وہ ذیانت اور خوبصورتی کا مکمل پیکر تھا۔ اسے دیکھ کر
اندازہ ہوتا کہ ہینڈسم کہتے کس بلا کو ہیں۔ ہم پانچ کلاس فیلوز کا گروپ تھا
جس میں تین لڑکیاں، ایک لڑکا اور "وہ" تھا۔ آبی ملک عرف عبدل۔ وہ مجھے کب
اچھا لگنے لگا میں نہیں جانتی۔ شاید تب سے جب سے میں نے اسے پہلی بار
دیکھا۔ وہ ہر لڑکی کا آئیڈیل تھا۔ اس میں یہ قابلیت تھی کہ ہر کوئی اسے
پسند کرنے پر مجبور ہوجاتا۔
میں اس کے رنگ میں رنگنا چاہتی تھی۔ ۔۔اور میں رنگتی گئی۔ خاموش موسم کی
طرح بدلتی گئی۔
وہ کہتا "مجھے لڑکیاں ہر فیلڈ میں آگے بڑھتی پسند ہیں"۔ میں تقریروں میں
حصہ لیتی اور ہر کامپیٹیشن میں اپنا سکہ منوانے کی کوشش کرتی۔ وہ کہتا
"لڑکیاں دھیمی آواز میں دھیمی مسکراہٹ سے بات کرتے ہوئے ایٹریکٹ کرتی ہیں"۔
میں ویسا انداز اپنانے لگی، وہ یہ سب مجھے نہیں کہتا تھا بس اس کی باتوں سے
میں یہ باتیں اچک لیتی تھی۔ علینہ کہتی "تم میں کافی تبدیلیاں آرہی ہیں"۔
میں مسکرا دیتی۔ وہ ایک اچھی لڑکی تھی خاموش اور گہری، سب محسوس کرنے والی
مگر چپ رہنے والی۔
"وہ کہتا لڑکیوں کے ہوا سے اڑتے کھلے بال زبردست لگتے ہیں"۔ میں سکارف اتار
کر جانے لگی اور بالوں پر خوب محنت شروع کردی۔ "اس نے کہا تھا کہ لڑکیوں پر
شلوار کرتا جچتا ہے"۔ میں نے اپنا عبایا اتار کر نت نئے ڈیزائن کے کپڑے
خریدے اور زیب تن کرنے لگی۔ تاکہ اس کی نظر مجھ پر جم جائے۔
اور آج میں نے اسے دیکھا جیسے پہلی بار دیکھا ہو۔۔ سنا! جیسے پہلی بار سنا
ہو۔
"تم ایسے بہت اچھی لگتی ہو۔ یہ حجاب ، یہ میچورٹی ، یہ سوچ۔۔۔ یہ سب مجھے
اٹریکٹ کرتا ہے۔ تم ان رنگوں میں بےحد حسین لگتی ہو اور میرے دل کو بھاتی
ہو۔" میں نے اسے یہ کہتے سنا۔ لیکن پھر اس کی مخاطب کی آواز ابھری۔ "یہ
حجاب میرے خدا کو بھاتا ہے۔ میرے ہونے والے مجازی خدا کو جو بھائے گا وہ
میں اسے خوش کرنے کو کروں گی لیکن اپنے رب کو ناراض کرنے والا عمل نہیں
کروں گی"۔ علینہ مسکرائی اور اسے دیکھ کر آبی بھی۔"تبھی تو میری منگ ہو" ۔
اور مجھے بے اختیار دیوار کا سہارا لینا پڑا ۔
"بے خیالی میں سنگ تیرے ۔۔۔ میں اپنا آپ گنوا بیٹھی۔۔۔ بے خیالی میں سنگ
تیرے۔۔۔ میں اپنا رب ناراض کر بیٹھی۔۔" |