بلائے جان

تحریر:خدیجہ میر
ایک گاڑی زن سے گلی میں آئی اور گلی کے نکڑ پہ واحد چوبارے کے ساتھ رک گئی۔ڈرائیونگ سیٹ کا شیشہ اترا اور ایک سر تیزی سے باہر نکلااطراف کا جائزہ لیا اورواپس گاڑی میں گھس گیا۔صد شکر کہ گلی میں اکا دکا بچوں کہ کوئی نہ تھا پڑوسیوں کا جاسوسی گروپ شاید ابھی ان کی آمد سے نا واقف تھا۔گاڑی ایک بار پھر حرکت میں آئی اور سامنے والے نیلے گیٹ کو عبور کر گئی۔شاہانہ سواری آچکی تھی۔
صحن میں دو ہٹے کٹے بچے شہزادہ سلیم کی آمد کی خوشی میں قومی چھٹی منا رہے تھے۔اب درباری بنے قطار میں کھڑے شہزادہ حضور کے لئے ایک پھولوں کا ہار گلے میں باندھنے کے لئیلال گھنٹی .اور ایک آرائشی رسی لئے کھڑا تھا۔ اس لمحے کہ منتظر تھے کہ کب گاڑی آئے اور وہ دیدارِ خاص سے فیض یاب ہوں۔
"""ابوآگئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابو آگئے """
بچے تیزی سے گاڑی کی طرف لپکے۔ یکدم گاڑی کا دروازہ کھلا۔اور شہزادہ سلیم بڑی شان او رکروفر سے اترے تھے۔سلیم صاحب بکرے کو گاڑی سے اتار ہی ریے تھے کہ گلی میں شور اٹھا تھا۔
شہزادہ کا شاہاہی بکرا آگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔تنگ سی گلی میں بچوں کا شور ہونا تھا کہ خالہ نزاکتے مع جاسوسی گروپ آف سنز کہ چھت پہ نمودار ہوئیں۔سلیم نے جلدی سے گاڑی کا دروازو بند کیا۔
آئے ہائے ،،،شہزادہ سلیم بکرا لے آیا ہمیں بتایا بھی نہیں کہاں ہے ؟کدھر ہے ؟
ممم۔۔۔۔۔۔۔۔۔مم۔۔۔۔۔۔­­­۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔
مارے اضطراب کہ سلیم سیکچھ کہا ہی نہیں گیا۔
جاسوسی گروپ نے تاڑتی نظروں سے سلیم صاحب کو دیکھا پورے صحن کا جائزہ لیا پر بکرا نامی مخلوق کہیں نظر نہ آئی۔
اوئے مویا نہ ہو تو بکرا لانا تو فخر کی بات ہے تو کیوں منمنارہا ہیبکریکی طرح۔۔میں میں۔۔۔۔۔۔کر کہ۔۔۔ویسے یہ بکرا ہے کہاں نظر نہیں آرہا۔اتنی رازداری کس لئے۔۔۔۔۔?
خالہ نزاکتے نے حالات کی نزاکت بھانپتے ہوئے جاسوسی گروپ کی طرف استفسار طلب نظروں سے دیکھا۔جب ہی ایک چمک کر بولا۔
""""امی مجھیتو کوئی خود کش بمبار بکرا لگتا ہے جو سلیم اتنی رازداری برت رہا ہے۔
مجھے تو لگتا ہے کہ بکرا کچھ زیادہ ہی ہٹاکٹا ہے شہزادہ سلیم کے بکروں (بیٹوں )جیسا جب ہی آپ کی نظر بدسے بچانے کے لئے وہ اتنی راز داری برت رہا ہے .دوسرے جاسوس نے اپنا قیمتی تجزیہ پیش کیا
تیسرا جاسوس عقابی نظروں سے سلیم کے گھگیائے چہرے کو باریکی سے دیکھ رہا تھا معاً ایک بات اس کے زرخیز دماغ میں کوندیکی طر ح آئی۔
امی مجھے تو معاملہ بڑا ہی کرپٹ لگ رہا ہے۔اس نااہل شہزادہ سلیم کے گھر وہ ہی دھاندلی ہوگی نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپن­­­ی رو میں ہانکتے ہوئے جاسوس نمبر تین پیٹھ پہ دھموکا پڑنے پر سٹپٹاکر سیدھا ہوا۔امی کی خشمگیں نظروں نے اس کے سیاسی
تجزیہ کاکچرا کر دیا تھا۔
یہ کوئی ٹاک شو نہیں ہے نکمے جو اپنی بونگیاں مار رہا ہے۔ کاٹھ کا الو نہ ہو سیدھی بات کر۔۔۔
ناک پہ عینک کو سیدھا کرتے ہوئے وہ بولیں۔تو جاسوس (نمبر تین )خفت سے مختصراً بولا۔
"""مجھے لگتا ہے امی کہ اس بار کا بکرا ہو بہو شہزادہ سلیم کی صورت ہے جب ہی اتنی راز داری برتی جارہی ہے آپکو پچھلی عید یاد ہے ؟ کیسے ڈنکے کی چوٹ پہ انارکلی (سلیم کی شاہی بیگم انعامہ انارکلی مشہور تھی محلہ بھر میں ان کی قابل رشک صحت پہ کافی چہ مگوئیاں ہوتی تھی۔ان کے صاجزادے بھی ماں کے مرہون صورت تھے۔اس کیبر عکس سلیم قابل تشویش حد تک دھان پان سی صحت کی وجہ سے محلے بھر میں قابلِ ترس سمجھے جاتے تھے.الف نون کا یے جوڑ جوڑا)بکرا آیا تھا پورے محلہ دیکھتا رہ گیا تھا
"" بات تو سولہ آنے ٹھیک کہی ہے .تو پھر شام کو چھاپہ مارتے ہیں تیار رہنا .""""
سہ جاسوس گروپ چھاپہ مارنے کی ہامی بھر چکے ادھر دھوپ میں سینکتے وجود نے دہائی دی تھی کہ یہ بلا ٹلے اور وہ بکرے کو گاڑی سے نکال کے محفوظ مقام تک پہنچا سکے۔اﷲ اﷲ کر کہ وہ ٹلے
تو سلیم کانپتیاعصاب کے ساتھ بکرے کو ڈرائنگ روم کی طرف لائے جہاں انارکلی بمعہ شاہی سپوت کہ منہ پھلائے بیٹھے تھے۔معاً نظروں کا زاویہ بدلا اور سلیم کے پہلو سے لگے جانور پہ نظریں بے یقینی سے جم گئیں۔انتہائی نحیف و لاغر بے ضرر سی مخلوق سلیم کے ہاتھ سے گھاس کے خوشے سے پتیاں اچک اچک کر کھا رہا تھا انارکلی صدمے کی کیفیت میں اٹھیں ٹکر ٹکر شاہی بکرے کو دیکھنے لگی۔
یہ کیا ہے .گلوگیر لہجہ ٹوٹے برتن کی طرح کرخت آواز۔شہزادہ سلیم انارکلی کے چہرے کے متغیر رنگوں اور متوقع طوفان کی آمد سیسہم کر دو قدم پیچھے ہوا تھا۔ہاتھ میں پکڑا ٹی وی ریمورٹ کسی بھی پل اسلحہ بن سکتا تھا وہ بیگم کی جنگجو فطرت سے بخوبی واقف تھا۔
یہ۔۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بب­­­ب۔۔۔۔۔بب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔­۔­۔­۔۔
شہزادہ سلیم ہکلاہٹ سے بولنے ہی لگا تھا کہ بیگم کی کرخت آواز سے گھبرا کہ چپ ہوا۔
یہ یہ …………تو بکرا ہے ……..ہائے میں مر گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بکرے کی مینگنیاں دیکھ کر۔دو ہتھڑ سینے پہ مار کر وہ چکرا کہ صوفے پہ گری۔بچے ہکا بکا سارا منظر یاسیت سیدیکھ رہے تھے۔
ہائے امی جی۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے تو فیس بک پر شاہی بکرے کی اپ ڈیٹس بھی دیدی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔بھاوج۔۔۔۔۔نندوں کو بھی ٹیگ کر دیا تھا اب کس منہ سے فیس بک جاؤں گی کیسے سیلفی اپلوڈ کروں گی .میری تو پوری فیس بک برادری میں ناک کٹ جائے گی ……..
دہائی دے دے کر وہ بلآخر ہذیانی انداز میں چیخی میاں سمیت بچے بھی سہم کر صوفے میں مزید دبک گئے۔
ہائے اﷲ اس بکرے کو دیکھنے سے پہلے میں مر کیوں نہیں گئی۔۔۔۔۔۔۔مر کیوں نہ گئی۔
مارے دکھ کے انارکلی نے اپنا ماتھا پیٹھ ڈالا۔
بچے اب سنبھل گئے تھے بکرے کو زبردستی گھسیٹ کر لے گئے تھے۔سلیم سر جھکائے بیگم کے سامنے مجرم بنا کھڑا رہا۔
کیسیشاہی خواب دیکھے تھے .کہ شاہی بکرا ہوگا شاہی سیلفی شاہی اپ ڈیٹس شاہی ڈی پی بنا ؤں گی سارے خواب چکنا چور کر دئیے۔...
بیگم کا واویلا کسی صورت کم ہونے میں نہیں آرہا تھا سلیم انارکلی پہ بیہمانہ انداز میں کی گئی اپنی اس حرکت پہ نادم سا کھڑا تھا اب۔مہینے کہ آخر میں اتنی ہی رقم بچی تھی۔جس سے وہ اپنے ہمزاد کو ہی خرید سکتاتھا۔
'"ابو یہ اتنا مظلوم نما بکرا کس فرعونی سلطنت سے دریافت کیا۔"
بڑا والا بیٹا ذرا منہ بنا کے بولا
""" بیٹا یہ خانگی بکرا ہے۔حادثاتی حالات میں شادی شدہ بکرا بن گیا تو حالت قابل ترس ہو گئی۔اب ایک شادی شدہ ہی اس بکرے کا غمگسار بن سکتا تھا جب ہی میں اسے اٹھا کر لے آیا۔پر معلوم نہ تھا ایسی مخلوق اتنی خوفناک ہو سکتی ہے کہ بیگم کو لتاڑ سکتی ہے۔دے تالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!
باپ بیٹے دونوں نے ہنس کہ ہاتھ پہ ہاتھ مارا۔
ہنسی یکدم اڑن چھو ہو گئی سامنے سے آتی ڈرائنگ روم کی دہلیز پار کرتے خالہ نزاکتے مع تین جاسوس مسٹنڈوں کے وارد ہوئیں اور بڑی شان سے صوفے پہ ہلکان ہوتی انارکلی کے برابر پسار کر بیٹھ گئیں۔
جاسوس سنز بھی خالی صوفوں پہ تشریف کا ٹوکرا رکھ چکے تھے۔سلیم نے تھوک نگلتے ہوئے سلام عرض کیا۔
ناک بھوں چڑھاتے طوعاً کرہاً جواب دیا گیا۔
یہ مویا بکرا کہاں چھپایا ہے (نہ مرادوں )مابدولت کو بھی دیدار کا شرف بخشو۔
چھالیہ اور سونف پھانک کے انہوں نے طائرانہ نظر اطراف میں ڈالی پر بکرے کا دیدار ندارد۔
"""" وہ خالہ میں آج بکرا نہیں لایا کل لاؤ ں گا انشاء اللّہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دفعتاً بکرا منمنایا تھا۔جاسوس سنز کی پورا وجود کان بن گیا۔ حسب معمول خالہ نزاکتے بھی چوکنا ہو گئی۔
تم نے کہا تھا ہم بکرا نہیں لیا۔ ……..
خالہ نے کڑے تیوروں سے سلیم کو گھورا۔وہ سٹپٹا گیا۔
""""وہ وہ خالہ دراصل۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ کوئی معقول جوازتراش کر ان کو مطمئن کرتا خالہ نزاکتے مع جاسوس سنز کے اس۔سمت چل پڑی جہاں متروکہ جائے واردات تھی۔
ہائیں۔۔۔۔یہ کیا ہے کلموہیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔­­!!!!!!!
سلیم نے دیکھا انکا سب سے چھوٹا بیٹا اپنے بیڈپہ دلہن بنی گھٹڑی کے پہلو میں بیٹا شادی کاکوئی گاناالاپ رہاتھا۔ گٹھڑی بنی چیز میں ذرا سی جنبش ہوئی تو راز عیاں ہوا کہ وہ وہی موسٹ وانٹڈ بکرا تھا۔سلیم کی تو ہنسی چھوٹ گئی جبکہ جاسوسی گروپ اکتائے ہوئے لگ رہے تھے۔وہ اس ڈرامہ کا اب ڈراپ سین دیکھنے کیمتمنی تھے۔
ابے چھوٹو !!!!یہ کیا ہے ...ایک جاسوس نے تفشیش شروع کی۔۔۔۔
کیوں تیرے کو نظر نہیں آرہا دلہن بیٹھی ہے۔صاجزادے نے چمک کر کہا۔
""""" تو یار……...دیدار یار تو کرا دے """"
جاسوس نمبر دو نے گنگناکرسگریٹ کا طویل کش لے کر گھٹڑی بنی دلہن پہ دھویں کے مرغولے وارے۔
""" نا بابا۔پہلے۔۔پیسہ پھینک۔پھر تماشا دیکھ """
چھوٹو تو سب کی سوچ سے زیادہ تیز نکلا۔سب نے ایک دوسرے کو دیکھ کہ قہقہہ لگایا۔
"""" واہ یار تو تو بڑا چلتر نکلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویسے ایک بات تو بتا یہ تو بکرا ہے پھر دلہن کیسے بنا اصولاً اسے دولہا بنناچاہیئے۔
ہاں بات تو پتہ کی ،،کی ہے آپ نے پر اس کی بھی ایک وجہ ہے .
بڑے صاجزادے نے سادگی سے عرض کیا
جب میں آپ سے نازیہ بن کر فیس بک پر آپ کی گرل فرینڈ بن سکتا ہوں۔تو یہ بکرا بھی دلہن بن سکتا ہے۔کیا سمجھے۔دے تالی ہاہاہ
دوسرا جاسوس سن سا بالشت بھر چھوکرے کے اس طرح الو بنانے پر پانی پانی ہوگیا تھاسب ہنسی روکے دانتوں تلے لب بھینچے اسے گھور رہے تھے۔
معاً غصہ امڈ آیا اور جاسوس نے ادھ جلی سگریٹ بکرے کو داغ دی وہ منمنا کر جھٹکے سے اٹھا اور چوکڑیاں بھرتا ہوا دروازے سے غائب ہوگیا۔
سب انگشت بد اانداں ساکت کھڑے رہ گئے۔خاموشی خالہ نزاکتے نے توڑی .
یہ یہ …….یہ کیا تھا .؟ بکرا تھا ؟
نہیں خالہ ……...!!!! سلیم منمنایا۔
تو …………؟؟؟؟
یہ ……یہ ……تو بکرے کا سیمپل۔۔۔۔تھا۔۔
سلیم نے گڑبڑا کر کہا۔
توبہ توبہ """" یہ بھی وقت آنا تھا کہ خدا کے معاملوں میں بھی کنجوسی ایک ہم تھے روکھی سوکھی کھا کے ایک اایک پیسہ جمع کر کہ عید کا تگڑا بکرا لیتے تھے اﷲ بھی راضی بندہ بھی راضی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں کانوں کی لو کو چھوتے انہوں گویا سلیم کو شرم دلائی۔پل بھر میں اس کی آنکھیں بھرا گئیں۔
دیکھو میا ں اگر قربانی کرنی ہی ہے تو ڈھنگ کی ہی کرو آس پڑوس کا بھی کچھ حق ہوتا ہے عزت ہوتی ہے اب بھلا اس ہڈیوں کے پنجر میں بھلا کیااﷲ راضی کیا بندہ راضی۔۔۔۔۔
ہاں ہاں تو یوں کہو ...بی اماں ……!!!!.کہ پڑوسیوں کی تاک میں اپنے مطلب کہ لئے لگی ہوتی ہیں کبھی ادھر کبھی ادھر سر نکوڑے دوسروں کہ گھروں میں جھانکنے کا وطیرہ جو اپنایا ہے کیاکبھی اس بارے میں بھی سوچا ہے کہ اﷲ راضی یا بندہ راضی ہوگا آپ سے۔پڑوسی ہو تو پڑوسی کہ برابر حقوق ادا کرو نہ کہ کسی بلا کی طرح ہمارے سر پہ منڈلاتی رہو۔""""""
پتا نہیں کہاں سے انار کلی تن فن کرتی وہاں آئی تھی .اور انار کلی پٹاخے سب کی سماعتوں میں پھوڑ ڈالے سلیم حق دق سا مختل حواسوں کیساتھ سارے منظر کو دیکھ رہا تھا کب خالہ نزاکتے مع جاسوس سنز کے وہاں سے گء کب سارے منظر کااختتام ہوا وہ تو تب خیالوں کی مالا ٹوٹی جب نہایت شیریں انداز میں اس کا نام پکارا گیا تھا۔اس نے مسحور ہو کر گردن کو خم دیا۔مسکراتا ملیح چہرہ ہاتھ میں چائے پکڑے اس کی ازلی محبت انارکلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔شہزا­­دہ سلیم کی لازوال محبت کا عکس انار کلی۔۔۔۔۔۔۔۔
چائے پی کر تازہ دم ہو لیں پھر ہم مویشی منڈی جا کر مل کر پسند سے پچھلی عید جیسا بکرا لیں گے۔میں تب تک تیارہو لوں ."""""۔
بیگم اٹھلا کر بولی اور سلیم یکدم اس انارکلی پٹاخوں کی بوچھاڑ سے گھبرا کہ سیدھا ہوا۔چائے کی گرم پیالی چھلک کر اس پہ گری اور سسکاری لیتے میٹھے خواب سے جاگ کر کڑوی چائے کا گھونٹ بھر کرر ہ گیااور کوئی راستہ جو نہ تھا۔

MUHAMMAD IBTASAM UL HAQ
About the Author: MUHAMMAD IBTASAM UL HAQ Read More Articles by MUHAMMAD IBTASAM UL HAQ: 23 Articles with 18088 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.