تم بہت سیانے ہو،،،مجھ سے جان چھڑانے کے لیے بیچارے امجد
کی قربانی کر رہے ہو،،،
میں اس کو کچا چبا جاؤں گی،،،مگر تم بھی بچو گے نہیں،،،تم سمجھ رہے ہو تم
روزی کے ساتھ،،،
اڑتے پھرو گے،،،میں امجد کے بچوں کو پالوں گی پوسوں کی،،،ہے نہ مسٹر
ہوشیار،،،ایم آئی رائٹ؟؟؟
سلمان کی چائے پرساری توجہ ختم ہوتی چلی گئی،،،اس کی مسکراہٹ بھی آہستہ
آہستہ غائب،،
ہونے لگی،،،اس نے ندا کے تابڑ توڑ حملوں کے بعد اس کی طرف دیکھا،،،اس کی
آنکھوں میں اک دردتھا،،،
ندا کا کلیجہ منہ کو آنے لگا،،،اس نے خود کو کوسا،،،یہ میں کیا کیا بول رہی
ہوں،،،
سلمان نے رنجیدہ سی آواز میں کہا،،،نداجو بھی تم نے کہا،،،کیاتم سب ایسا ہی
سمجھتی ہو؟
ندا کو افسوس ہوا اس نے کچھ ذیادہ ہی کہہ دیاتھا،،،وہ نرم پڑ کے اپنی
ذیادتی کا ازالا کرنی لگی،،،
اس نے آرام سے نرم لہجے میں کہا،،،نہیں سلمان ایسا نہیں ہے ،،مگراس میں کچھ
تو سچ ہے،،،
سلمان نے کمزور سے لہجے میں کہا،،،مجھے لوگ سمجھ کیوں نہیں پاتے،،،میری بات
کا،،،
میری نیت کا،،،میرے کام کے انداز کا ہمیشہ غلط مطلب ہی کیوں لیتے ہیں،،،ندا
نے بیچ میں ٹوک دیا،،
اس لیے کہ‘‘،،جن کی زندگی کے فیصلے کرنے کا اختیار تمہیں نہیں،،،وہ کیوں
استعمال کرتے ہو،،،
ان سے پوچھتے کیوں نہیں،،،کہ وہ لوگ خود کیا چاہتے ہیں،،،ہر معاملے میں خود
کو دودھ میں سے،،
مکھی کی طرح باہر نکال لیتے ہو،،،کسی کی نہیں سنتے تو کم سے کم ان کے دل کی
ہی،،،
سن لیا کرو،،،بس ان کے ابو امی کی ہی سنتے ہو،،،یا خود کو بادشاہ سلامت
سمجھتے ہو،،،
دربار میں جو بھی فریادی آیا،،،بس اس کی ہی سنتے ہو،،،بس باقی سب جائیں
بھاڑ میں،،،
بادشاہ سلامت نے انصاف کردیا،،،انار کلی جائے دیوار میں،،،سلمان کو ہنسی
آگئی،،،
ہنس کے بولا،،،تم اپنی چائے جیسی اچھی باتیں کرتی ہو،،،میں اور
بادشاہ،،،میں کہاں سے بادشاہ،،،
لگتا ہوں؟،،،ندا نے کہا،،،یہی تو سمجھا رہی ہوں سلمان صاحب،،،آپ بادشاہ
سلامت نہیں ہو،،،
مگر یہ بات ہے،،،کوئی دل ایسا بھی ہے ،،،جہاں صرف تمہاری حکمرانی ہے،،،تم
وہاں کے،،،
اکلوتے بادشاہ ہو،،،سلمان کا چہرہ لال ہوگیا،،،ندا غصے سے بولی،،،اب شرمانے
کی ایکٹنگ نہ کرنا،،،
ویسے چائے اور میری باتوں کی تعریف کا شکریہ(جاری)
|