بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام و علیکم۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ اقدس کی حاضری اللہ تعالیٰ کا
قرب حاصل کرنے کا قریب ترین ذریعہ ہے، گناہوں کی بخشش اور حصول رحمت و
مغفرت کا قوی آسرا ہے-
سورۂ نساء کی آیت نمبر:64،میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا
اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا
رَحِيمًا-
ترجمہ:اور اگر یہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو اے محبوب وہ آپ کی
بارگاہ ميں حاضر ہوں ،اور اللہ سے مغفرت طلب کریں اور اللہ کے رسول(صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم )بھی ان کے لئے سفارش کردیں تو وہ ضرور بضرور اللہ کو
خوب توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا پائینگے-(سورۂ نساء:64)
ان حقائق کا اظہار مسجد ابو الحسنات پھول باغ جہاں نما حیدرآباد میں ہفتہ
واری لکچر کے موقع پر حضرت ضیاء ملت مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین
نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ نائب شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ بانی ابوالحسنات
اسلامک ریسرچ سنٹر نےفرمایا-
سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوئے حضرت ضیاء ملت دامت برکاتہم العالیہ نے فرمایا
کہ کتب اسلامیہ میں جہاں حج کے مناسک اور اس کے آداب کا ذکر ہے وہیں روضہ
اطہر کی حاضری اور اس کے آداب کا بھی ذکر موجود ہے، مذکورہ آیت مبارکہ میں
اللہ تعالیٰ نے تین امور کا ذکر فرمایا :(1) جب گناہ کر بیٹھیں تو آپ کے
دربار میں حاضر ہونا،(2) استغفار کرنا،(3) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کا اس کے حق میں سفارش فرمانا -
جب یہ تین کام ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس بندہ کے لئے قبولیت
توبہ کا مژدہ ملتا ہے اور بے پناہ رحمتوں کا وہ حقدار بنتا ہے-
سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوئے حضرت فقیہ ملت دامت برکاتہم العالیہ نے فرمایا
کہ بندہ مؤمن سے دو طرح کے حقوق متعلق ہیں،حقوق اللہ اور حقوق العباد،توبہ
کی وجہ سے حقوق اللہ تو معاف ہوجاتے ہیں لیکن حقوق العباد اس وقت تک معاف
نہیں ہوتے جب تک کہ صاحب حق اپنا حق معاف نہ کردے- چونکہ عبادات کا حکم
اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وساطت سے دیا ہے،اسی
لئے فرائض وعبادات ،اللہ کا بھی حق ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا
بھی ،جب امتی روضہ اقدس پر حاضر ہوکر اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے اور حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے حق میں سفارش فرما دیں تو گویا آپ نے
اپنا حق معاف فرما دیا، اللہ تعالیٰ کی جانب سے اسی وقت مغفرت اور نزول
رحمت کا اعلان ہوتا ہے، اسی لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی
امت کو در اقدس پر حاضری کی ترغیب دلائی اور شفاعت کی بشارت بھی عنایت
فرمائی ہے-
سنن دارقطنى،شعب الإيمان للبيهقي،جامع الأحاديث،جمع الجوامع،مجمع الزوائد
اور كنز العمال وغیرہ میں حدیث مبارک ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے ارشاد فرمایا: جس نے میرے روضہ اطہر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت
واجب ہوچکی ہے-
اس حدیث شریف کی تشریح کرتے ہوئے حضرت ضیاء اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ نے
فرمایا کہ حج کرنے والوں کو یہ بشارت دی گئی کہ ان کے تمام گناہ معاف کردئے
جاتے ہیں ،حج کے بعد حاجی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی بقیہ زندگی تقویٰ
و پرہیزگاری کے ساتھ گزارے،اعمال صالحہ کا ثواب اسی وقت کام آئے گا جب کہ
وہ ایمان کی سلامتی کے ساتھ دنیا سےگیا ہو،دیگر عبادات پر جو اجرو ثواب کی
بشارتیں سنائی گئیں ان کے لئے ضروری ہے کہ خاتمہ بھی خیر پر ہوا ہو،اور
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دراقدس پر حاضر ہونے والوں سے شفاعت
کا وعدہ فرمایا ہے ،اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس شخص کا خاتمہ خیر پر ہوگا-یہاں
شفاعت سے مراد شفاعت خاصہ ہے-
صحیح بخاری شریف میں حدیث مبارک ہے ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
دعا فرمائی:اے اللہ !جس طرح مکہ مکرمہ کی محبت ہمارے دلوں میں ہے اسی طرح
بلکہ اس سے بھی زیادہ محبت مدینہ منورہ کی ہمارے دلوں میں ڈال دے –اور دعا
فرمائی کہ مولا!جو برکتیں تو نے مکہ مکرمہ میں رکھی ہے ان میں چار گنا
اضافہ کے ساتھ مدینہ منورہ میں رکھ دے-
سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوئے دوران خطاب حضرت ضیاء ملت دامت برکاتہم العالیہ
نے فرمایا کہ روضہ اطہر کی حاضری کے لئے کسی خاص لباس کی پاندی نہیں ہے،ادب
واحترام ہر حال میں لازم وضروری ہے، اس یقین کے ساتھ حاضر ہوں کہ حضور اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات ہیں ،ہمارے صلوۃ وسلام کو بلاواسطہ سماعت
فرماتے ہیں اور جواب بھی عنایت فرماتے ہیں،سنن ابن ماجہ میں حدیث مبارک ہے
،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بیشک اللہ نے زمین پر
حرام کردیا کہ وہ انبیاء کرام کے اجسام کو کھائے ،اللہ کے نبی حیات ہیں رزق
پاتے ہیں-
جب مدینہ طیبہ حاضر ہوں تو اپنی قیامگاہ پر پہنچ کر ممکن ہو تو غسل کرلیں
،یہ افضل ہے ورنہ تازہ وضو کرلیں،نئے کپڑے اگر ہوں تو زیب تن کریں ورنہ جو
عمدہ لباس ہو اسے پہن لیں،بادب مسجد نبوی شریف میں داخل ہوں ،وقتیہ کوئی
نماز ہو تو نماز ادا کرلیں ،ورنہ مکروہ وقت نہ ہو تو دو رکعت تحیۃ المسجد
ادا کرلیں، اور اللہ تعالیٰ کے حضور شکر بجا لائیں کہ اس نے ہم گناہ گاروں
کو اس پاکیزہ مقام پر حاضر ہونے کی سعادت عطا فرمائی ،دعاء کریں کہ جس
بارگاہ عالی جاہ میں ملائکہ بھی باادب اجازت لیکر داخل ہوتے ہیں ہمیں بھی
یہاں باادب رہنے کی توفیق عطا فرمائے،بعد ازاں مکمل ادب واحترام کے ساتھ
صلوۃ وسلام پیش کریں، شفاعت کی درخواست کریں،اور حضرات صاحبین کریمن حضرت
ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کی خدمت بابرکت میں نذرانہ سلام پیش کریں،جنت البقیع کی زیارت کریں جہاں
ہزارہا صحابہ کرام ،اہل بیت عظام ،اور صالحین امت آرام فرماہیں-جب تک مدینہ
طیبہ میں قیام رہے غنیمت جانیں،مسند امام احمد میں حدیث مبارک ہے،حضور نے
ارشاد فرمایا: جو شخص میری مسجد میں چالیس نمازیں ادا کرے اور اس سے کوئی
نماز نہ چھوٹی ہو تو اس کے لئے دوزخ سے آزادی اور عذاب سے خلاصی لکھ دی گئی
اور وہ نفاق سے محفوظ و بری ہوگیا۔ (مسند امام احمد،حدیث نمبر 12123) |