امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃعلیہ کے حالات وملفوظات

 امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اﷲ تعالیٰ ائمہ اربعہ میں سے سب سے زمانہ کے اعتبا ر سے مقدم ہیں آپ کی فقہ قرآن وحدیث اور اقوال صحا بہ پر مبنی ہے امام صاحب منقول اور معقول کو عجیب طریقے سے جمع فرماتے تھے بیحد ذہین اورذکی تھے۔

آپ کی ذہانت کے چند واقعات :
حضرت عبداﷲ بن مبارک فرماتے ہیں کہ میں امام مالک رحمہ اﷲ کی خدمت میں حاضر تھا ایک بزرگ آئے جب وہ اٹھ کر جانے لگے تو حضرت اما م مالک نے فرمایا جانتے ہو یہ کون تھے حاضرین نے عرض کیا ہم نہیں جانتے حضرت عبداﷲ بن مبارک فرماتے ہیں میں پہچان گیا تھا تو امام مالک رحمہ اﷲ نے فرمایا یہ ابو حنیفہ ہیں عراق کے رہنے والے ہیں انکی تو یہ شان ہے اگر کہہ دیں کہ یہ ستون سونے کاہے تو وہ ستو ن سونے کانکلے گا انہیں فقہ میں اﷲ پاک نے ایسی توفیق دی ہے کہ اس فن میں انہیں ذرا ہی مشقت نہیں ہوئی اسی طرح اما م شافعی رحمہ اﷲ سے منقول ہے انہوں نے امام مالک سے پوچھاتم ابوحنیفہ کو جانتے ہو تو انہوں نے جواب دیا وہ تو ایسے فقیہ ہے کہ اگرتم کو اس پہاڑکے سوناہونے کے دلائل شروع کردے تو اس پہاڑ کوسوناثابت کردے گا ۔

امام شافعی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں جو شخص فقہ حاصل کرنا چاہتاہے وہ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کو لازم کرپکڑے کیونکہ تمام لوگ فقہ میں امام ابوحنیفہ کے خوشہ چین ہیں اور میں نے امام ابو حنیفہ سے بڑھ کر کوئی فقیہ نہیں دیکھا ۔

یزید بن ہارون کہتے ہیں ابو حنیفہ پر ہیزگا ر پا کیزہ صفات زاہد عالم زبان کے سچے اور اپنے معاصروں میں برے حافظ الحدیث تھے میں نے زمانہ میں جتنے لوگوں کو پایا ہے سب کو یہی کہتے ہوئے سناکہ ابوحنیفہ سے بڑھ کر ہم نے کوئی فقیہ نہیں پایا ۔

عبداﷲ بن داؤد خریبی فرماتے ہیں کہ ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کی عیب گوئی دو آدمیوں کے سوا کوئی نہیں کرتا ایک جاہل شخص جو آ پ کے ول کادرجہ نہیں جانتا اوردوسرا حاسد جو آپ کے علم سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے حسد کرتاہے اور فرماتے ہیں مسلمانوں پر واجب ہے کہ اپنی نمازوں میں ابو حنیفہ کیلئے بھی دعاء کیاکریں کیونکہ انہوں نے حدیث وفقہ کو مسلمانوں کیلئے محفوظ کیا ہے عبداﷲ بن مبارک رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں اگراﷲ تعالیٰ نے مجھے ابو حنیفہ وسفیان ثوری سے نہ ملایا ہوتاتو میں بدعتی ہوتا۔

اوجز امسالک میں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا رحمہ اﷲ نے فرمایا ہے ایک دفعہ امام اعظم اپنے اصحاب میں بیٹھے ہوئے فرمارہے تھے میرے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ قیاس بہت کرتا ہے فرمایا اے صاحبو میرے پاس جو مسئلہ آتاہے اولاً میں اس کو قرآن مجید سے تلاش کرتاہوں اگر وہاں نہ پاؤں تو سنت رسول میں تلاش کرتا ہوں اگر وہاں بھی نہ پاؤں تو پھر اقو ال صحابہ اگر اس پر متفق ہوں تو وہاں سے مسئلہ بیان کرتاہوں اور اگر اقواک صحابہ اس مسئلہ کے بارے میں مختلف ہوں تو پھر ان میں سے جو اقوال قرآن سنت کے زیادہ قریب ہوں انکو اختیار کرتاہوں اور اقوال صحابہ میں اگر نہ پاؤ ں تو قیاس کرتاہوں تابعین کے اقوال کونہیں دیکھتا لانھم رجال ونحن رجال تو اس پر ایک آدمی کھڑاہوگیا کہنے لگا سب سے پہلے قیا س تو ابلیس نے کیا تھا تو اما م صاحب فوراً اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اے فلانے تو نے کیسی غلط با ت کہی ہے ابلیس نے تو اپنے قیاس کے ذریعے تو اﷲ کے حکم کو رد کیا تھا جس کی وجہ سے وہ کافربن گیا اور اس پر اﷲ کی لعنت ہوتی رہتی ہے اور ہمارا قیاس تو اﷲ پا ک کے حکم کی اتباع کیلئے ہوتاہے چنانچہ ہم قرآن حدیث واقوال صحابہ پر قیاس کرکے مسائل کو ثابت کرتے ہیں تو اس پر وہ آدمی امام صاحب کے سامنے کھڑاہوگیا اور کہنے لگا میں نے غلط کہاہے میں توبہ کرتاہوں اور پھر امام صاحب کو دعا دی کہ اﷲ پا ک آپ کے دل کو منور کرے جیسے کہ آپ نے میرے دل کومنور کیا

امام اعظم ابو حنیفہ کے مذہب کی بنیاد امام صاحب کے بارے میں آپ کے زمانے کے لوگ اور بعد والوں کو یہ شبہ ہوا کہ امام صاحب اور آپ کے اصحاب قیاس کو ترجیح دیتے ہیں اور قیا س کے مقابلہ میں احادیث مبارکہ کو چھوڑد یتے ہیں لیکن ان کایہ خیال حقیقت میں غور نہ کرنے کی وجہ سے غلط تھاچونکہ آپ نے اگر ظاہراکوئی حدیث چھوڑی ہے تو اس سے زیادہ قوی حدیث پر عمل کیاہے اور یہ حدیث چھوڑنے کی شرعی وجہ ہوتی ہے چنانچہ آپ نے چند اصول بنائے تھے قرآن وحدیث سے جن کی بنیاد پر آپ اجتہاد کرتے تھے ان اصولوں کو علامہ ابن حجر ؒ نے نقل کیاہے ۔1- خبر واحداس وقت تک قبول نہیں ہوگی جب وہ عمل راوی کے خلاف ہوجیسے ابو ہریرہ کی روایت ہے اگر کتا برتن میں منہ ڈال لے تو اس کو سات مرتبہ دھویا جائے تو اس کوامام صاحب نے چھوڑ دیاہے اس کے مقابلے میں تین مرتبہ دھونے والی حدیث کو ترجیح دی ہے کیونکہ ابو ہریرہ کاعمل سات مرتبہ دھونے والی حدیث کے خلاف اور وہ تین مرتبہ دھونے کافتویٰ دیاکرتے تھے ۲؂ اگر وہ حدیث عموم بلویٰ کے خلاف ہوتو بھی اس کو چھوڑ دیاجائے تو عمل عموم بلویٰ کے مطابق ہوتا ہے تو اس لیئے حضرت بسرہ رضی اﷲ عنہ کی حدیث کوچھوڑ دیاجس میں یہ منقول ہے مس ذکر سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ یہ عموم بلویٰ کے خلاف ہے ۳؂ قرآن کی آیت کے جو زیادہ موافق ہو اس حدیث کو لیتے ہیں اور اس کے مقابلے میں خبر واحد کو چھوڑ دیتے ہیں جیسے آمین بالسر قرآ ن کی آیت ادعو اربکم تضرعاوخفیہ کے زیادہ موافق ہے اور آمین بالجہر والی حدیث کو چھوڑدیاہے

۴؂ اگر کوئی حدیث عموم قرآن کے مخالف ہوتو اس کو بھی چھوڑ دیتے ہیں جیسے لاصلاۃ الابفاتحۃ الکتاب فاقرؤ اماتیسر من القرآن کے عموم کے خلاف ہے اس لئے اس کو نماز کارکن قرار نہیں امام صاحب رحمہ اﷲ ایسی حدیث کو جو احادیث مشہورہ کے خلاف ہواس کو بھی چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ خبر مشہور خبر واحد سے اقویٰ ہوتی ہے جیسے کہ حدیث ہے اگر مدعی کے پاس دو گواہ نہ ہوں تو ایک گواہ اور قسم ہوگی یہ حدیث حدیث مشہور البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر کے خلاف ہے تو ان اصولوں سے معلوم ہوگیاکہ امام صاحب کامذہب قرآن وسنت کے خلاف نہیں ہے اور آپ کے مذہب کادارومدار صرف قیاس پر نہیں ہے اس لیئے ابن حزم ؒ نے فرمایا ہے کہ تمام احناف اس بات پر متفق ہیں کہ امام صاحب کے نزدیک حدیث ضعیف قیاس سے اقو یٰ واوضح ہے اسی وجہ سے آپ نے احادیث مرسلہ کو قیاس پر مقدم کیاہے آپ نے فرمایاہے نماز میں قہقہ لگانے سے وضوء واجب ہوجاتا ہے یہ حدیث مرسل سے ثابت ہے لیکن قیاس کے خلاف ہے تو آپ نے یہاں قیاس کو چھوڑدیاامام صاحب کی فقہ اور آپ کی ذہانت کاکوئی بھی انکار نہیں کرسکتا چنانچہ امام شعرانی ؒنقل فرماتے ہیں کہ ابو حنیفہ ؒ تمام لوگوں میں زیادہ متقی اور پرہیز گا تھے اور لوگوں میں سب سے زیادہ علم والے تھے لوگوں میں زیادہ عزت والے تھے لوگوں میں زیادہ عبادت گزار تھے امام صاحب کو خواب میں ایک سو مرتبہ اﷲ پاک کی زیارت ہوئی ہے آپ لوگوں میں سے دین کے اندر بہت زیادہ محتاط تھے جب کوئی مسئلہ آپکے پاس آتا تو اس کو صرف اپنے علم کی بنیاد پر نہیں لکھواتے تھے بلکہ اسکو اپنے اصحاب جیساکہ امام ابویوسف ؒ اور امام محمد ؒ اور امام زفر ؒوغیرہ پر پیش کرتے جب آپکے اصحاب اس پر اتفاق کر لیتے تو پھر فرماتے اس کو فلاں باب میں رکھو آپ وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں حضور ﷺ نے خوشخبری دی تھی کہ اگرعلم دین ثریاپر پہنچ جائے گا تو میراایک امتی ہوگا جو علم دین کو ثریاسے بھی اتا رلائے گا اور میری امت کے لوگوں کو سکھلائے گا علماء فرماتے ہیں وہ آدمی ابوحنیفہ ؒ ہیں کیونکہ آپ نے سب سے پہلے ایسی فقہ مدون کی جس کی ہرآدمی کو ضرورت ہے اور ہر آدمی نے نفع اٹھایاہے آپ کے زمانے میں بھی لوگوں نے نفع اٹھایاہے اور قیامت تک آنیوالے لوگ آپکی فقہ سے نفع اٹھاتے رہیں گے آپکے زمانے میں ایک شخص آیااور آکر کہامیں نے قسم کھائی ہے کہ اگر میں نے غسل کیاتو میری بیوی کو طلاق اب میں جنبی ہوگیاہوں میرے اوپر غسل واجب ہوگیا ہے اب اگر میں غسل کرتا ہو ں ہوتومیری بیوی طلاق ہو جائے گی میں بہت سے علماء کے پاس گیا ہوں تو انہوں نے کہا کہ آپ کے مسئلے کاحل ابو حنیفہ ہی کریگاتو میں آپ کے پاس آیاہوں اگر کوئی صور ت ہو تو وہ مجھے بتلائیں امام صاحب نے کہا کہ اچھا میں آپ کے مسئلے کاحل کرتاہوں تو امام صاحب نے اس آدمی کو ساتھ لیا اور نہر کے کنارے پر لیگئے جب نہر کے کنارے پر پہنچے تو اس آدمی کو نہر کے اندر دھکادے دیا فرمایا آپ کے مسئلہ کاحل ہوگیا کہ آپنے تو غسل نہیں کیامیں نے ہی آپ کو دھکادیاہے لہٰذاآپ کا غسل بھی ہوگیا ہے اور بیوی کو بھی طلاق نہیں ہوئی اور آپ اتنے بڑے متقی تھے کہ لوگوں کو جھوٹ تو جھٹ شبہات سے بھی بچاتے تھے ایک دفعہ آپ کے زمانہ میں کسی آدمی نے آپ کو جاتے ہوئے دیکھا پوچھنے لگا یہ کو ن ہے تو بتلایاگیا کہ یہ وہ شخصیت ہے جو ساری رات جاگتاہے اور اﷲ کی عبادت میں مشغول رہتاہے امام صاحب ؒنے یہ بات سن لی تو اس کے بعد امام صاحب ؒ ہمیشہ عشاء کے وضوء سے صبح کی نماز پڑھتے اور ساری رات نوافل پڑھتے تھے اﷲ کی عبادت کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ میرے بارے میں تم لوگوں کایہ خیال ہے کہ ابو حنیفہ ساری رات اﷲ کی عبادت کرتاہے حالانکہ میرے اندر یہ صفت نہ تھی مجھے اﷲ پاک سے شرم آئی کہ لوگوں کامیرے بارے میں یہ خیال ہے تو میں نے ان کے خیال کو سچابنانے کیلئے ایساکیاہے ۔

Hafiz Usman Yousuf
About the Author: Hafiz Usman Yousuf Read More Articles by Hafiz Usman Yousuf: 11 Articles with 21238 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.