سلمان کو اپنے سینے میں دم گھٹتا ہوا محسوس ہورہا
تھا،،،وہ اندر سے اک لرزا دینے والے پل سے،،،
گزرا تھا،،،مگر ہرلمحے اس کا رب اس کے ساتھ تھا،،،ہر لمحے اسے سہارا ملتا
چلا گیاتھا،،،اور،،،
وہ اپنے آپ سے کیے ہوئے وعدوں کو قائم رکھے ہوئے تھا،،،کمزور لمحوں کو اس
نے کہیں پیچھے،،،
دھکیل دیا تھا،،،وقت اسے ہرلمحہ آزماتا چلاگیا،،،مگر وہ انہیں وقتی آزمائش
سمجھ کرٹالتا چلاگیا،،،
سلمان کوگھٹن سی ہونی لگی تھی،،،وہ کریم صاحب کی کوٹھی سے نکل آیا اور پیدل
ہی اپنے کمرے،،،
کی طرف چل دیا،،،کریم صاحب کے واچ مین کو بتادیاکہ وہ صبح دس بجے تک واپس آ
جائے گا،،،
بس پھر وہ چلاگیا،،،آج اس کے جوتوں کے تلوے بہت مضبوط تھے،،،اس میں اب موٹا
سا پیپر یا گتہ،،،
لگانے کی کوئی ضرورت نہ تھی،،،میں اس سسٹم میں کیوں ان فٹ ہوں؟؟
جانےکب ندا کا گھر آگیا،،،اسے لگا کہ جیسے وہ کسی قید خانے سے باہرنکل آیا
ہو،،،
بہت آرام سے وہ اپنے کمرے میں گم ہوجانا چاہتا تھا،،،جانے میں کہاں سے آگیا
ہوں،،،نہ منزل ہے،،،
نہ رستہ شناسہ،،،سلمان نےاپنی آنکھیں اس طرح بند کرلی جیسے وہ کسی ڈراؤنے
خواب سے جاگا ہو،،،
اگر آنکھیں کھول لی تو ایسانہ ہو کہ خواب سچ ہو جائے،،،،نائٹ بلب کی روشنی
سے بھی وہ چھپنا،،،
چاہتاتھا،،،اسے لگا خواب اب ندا آگئی ہو،،،کہہ رہی ہو،،،سلمان مجھے امجد سے
شادی نہیں کرنی،،،
اور یہ بات کان کھول کے سن لو،،،سلمان نے آنکھیں اور زور سے
بندکرلی،،،سلمان سونے کی ایکٹنگ نہ کرو،،،
اسے ندانے ڈانٹنا شروع کردیا،،،اس نے سوچاآنکھیں کھول ہی لوں،،،کم سے کم یہ
خواب تو پیچھا چھوڑجائے،،،
آنکھیں کھولی سامنے ندا کھڑی ہوئی تھی،،،وہ جھٹ اٹھ کر بیٹھ گیا،،،اوہ
لڑکی،،،تم انسان ہو یاکوئی،،،
جن بھوت،،،آنکھیں ٹکا کربیٹھی ہوئی تھی کب میں آؤں،،،کب حملہ کرنا ہے،،،مجھ
پررحم نہیں آتا،،،
ندا نے گھبرا کرآگے پیچھے دیکھا،،،انگلی ہونٹوں پررکھ کر آہستہ بولنے
کوکہا،،،غصےسے بولی،،،
ذیادہ ہیرو بننے کی کوشش نہ کرو،،،سمجھے میں دو من
|