ وئیر اور جانوروں
کے لئے الگ سافٹ وئیر ہوتا ہے یہ قدرت کا نظام ہے یہ سافٹ وئیر ساری زندگی
اس جسم کے تمام افعال کی انجام دہی میں مدد دیتا ہے اس جسم نے زندگی کیسے
گزارنی ہے کیا کھانا ہے کیا کرنا ہے کیا اچھا ہے کیا برا ہے اور ایسے یہ
نظام ساری زندگی چلتا رہتا ہے جب یہ سافٹ وئیر ایکسپیری ہوتا ہے تو جسم کسی
کام کا نہیں رہتا ایک وقت ہوتا ہے یہ جسم محلوں میں بیٹھ کر حکمرانی کرتا
یا وہی جسم ہوتا ہے اس کا سافٹ وئیر ایکسپیر ی ہونے بعد چند گز زمین دبا کر
مٹی ہو جاتا ہے اگر کبھی اس سافٹ وئیر میں خرابی پیدا ہوتی ہے تو اس سافٹ
وئیر کا جسم اپنی عادات تبدیل کر لیتا ہے اگر جانور کا سافٹ وئیر خراب ہو
جائے تو وہ جانور سے درندہ تو بن جاتا ہے پر وہ انسان نہیں بنتا پر جب
انسان کا سافٹ وئیر خراب ہو جائے تو وہ انسان سے جانور اور جانور سے درندہ
بن جاتا ہے خیر یہ تو میں سر کے ٹکر ہوتے دیکھ کے سوچ رہا تھا میں کاونٹر
پر کھڑے لڑکے کے پاس گیا اس پوچھا کتنی دیر تک تیار ہو جائیں گے اس نے کہا
جناب دوگھنٹے لگیں گے آپ ٹوکن لے جائیں اور اپنا نمبر نوٹ کروا دیں ہم آپ
کو دوگھنٹے تک کال کردیں گے میں وہاں سے ٹوکن لے کر چلا گیا دوگھنٹے گزر
گئے لیکن اس کی کوئی کال نہ آئی میں دوبارہ اس کے ہوٹل پر گیا اس لڑکے سے
پوچھا تیار ہوگئے ہیں وہ تیار شدہ شاپروں میں دھونڈنے کے بعد کہتا ہے نہیں
جناب آپ کے سری پائے تیار نہیں ہوئے رش بہت تھا اس لئے لیکن مجھے ایسا
محسوس ہورہا تھا وہ بھول گیا تھا خیر اس نے کہا آپ پندرہ بیس منٹ یہاں ہوٹل
میں بیٹھ کر انتظار کر لیں بس تیار کردیتے ہیں میں دومنٹ بامشکل ہوٹل میں
بیٹھ سکا بال جلنے کی وجہ سے سانس لینے میں الجھن ہو رہی تھی ان بنانے
والوں کی ہمت ہے یا اس کے اردگرد والے رہنے والے لوگوں کی اس تکلیف دینے
والے گناہ میں بھی برابر کا شریک جرم تھے جو ہماری پائے کھانے کی خواہش میں
اور کو مل رہی تھی میں اس بدبو اور تکلیف کی وجہ سے وہاں سے اٹھ کر باہر
بازار میں ہوٹل کے سامنے ایک پٹھے پر جا بیٹھا عید کے پہلے روز تقریباً
سارا بازار ہی بند پڑا تھا سوائے چند ایک دوکانوں کے آنے جانے والے بھی بہت
کم تھے اسی انتظار کے دوران وہاں ایک مانگنے والا آ گیا جو پولیو کی بیماری
کی وجہ سے اپنی ٹانگوں سے محروم تھا وہ بیٹھنے کے انداز میں ہاتھ کی مدد سے
اپنے دھڑ کو کھنچ کر آگے بڑھ رہا تھا عید کی وجہ سے اس نے صاف ستھر کپڑے
پہنے ہوئے تھے اس نے سر پر سندھی ٹوپی پہن رکھی تھی وہ میرے پاس آیا میں نے
اس کو کچھ دینے کے بعد اس سے باتیں کرنی شروع کردی اس نے اپنا نام جمعہ
بتایا جو ٹھیڑی کالونی راجن پور کا رہائشی تھا جمعہ کی عمر 25 سے 30 سال کے
درمیان ہوگی اس کے اور بھائی بھی ہیں اﷲ کرم سے وہ صیح حالت میں ہیں جو
شادی شدہ اور بال بچوں والے ہیں اس کے سب بھائی چھوٹی موٹی محنت مزدوری
کرتے ہیں اس کا والد وفات پاچکے ہے یہ اپنے بھائیوں کے پاس رہتا ہے اور
ایسے ہی مانگ کر اپنی زندگی کا گزارہ کررہا ہے جسمانی معذوری کی وجہ سے اس
کی شادی نہیں ہو پائی ہے اس کا قومی شناختی کارڈ تک نہیں ہے میں کہا شناختی
کارڈ کیوں ہے اس نے بتایا بھائی کہتا ہے کہ تم نے کونسی نوکری کرنی ہے مجھے
اندازہ ہو گیا اس کے بھائی نے بھی بہانا بنایا ہوگا وہ اس لئے کہ ایک عام
اور نارمل انسان کا شناختی کارڈ آسانی سے نہیں بنتا تو ایک بچارے معذور کا
کیسے بن سکتا ہے پہلے نادرا سنٹر کے دھکے پھر معذوری ثابت کرنے کے لئے
ڈاکٹر اور ہسپتالوں کے دھکے مزید میں نے اس پوچھا عید کیسی گزر رہی ہے اس
نے کہا اﷲ کا شکر ہے بس گزر ہی رہی ہے میں نے کہا صبح عید نماز پر جاتے وقت
کوئی میٹھا کھایا تھا اس نے کہا ہاں سویاں کھائی تھیں میرا دوسرا سوال تھا
کیا گوشت بھی کھایا ہے اس نے کہا نہیں میں نے پوچھا کیا دوپہر کو روٹی بھی
نہیں کھائی اس نے کہا کھائی ہے میں کہا کیا اس دن بھی گوشت نہیں کھایا اس
کہا گوشت کے شوربے کے ساتھ روٹی کھائی ہے اس میں بوٹی نہیں تھی میں کہا کیا
وجہ بوٹی کیوں نہیں کھائی اس نے کہا میرا بھائی کہیں سے مٹھی بھر گوشت لایا
تھا جب وہ گھر میں پکا تو بوٹیاں تو بچوں کو ہی پوری نہیں ہوئیں ہم بڑوں نے
شوربے سے ہی کام چلایا ہے جمعہ ملنگ کی یہ بات دل کو لگنے والی تھی ہم
قربانی کرنے کے بعد اپنے پیٹ اور فریزر خوب بھرتے ہیں اور پورے کا پورا
بکرا کھانے کے لئے مکمل پلان تیار کرتے ہیں کہ اس کے گوشت سے کیا کیا پکاون
تیار کروانے ہیں ہماری یہ مشکل بھی میڈیا نے آسان بنا دی ہے ہمیں میڈیا سب
کچھ بتا اور دیکھا دیتا ہے کہ قربانی جانور کہا سے ملے گا کتنے تک کا ملے
گا اس کا گوشت کتنا نکلے گا چھری تیز کدھر ہوتی ہے قصائی کا ریٹ کیا چل رہا
ہے وغیرہ وغیرہ آپ قربانی سے پہلے کی ٹرانسمیشن دیکھیں اور عید کے پہلے
دوسرے اور تیسرے دن کی آپ کو عید سے پہلے مویشی منڈیوں میں لے جایا جاتا ہے
اس میں کمانڈو شیرو سطان پہلوان دبنگ خان دیکھایا جاتا ہے پھر عید کے دن اس
شیرو سطان کمانڈو اور دبنگ کو کیسے پکاون تبدیل کر کے کھانا ہے اور خاص کر
رات کے وقت کی ٹرانسمیشن میں کس شہر کے لوگ کیا پکا کے کھا رہے ہیں پورا
بکرا کہا بروسٹ ہو رہا ہے ران اور سجی کہاں تیار ہورہی ہے کونسا سیاست دان
کھلاڑی اور ادکار آج کے دن کونسی ڈیش کھا رہا ہے اور عید کے دن ان کی کیا
مصرفیات تھیں نیوز چینلز کی ساری کی ساری ٹرانسمیشن ہوتی ہی اس پر ہے شاید
جب 90 کی دہائی میں چینلز نہیں تھے تو لوگ جانور لینے کے لئے ادھر ادھر
بٹھکتے رہتے تھے لوگ قصائیوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے تھے اور اکثر لوگ
گوشت تو اوبال کر یا کچا ہی کھاتے تھے جناب ان بغیر بھی یہ کام ہو رہے تھے
اس ٹرانسمیشن میں ان سب چیزوں کو دیکھ کر سب دیکھنے والوں کا دل بھی ان
پکاونوں کی طرف مائل ہوتا ہے اور سب قربانی کے مقصد کو بھول کر پیٹ کے مقصد
میں لگ جاتے ہیں معذرت کے ساتھ ہمارا میڈیا یہ نہیں دیکھاتا کہ جمعہ ملنگ
جیسے کتنے اور لوگ ہوں گے جو قربانی کے دن بھی گوشت سے محروم رہے جاتے ہیں
اگر کسی کو ہم دیتے بھی ہیں تو صرف چار بوٹیوں پر مشتمل مٹھی بھر گوشت جس
میں سے کسی ٹانگوں والے نارمل انسان کے حصے میں بوٹیاں تو کسی جمعہ ملنگ
جیسے معذور کے حصے میں شوربا مجھے وہ منظر یاد آنے لگا جس میں وہ بندہ تیز
دھار ٹوکے سے بڑے کوپر(سری) پر وار کررہا تھا وہ اس کوپر سے مغز مطلب دماغ
کو نکال رہا تھا کہ دماغ سب ایک جیسے ہوتے ہیں پر ان میں سافٹ وئیر کا فرق
ہوتا ہے انسانوں میں یہ سافٹ وئیر اعلی قسم کا ہے جس کی وجہ سے انسان اشرف
المخوق ہے انسان کا سافٹ وئیر آٹو اپ ڈیٹ ہوتا ہے اب اس میں انسان کی مرضی
ہے وہ اپ ڈیٹ میں اچھائی اور نیکی کی فائلیں ڈوان لوڈ کرے یا برائی کی اس
یہ مرضی ہوتی ہے پر اچھائی اور برائی کی اپ دیٹ اس کے اپنے اختیار میں ہوتی
ہے وہ جس کو ڈون لوڈ کرے ہم میڈیا پر ان سب چیزوں کی دیکھائی جانے والی اپ
ڈیٹ کو اگنور بھی تو کر سکتے ہیں شاید کتنے لوگ ان کو دیکھ کر اگنور کرتے
ہوں گے کچھ جذبہ انسانی کے تحت تو کچھ مجبوری کے تحت میڈیا چینلز کی پالیسی
بنانے والے اپنے دماغ کے سافٹ وئیر میں کھانے پکانے کے علاوہ گوشت سے محروم
رہے جانے والے جمعہ ملنگ جیسے لوگوں کو کیوں نہیں لے آتے میرے خیال میں کچھ
میڈیا پالیسی میکرز کا قصور ہے تو کچھ قصور وار ان چینلز کے لئے فیلڈ میں
کام کرنے والے عملے کا بھی ہے وہ عید کے دن کسی سیاست دان کھلاڑی بیور کریٹ
اور ادکار کی کوریج کرنے اور ان کے ساتھ سیلفی بنوانے کو قابل فخر سمجھتے
ہیں لیکن وہ جمعہ ملنگ جیسے لوگوں کو تلاش کر کے میڈیا کے سامنے نہیں لے
آئیں گے اگر وہ اس جیسے لوگوں بھی کوریج دیں تاکہ لوگ قربانی کا اصل مقصد
رندہ رہے اگر کسی حق دار کو قربانی کے گوشت کا حصہ مل گیا تو وہ بھی اس
ثواب میں حصے دار بن سکتے ہیں یہی تو اصل قربانی ہے جب آپ اپنی خواہش کو
مار کر کسی حق دار کو سامنے لے آئیں گے ابھی جمعہ ملنگ سے باتوں کا سلسلہ
جاری تھا کہ اس سری پائے بنانے والے کا بیٹا موٹر سائیکل پر جلدی جلدی آیا
اور کہا کہ ابا جلدی دوکان بند کر پولیس آ رہی ہے اس کے باپ نے فوری طور پر
دوکان میں سامان پھینکا اور ساتھ ہی دوکان کا شٹل گرا کر جانے لگا تو میں
آواز دی میرے سری پائے کا کیا بنا اس کہا جناب پولیس آ رہی ہے آپ کل پتہ
کرنا اس جواب کے بعد میں وہاں سے رخصت ہوا اور جمعہ ملنگ بھی اپنی منزل کو
چل پڑا- |