مولوی نعمان احمد
ہر قوم کے لیے سال میں کوئی نہ کوئی خوشی کا دن ہوتا ہے،جسے وہ اپنے مزاج و
مذاق ،اپنے انداز اور اپنے طور طریقوں سے مناتی ہے۔
مسلمانوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے ”میٹھی عید “اور ”عید قرباں“کی صورت میں یہ
دن عطا فرمایا ہے، کہ اس دن امت کے کلمہ گو مسلمان عید الفطراور عید الاضحی
کی نماز کے ذریعے اس دن کی خوشی کا آغاز کرتے ہیں اور گویا کہ اللہ تعالیٰ
کے سامنے سر بسجود ہو کراس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ عید کا دن مسلمانوں کے
لیے عیسائیوں ،یہودیوں یا دوسری قوموں کی طرح صرف ایک تہوار ہی نہیں، بلکہ
یہ دن مسلمانوں کی عبادت کا دن بھی ہے اور خوشی کا دن بھی، جسے مسلمان اپنے
دین کے توحیدی مزاج، اس کی تاریخ وروایات کے مطابق مناتے ہیں۔
لیکن !آج ہمارے معاشرے میں کم قسمتی سے، بوجہ دین سے دوری ، عید کے ایام
میں ایسی رسوم شامل ہو گئی ہیں جن کا دین سے دور کا بھی تعلق نہیں اور
عمومی طور پر مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ انہیں عید کے تہوار کا حصہ اور
دین سمجھ کر انجام دے رہا ہے،ان رسوم میں سے ایک رسم عید کے دن ”مصافحہ
ومعانقہ کرنا “ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں خاص عید کے موقع پر صر ف عید کی وجہ سے گلے ملنے کی
رسم کو بہت سے لوگوں نے اس قدر اہم اور خاص عمل سمجھ لیا ہے کہ اس عمل میں
سستی و کوتاہی کسی حال میں گوارا نہیں کرتے ،خواہ ایک ہی گھر کے افراد کیوں
نہ ہوں اور ایک ساتھ عید کی نماز کے لیے گئے ہوں،ایک دوسرے کے قریب ہی کھڑے
ہو کر نما ز ادا کی ہو اور خاص اس موقع پر ملاقات نہ ہو رہی ہو،یہاں تک کہ
عید کے دن خواہ تمام نمازوں، مسنون اعمال اور گناہوں سے بچنے کی تو فیق نہ
ہو، مگر یہ رسم ادا کرنا انتہائی لازم سمجھا جاتا ہے بلکہ خاص اس عمل کی
غرض سے ایک دوسرے سے ملنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور اگر خاص عید کے دن کسی
کے ساتھ یہ رسم پوری نہ ہو سکے تو اگلے روز بھی اس کی جستجو اور کوشش رہتی
ہے اوراگر کوئی اس کو ادا نہ کرے تو اسے بہت برا سمجھا جاتا ہے جیساکہ عام
طور پر مشاہدہ ہے، سِتم اس پر یہ ہے کہ اس میں مردوں کے شانہ بشانہ عورتیں
بھی ہیں۔
اس سلسلے میں یہ بات واضح رہے کہ مصافحہ یا معانقہ کرنے (یعنی دونوں ہاتھ
ملانے اور گلے ملنے )میں حضور صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ
عنہم کاطریقہ یہ تھاکہ جب آپس میں ملاقات ہوتی تو پہلے سنت کے مطابق سلام
کرتے اور سلام کے بعد مصافحہ کرتے اور جب سفر سے واپس آتے تو معانقہ
کرتے(اس سے ہٹ کر مصافحہ ومعانقہ کا کوئی خاص دن مثلاً: کسی نماز کے بعد یا
عید کا موقع مقرر نہ تھا )
چناں چہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جب بھی رسول اللہ
صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات کی تو آپ نے مجھ سے مصافحہ فرمایااور ایک دن
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مجھے بلانے کے لیے (میرے گھر میں)کوئی
قاصد بھیجا ، مگر اس وقت میں اپنے گھر میں موجود نہیں تھا (بلکہ باہر گیا
ہوا تھا)جب میں اپنے گھر آیا تو مجھے اطلاع دی گئی کہ رسول اللہ صلی الله
علیہ وسلم نے مجھے بلانے کے لیے قاصد بھیجا تھا ،میں فوراً رسول اللہ صلی
الله علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا،اس وقت آپ اپنے بستر پر تشریف
فرما تھے ، آپ نے مجھے فوراً اپنے ساتھ چمٹا لیا (یعنی مجھ سے معانقہ
فرمایا)تو میں نے آپ کو بہت ہی حسین و جمیل اور خوبصورت پایا۔(سنن ابی
داوٴد،رقم الحدیث: (2514) :4/453،داراحیاء التراث العربی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے
صحابہ رضی اللہ عنہم جب آپس میں ملاقات کرتے تو مصافحہ کرتے اور جب کسی سفر
سے لو ٹتے تو معانقہ کیا کرتے تھے ۔(الترغیب والترہیب، رقم(4007)،
ص:514،دار ابن حزم)
ان دونوں روایات(اور دیگر کئی روایات )سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم
صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ملاقات کے وقت
مصافحہ کرتے اور سفر سے واپسی پر معانقہ فرماتے تھے، لہٰذامذکورہ تفصیل سے
مصافحہ اور معانقہ کرنا مسنون و مستحب اور قابلِ ثواب ہے، اس پر عمل کرنا
چاہیے۔
چناں چہ اگر کوئی مصافحہ اور معانقہ کے عمل کو عید کے دن ، خاص عید کے دن
کی وجہ سے لازم ،ضروری اور سنت نہ سمجھے اور عیدین کے علاوہ سال کے دیگر
ایام میں بھی اس عمل کو سنت سمجھ کر اپنی مستقل عادت بنا لے اور پھر عیدین
کے دن اپنی گذشتہ عادت کے مطابق ملاقات کے وقت سنت کے مطابق سلام کر کے
دونوں ہاتھو ں سے مصافحہ کرے یا جو عزیز ، رشتہ دار یا دوست عید کے دن سفر
سے آئیں اور سفر سے آنے کی وجہ سے ان سے گلے ملے ،تو یہ نہ صرف جائز بلکہ
عین سنت ہے۔
جب کہ خاص عید کی تخصیص کی وجہ سے مصافحہ اور معانقہ کرنا شرعاً ثابت نہیں
، نہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں اور نہ ہی خیر القرون کے
زمانے میں، لہٰذا اس طریقے کو ترک کرنے اور دوسروں کو حکمت و بصیرت کے ساتھ
سمجھا نے کی ضرورت ہے، کیوں کہ کسی شرعی دلیل سے اس کا ثبوت نہیں اور
فقہائے کرام واکابر عظام رحمہم اللہ نے اسی پہلو سے اس کو بدعت اور ناجائز
قرار دیا ہے اور اس سے بچنے کی تاکید فرما ئی ہے، تاہم اس سلسلے میں کسی
قسم کے فتنے و انتشار سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے،لہٰذا اگر کوئی اس
موقع پر ملنے پر ہی بضد ہو تو اُس وقت اس سے بغیر سنت کی نیت کیے، مل تو
لیں ،لیکن ہیئتِ مخصوصہ بدل دیں، یعنی تین کے بجائے ایک دفعہ ملنے پر اکتفا
کریں اور پھر کسی دوسری نشست میں پیار و محبت سے اس کو سمجھاکر مسئلہ واضح
کر دیں۔
ذیل میں اس مسئلے سے متعلق فقہ و فتاوی سے گہری مناسبت رکھنے والے اکابر
علماء و فقہاء امت کی آرا کو نقل کیا جاتا ہے، تاکہ اس رسم کی حقیقت قارئین
کے سامنے پوری طرح واضح ہو جائے۔
*… فقیہ النفس ،حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب رحمہ اللہ ”فتاوی رشیدیہ
“میں تحریر فرماتے ہیں:
”عیدین میں معانقہ کرنا بدعت ہے“۔(ص:443،سعید)
*…مفتی اعظم ہند،حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی رحمہ اللہ فرماتے
ہیں :
”عیدین میں معانقہ کرنا یا عید کی تخصیص سمجھ کر مصافحہ کرنا شرعی نہیں،
بلکہ محض ایک رسم ہے“۔(کفایت المفتی:3/302،دارالاشاعت)
*…حکیم الامت ،مجدد ملت،حضرت مولانا اشرف علی تھانو ی صاحب رحمہ اللہ رقم
طراز ہیں:
”قاعدہ کلیہ ہے کہ عبادات میں حضرت شارع علیہ السلام نے جو ہیئت و کیفیت
معیّن فرمادی ہے،اس میں تغیّر وتبدّل جائز نہیں اور مصافحہ چوں کہ سنت ہے،
اس لیے عبادات میں سے ہے، حسبِ قاعدہ مذکورہ اس میں ہیئت و کیفیت ِ منقو لہ
سے تجاوز جائز نہ ہو گااور شارع علیہ السلا م سے صرف اولِ لِقاء کے وقت
بالاجماع یاوداع کے وقت بھی علی الاختلاف منقول ہے،پس اب اس کے لیے ان دو
وقتوں کے سوا اور کوئی محل و موقع تجویز کرنا تغییر عباد ت کرنا ہے،
جوممنوع ہے لہٰذا مصافحہ بعد عیدین یا بعد نمازپنجگانہ مکروہ و بدعت
ہے،شامی میں اس کی تصریح موجود ہے“۔(امداد الفتاوی :1/557،مکتبہ دارالعلوم
،کراچی)
*…حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”عیدین کی نماز کے بعد مصافحہ کا جو رواج ہے یہ بدعت ہے، دوسرے اوقات کی
طرح اگر کسی شخص سے اس وقت نئی ملاقات ہو تو مصافحہ کر لے، ورنہ نہیں“۔
(امداد الاحکام:1/188، مکتبہ دار العلوم،کراچی)
*…مفتی اعظم پاکستان،حضرت مولانا،مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”یہ بدعت ہے اور شعارِ روافض ہے، ترک کرناچاہیے“۔ (امداد
المفتین،ص:187،دارالاشاعت)
*…صدر مفتی دارالعلوم دیوبند،حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمان صاحب رحمہ ا
للہ لکھتے ہیں:
”نمازِ عیدین یا دیگر نمازوں کے بعد تخصیص مصافحہ کی کرنا اور اسی وقتِ خاص
میں اس کو سنت جاننا اور معمول بہ ٹھہرانا بعض فقہاء نے منع لکھا ہے اور
تبیین ِمحارم میں اس کو روافض کے طریقہ سے لکھاہے اور مکروہ فرمایا
ہے“۔(عزیز الفتاوی،ص:147،دار الاشاعت)
*…فقیہ الامت،حضرت مولانامفتی محمود حسن گنگوہی صاحب رحمہ اللہ اس سلسلے
میں تحریر فرماتے ہیں:
”عید کا مصافحہ و معانقہ بدعت ہے“۔(فتاوی محمودیہ:8/464، ادارہ
الفاروق،کراچی)
*…حضرت مولانا ،مفتی سید عبد الرحیم لاجپوری صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”عید کی نماز کے بعد ملنا اور معانقہ و مصافحہ کرنا کوئی امرِ مسنون نہیں
ہے،لوگوں کی اختراعات اور بدعات میں سے ہے،احادیث میں جہاں تک معلوم ہے اس
کا پتہ نہیں چلتا،غیبوبت کے بعد مصافحہ اور طویل غیبوبت پر معانقہ ثابت
ہے،مگر عید کی نماز کے بعد ان کا ثبوت نہیں ہے،یہاں یہ حالت ہے کہ وہ رفقاء
جو نماز میں شریک بلکہ برابر میں کھڑے تھے، سلام اور خطبہ کے بعد معانق
ہوتے ہیں اور اس کو امرِ دینی سمجھتے ہیں،اس لیے یہ غلط چیز ہے“۔ (فتاوی
رحیمیہ:2/111،112،دارالاشاعت)․
*…مفکر ِاسلام ،حضرت مولانا،مفتی محمود صاحب رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
”واضح رہے کہ مصافحہ اور معانقہ ابتدائے ملاقات کے وقت مسنون ہے اور وداع
کے وقت مختلف فیہ ہے،لہذا بعد از نماز عید مسنون تو ہر گز نہیں ہے، کیوں کہ
اس کا ثبوت حضور پاک صلی الله علیہ وسلم سے نہیں ہے ، ہاں بعض علماء اس کو
بدعت مباحہ کہتے ہیں اور (بعض )علماء اس کو بدعت مکروہہ کہتے ہیں اور
مولانا عبد الحئی صاحب لکھنوی اپنے فتاوی کی جلد /2،ص/45 پر فرماتے
ہیں،”علی کل تقدیر ترک اس کا اولیٰ ہے…“۔(فتاوی مفتی محمود:2/513،جمعیت
پبلیکیشنز)
*…حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب اعظمی فرماتے ہیں:
”مطلقاً نماز کے بعد بالالتزام مصافحہ یا معانقہ کرنا شرعاً درست نہیں
،حتیٰ الامکان اس عمل سے بچنا ضروری ہے،لیکن ابتدائی ملاقات کسی نماز کے
بعد فوراً ہو رہی ہو تو اس صور ت میں گنجائش ہے کہ مصافحہ یا معانقہ کیاجا
سکتا ہے “۔(نظام الفتاوی:1/59،مکتبہ رحمانیہ)
*…فقیہ العصر،حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی صاحب رحمہ اللہ لکھتے
ہیں:
”یہ طریقہ اختیارکرنا بدعت اور مکروہ ہے…بدعت یا کسی گناہ کا ارتکاب کسی
مصلحت کے پیش ِ نظر ہر گزجائز نہیں ،البتہ دوسروں کو منع کرنااس وقت ضروری
ہے جب قبول کی امید ہو،ورنہ ”نہی عن المنکر“ ضروری نہیں، غرض یہ کہ خود
نمازِ عید کے بعدکسی سے مصافحہ یا معانقہ نہ کرے،ہاں! اگر کسی سے ملاقات ہی
بعد نماز کے ہوئی ہو تو اس سے جائز ہے،مگر تشبّہ بالبدعة اور اس کی تائید
کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے اس سے بھی اجتناب کرنا چاہیے“۔ (احسن الفتاوی
:1/354،سعید)
*…حکیم العصر،حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”یہ سنت نہیں،محض لوگوں کی بنائی ہوئی ایک رسم ہے،اس کو دین کی بات سمجھنا
اور نہ کرنے والے کو لائق ملامت سمجھنا بدعت ہے“۔(آپ کے مسائل اور ان کا
حل:2/573،مکتبہ لدھیانوی)․
*…جامعہ حقانیہ (اکوڑہ خٹک)سے جاری ہونے والے فتاوی میں ہے کہ:
”عیدین اور جمعہ کی نمازوں کے بعد مصافحہ کرنے میں علمائے کرام کا اختلاف
ہے،حضرت تھانوی رحمہ اللہ اوردیگر محققین علمائے کرام نے اس کو ممنوع قرار
دیا ہے اور بعض دیگر حضرات نے اس کی اجازت مرحمت فرمائی ہے،لہذا اگر مصافحہ
کرنے میں التزام مالا یلزم ہو توممنوع ہے،ورنہ نہیں تاہم نہ کرنا
بہترہے“۔(فتاوی حقانیہ:2/53،جامعہ دار العلوم حقانیہ ، اکوڑہ خٹک،نوشہرہ)
*…جامعہ خیر المدارس (ملتان)سے جاری ہونے والے فتاوی میں ہے:
”عیدین یا دوسری نمازوں کے بعد مصافحہ یا معانقہ کرنا بدعت ہے، مصافحہ یا
معانقہ کی سنت صرف ملاقات یا رخصتی کے وقت ہے اور اسی ملاقات ہی کے مصافحہ
کے متعلق آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ موجب تکفیر ذنوب و
سقوط گناہ ہے، الحاصل مصافحہ نماز کے بعد بہر حال مکروہ ہے ، نیز ! یہ
روافض کا طریقہ ہے، اس سے اجتناب لازم ہے“۔ (خیر الفتاوی:1/570،مکتبہ
امدادیہ)
*…صدر ِدارالعلوم کراچی ،حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب زید مجدہم
فرماتے ہیں:
”عید پر معانقہ کرنا سنت سے ثابت نہیں،لہٰذا اس کا التزام بدعت ہے،اگر کوئی
یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ عید پر معانقہ سنت ہے یا عید کے ساتھ معانقہ کی شرعاً
کوئی خصوصیت ہے تو شرعاً ایسے شخص کے ساتھ معانقہ نہیں کرنا چاہیے“۔ (امداد
السائلین المعروف فتاوی دار العلوم کراچی: 1/165، 166،ادارة المعارف،
کراچی)
*…شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہم فرماتے
ہیں:
”دو مسلمانوں کی ملاقات کے وقت مصافحہ مسنون ہے،نیز کوئی شخص سفر سے آئے تو
اس سے معانقہ کرنا بھی سنت سے ثابت ہے،ان دونوں مواقع کے علاوہ سنت نہیں
ہے،لیکن اگر سنت سمجھے بغیر اتفاقاً کبھی کر لے تو گناہ بھی نہیں اور سنت
سمجھ کر کرے تو بدعت ہے، ہمارے زمانے میں چوں کہ فرض نمازوں کے بعد مصافحہ
اور عیدین کے بعد معانقہ کو سنت سمجھا جانے لگا ہے،حالاں کہ یہ آں حضرت صلی
الله علیہ وسلم سے ثابت نہیں،اس لیے علماء نے اس کو بدعت قرار دیا ہے اور
اس سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے، لیکن کہیں اعتقاد سنت کا نہ ہو تو مباح
ہے“۔(فتاوی عثمانی:1/103،مکتبہ معارف القرآن)
*…حضرت مولانا عبد الحئی لکھنوی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”مصافحہ اور معانقہ کا وقت ابتدائے ملاقات ہے،پس عید کی نماز کے بعدمصافحہ
اور معانقہ مسنون نہیں ہے اور علماء اس باب میں مختلف ہیں،بعض بدعت مباحہ
کہتے ہیں اور بعض ہر حال میں بدعتِ مکروہہ کہتے ہیں، اس کا تر ک اولیٰ
ہے“۔(مجموعة الفتاوی (مترجم):2/201،202،سعید)
*…حضرت مولانا سید زوّار حسین شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ:
”عیدین کے روز نمازِ عیدین کے بعد مصافحہ و معانقہ کرنا ہر حال میں مکروہ و
بدعت ہے،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وسلف صالحین رحمہم اللہ سے اس
کا کوئی ثبوت نہیں ملتا،آج کل اس پر بہت زیادہ عمل ہو گیا ہے،حتیٰ الامکان
اس کا ترک لازم ہے،بلکہ ہر نماز کے بعد بھی مصافحہ کرنا مکروہ اور بدعت
ہے،بعض جگہ اس کا بھی رواج عام ہو گیا ہے،یہ طریقہ رافضیوں کا ہے اس لیے
بھی اس سے پر ہیز ضروری ہے“۔(عمدة الفقہ :2/461،زوّار اکیڈمی)․
*…جامعہ فاروقیہ(کراچی)سے جاری ہونے والے فتاوی میں ہے:
”نماز کے بعد بشمولِ عیدین ،مصافحہ یا معانقہ کرنا صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین واسلافِ امت رحمہم اللہ میں سے کسی سے بھی جزوی طور پر ثابت
نہیں، فقہاء و محدثینِ کرام سے اس عمل کی ممانعت منقول ہے، حافظ ابن حجر
رحمہ اللہ نے اسے بدعتِ شنیعہ اور علامہ ابن ِ عابدین رحمہ اللہ نے اسے
روافض کی بدعت باور کرتے ہوئے ترک کا حکم دیاہے“۔(تبویب رجسٹر
فتاوی:61/90،غیر مطبوعہ)
مذکورہ بالا تمام فتاوی سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ
عیدین کی نماز کے بعدصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ،تابعین ، تبع
تابعین اورسلف صالحین رحمہم اللہ اجمعین میں سے کسی سے اس مذکورہ
عمل(مصافحہ و معانقہ )کا مسنون یا عبادت ہونا منقول نہیں ۔
اس لیے اس بات کا اہتمام کرناہم سب کے لیے از حد ضروری ہے کہ اس بابرکت دن
میں کہیں ہم انجانے میں یہ عمل کر کے کسی گناہ کے مرتکب تو نہیں ہو رہے!!
اگر ایسا ہے تو فی الفور اس عمل یا اس جیسے دیگر گناہوں سے اللہ جل جلالہ
کے حضور توبہ تائب ہو کراعمال مسنونہ کو اپنانے کی ہر ممکن کوشش کریں اور
پوری حکمت و بصیرت سے گرد ونواح میں موجوداس عمل میں مبتلا افراد ِ امت کو
سمجھانے کی کوشش کریں۔اللہ رب العزت ہم سب کو صراط مستقیم پر گامز ن رہنے
کی توفیق عطا فرمائے،آمین!
شائع ہواالفاروق, شوال المکرم ۱۴۳۱ھ, Volume 26, No. 10
https://www.farooqia.com/node/423 |