’’تذکرۂ خطاطین ‘‘محقق جناب محمد راشد شیخ کی تصنیف ہے
جس میں انھوں نے اسلامی دنیا سے بیس خطاطوں کے حالاتِ زندگی اور ان کی
خطاطی کے نمونے اکٹھے کیے ہیں ۔خطاطی کی تاریخ اور نمونوں پر اس سے مستند
کتاب اس سے پہلے نہیں لکھی گئی ۔اس فن پر انھوں نے جس انداز سے تحقیق کی ہے
اس کا اندازہ آپ کو کتابیات سے ہو جائے گا ۔بنیادی ماخذ میں اردو ،عربی ،فارسی
اور ترکی کی پچاس کتب ،انگریزی سے ترکی اور ترکی سے انگریزی کی ۲۹ کتب ،ضمنی
ماخذ میں ۳۴ کتب ،مضامین اور مقالات شامل ہیں ۔جب کہ مزید مطالعے کے لیے
انگریزی ،اردو اور عربی کی ۷۷ کتب ،مضامین اور مقالات شامل کیے گئے ہیں ۔
مقدمے میں جناب محمد راشد شیخ کا اظہار ہے کہ اب تک ہماری جامعات میں فنِ
خطاطی کو تحقیق کے موضوعات میں شامل نہیں کیا گیا ۔صرف جامعہ پنجاب میں اس
فن پر پی ایچ ڈی کا ایک مقالہ پیش کیا گیاہے ۔جب کہ ایران ،ترکی اور عالم
عرب کی جامعات میں اس فن کی تاریخ اور دیگر پہلوؤں پر برابر تحقیق جاری ہے
۔تاہم شیخ صاحب کا یہ کام جامعات میں ہونے والی سندی تحقیق سے کئی گنا
زیادہ معیاری ہے ۔کیوں کہ انھوں نے اسے کسی سندی تحقیق کے لیے نہیں لکھا ۔ویسے
بھی جامعات میں سندی تحقیق کا معیار شیخ صاحب کے کام کے معیار کا عشر عشیر
بھی نہیں ۔بلکہ کچھ برس بعد شیخ صاحب کی اس کتاب پر پی ایچ ڈی کی سطح پر
کام ہو جائے گا۔
محمد راشد ایک یکسو قسم کے محقق ہیں ۔ وہ پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں
اور عید گاہ مسجد مظفرآباد سے لے کر جامع مسجد ڈڈیال مانسہرہ ،بہاول پور سے
کراچی :مختلف منصوبوں پر کام کر چکے ہیں ۔ان کی اس بات سے دکھ ہوا کہ اگست
میں تین روزہ خطاطی کانفرنس کے لیے پہلے ان سے رابطہ کیا گیا کہ آپ کو
کانفرنس میں شرکت کرنی ہے ۔اس لیے خطاطی پر ایک مقالہ بھی تیار کریں ۔نیز
آپ کی کتاب کو خطاطی کی نمایش کا حصہ بھی بنایا جائے گا۔جس کے بعد انھوں نے
مقالے کی تیاری کی۔ جب کانفرنس کا وقت قریب آیا اور ذمہ داران سے رابطہ کیا
گیا تو ان کے نمبر بند ملے یا خاموش ۔
اس ملک میں خاموشی سے کام کرنے والوں کی قدر ویسے بھی ان کے مرنے کے بعد
ہوتی ہے ۔زمانہ شیخ صاحب کو یاد کرے گا لیکن ان کے جانے کے بعد ۔تاہم اس
طرح کی کانفرنسوں کے ذریعے کچھ مخصوص افراد رقومات ٹھکانے ضرور لگاتے ہیں ۔ایک
مخصوص گروہ دوسرے کو نوازتا ہے ۔آپ کو وہی چہرے کراچی سے مظفرآباد اور
اسلام آباد سے کوئٹہ ملیں گے ۔فنون لطیفہ میں جو بھی ہے اس کے ساتھ اچھا
سلوک نہیں کیا جا رہا ۔ایک مصنوعی کلچر ہے جو پورے ملک پر چھایا ہوا ہے ۔ہر
بڑے فنکار کا یہی مسئلہ ہے ۔
’’تذکرۂ خطاطین‘‘ بیسویں اور اکیسویں صدی کے خطاطوں کا تذکرہ ہے ۔فن خطاطی
ہماری اسلامی تہذیب و ثقافت کا جزولاینفک ہے ۔ اس فن کا تعلق قرآن سے ہے
۔اور بنیادی تعلق قلم سے ہے جس کی حرمت کی قسم اﷲ نے خود کھائی ہے ۔اس کا
آغاز حضور ؐ کے دور سے ہوا ۔وحی صحابہ کرام یاد کرتے اور کچھ کاتبین وحی
اسے لکھ لیتے ۔بعثت نبویؐ میں مکہ مکرمہ میں خط قیراموز رائج تھا ۔اس لیے
مکی صورتوں کی کتابت اسی خط میں کی گئی ۔مدینہ منورہ میں خط حیری رائج تھا
اور ہجرت کے بعد کلام الہٰی اسی خط میں لکھا گیا ۔آغاز میں عربی خط سپاٹ
اور کھردرا تھا ۔یعنی غیر منقوطہ اور اعراب سے آزاد تھا ۔یہ مسلمانوں کا اس
فن سے شغف تھا کہ انھوں نے اس میں کمال اصلاحات کیں ۔یہ فن ارتقائی منازل
طے کرتا رہا ۔عہد بنو امیہ اور بنو عباس میں اس نے خوب ترقی کی ۔اس عہد کے
نامور خطاطوں میں ابن مقلہ اور ابن البواب شامل ہیں ۔اس دور میں چھ نئے خط:
ثلث ،نسخ ،توقیع،رقاع ،محقق اور ریحان ایجاد ہوئے ۔اس فن کو ترکوں نے بامِ
عروج دیا ۔
سلطان محمد فاتح کی فتح استنبول کے بعد استنبول فنِ خطاطی کا مرکز بن گیا
اور یہ بات بالکل درست کہی گئی کہ قرآن مجید مکہ میں نازل ہوا ،مصر میں
پڑھا گیا (فنِ قرات)اور استنبول میں خطابت کیاگیا ۔اتاترک کے دور میں رسم
الخط کی تبدیلی نے اسے نقصان پہنچایا ۔تاہم اس سے محبت کرنے والے اپنا کام
کرتے رہے ۔انھوں نے اپنی زندگیاں اس کے لیے وقف کر دیں۔ہندوستان میں فن
خطاطی کے تین بڑے دبستان سامنے آئے ۔جن میں لاہور ،دہلو ی اور لکھنوی شامل
ہیں ۔لکھنوی طرز کے سب سے بڑے استاد شمس الدین ایجاز رقم گزرے ہیں ۔دہلوی
طرز کے امام محمد یوسف دہلو ی تھے جن کی روش کو ان کے شاگرد عبدالمجید دہلو
ی نے تادمِ آخر جاری رکھا ۔لاہوری طرزِ نستعلیق کے موجود عبدالمجید پروین
رقم تھے جن کی روش کو قبول عام کا درجہ ملا ۔
قیام پاکستان کے بعد جن حضرات نے معیاری کام پیش کیے ان میں حافظ یوسف
اورسید نفیس الحسینی شامل ہیں،ان حضرات کا کام خطِ نستعلیق میں تھا۔جناب
راشد شیخ کے مطابق عہدِ جدید میں مغربی فنون نے اس فن کو نقصان پہنچایا ہے
۔اسلامی ورثہ کے تحفظ کے لیے استنبول میں قائم عالمی کمیشن کے تحت اب تک چھ
عالمی مقابلہ ہائے خطاطی منعقد ہو چکے ہیں ۔اس کے بعد پاکستان میں بھی فنِ
خطاطی کے تحفظ اور فروغ کے لیے عدالتی سطح پر کام کا آغاز ہوا ۔ان اداروں
میں اہم ترین پاکستان کیلی گراف آرٹسٹس گلڈ ہے۔اردو میں اس فن پر معیاری
کتب انگلیوں پر گنی جا سکتی ہیں ۔تاہم اﷲ کی کتاب جب تک موجود ہے ۔یہ فن
متروک نہیں ہو سکتا ۔
شیخ صاحب نے فنِ خطاطی اور فنِ کتابت کے فرق کو بھی واضح کیا ہے ۔ان کے
نزدیک یہ الگ الگ فن ہیں ۔کمپیوٹر کتابت کے آغاز کے بعد کتابت کا زمانہ گزر
چکا لیکن خطاطی بہ طور فن زندہ ہے ۔’’تذکرۂ خطاطین ‘‘کی اشاعت اول ۱۹۹۸ء
میں ہوئی اور میرے سامنے اس کی اشاعت ثانی ۲۰۰۹ء ہے ۔کتاب میں ترکی سے سامی
آفندی ،احمد کامل آفندی ،شیخ عبدالعزیز الرقائی ،اسماعیل حقی آفندی ،حامد
الآمدی ،حسن چلپی اور داؤد بیکتاش شامل ہیں ۔ایران سے مرزا محمد حسین سیفی
عماد الکتاب اور غلام حسین امیر خانی ،مصر سے سید ابراہیم اورمحمد
عبدالقادر عبداﷲ ،ہندوستان سے محمد خلیق ٹونکی ،لبنان سے کامل البابا،عراق
سے ہاشم محمد بغدادی جب کہ پاکستان سے محمد یوسف دہلوی ،عبدالمجید پرویں
رقم ،عبدالمجید دھلوی ،حافظ محمد یوسف سندہلی ،سید نفیس الحسینی اور شفیق
الزماں خان شامل ہیں ۔
مظفرآباد میں کتابت کا فن مر رہا ہے ۔وزیراعظم سیکرٹریٹ ،صدارتی سیکرٹریٹ
،محکمہ مالیات اور اسمبلی سیکرٹریٹ وغیرہ کے کاتب جب ریٹائر ہو جائیں گے تو
ایسا لگتا ہے کہ حکمران ان اسامیوں پر پابندی عائد کر دیں گے ۔یہ سب
کمپیوٹر کتابت کا کمال ہے ۔تاہم اردو کی اچھی لکھائی کے لیے ضرورت اس امر
کی ہے کہ سکولوں میں یہ فن سکھانے کے لیے حکومت کاتبوں کی خدمات اور فن سے
استفادہ کرے ۔ورنہ وہ وقت دور نہیں جب بچے اردو رسم الخط اور اردو لکھائی
کو بھول جائیں گے ۔اداروں کو آگے آنا ہو گا اور حکومت کو نجی شعبے کے ساتھ
مل کر اس فن اور اس کے ماہرین کو وہ عزت دینا ہو گی جو ان کا استحقاق ہے ۔
جناب راشد شیخ علم کے خزانے ،تحقیق کے خوگروں کے لیے کھولتے رہیں گے ۔وہ
آتش زیرِ پا قسم کے محقق ہیں اور صلے کی تمنا اور ستایش کی خواہش نہیں
رکھتے ۔شاید ایسے ہی محقق اس ملک میں تحقیق کے چراغ روشن کر سکتے ہیں ۔ورنہ
یہ دور تو کاٹو (cut)،نقل کرو(copy)اور چپکا دو(paste)کا ہے ۔سکولوں سے
کالج ،کالجوں سے جامعات ،اخبارات سے رسائل ،رسائل سے تحقیقی جرائد اور سوشل
میڈیا تک سب یہی کچھ کیے جا رہے ہیں۔
شیخ صاحب نے فنِ خطاطی کی اصطلاحات اور ان کی شرح بھی لکھی ہے جو بہت دلچسپ
اور سلیس ہے۔اس کتاب کی ایک اور خوب صورتی اس کے حواشی ہیں ۔اور سب سے بڑی
خوب صورتی وہ خط ہیں جو خوب صورت رنگوں میں شامل کیے گئے ہیں ۔ہر خطاط کے
ساتھ اس کے حالات زندگی ،وہ خط جس میں اس نے کام کیا اور اس کے نمونے شامل
کیے گئے ہیں ۔حاشیے میں کتاب ،مضمون اور مقالے کا حوالہ درج ہے ۔۷۵ صفحات
صرف خطاطی کے نمونوں کے لیے الگ سے ہیں ۔خطاطوں کے حالات زندگی میں بھی ان
کے ان خطوط کے نمونے شامل ہیں جن میں انھوں نے کام کیا ہے ۔کتاب کوپورب
اکادمی اسلام آباد نے زیور طبع سے آراستہ کیا ہے ۔کتاب کے ۳۳۲ رنگین صفحات
ہیں اور قیمت ۱۵۰۰ روپے ہے ۔اس کتاب کو ہر کتب خانے کی زینت بننا چاہیے
۔کتاب میں خطوط اور آرا بھی شامل کی گئی ہیں ۔مشفق خواجا کی مستند رائے پر
اختتام کر رہا ہوں ۔
’محمد راشد شیخ خطاطی کے فن اور تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔انھوں نے اس
دشت بلکہ جنت نگاہ کی سیاہی میں ایک عمر بسر کی ہے۔انھوں نے خطاطوں اور ان
کے فن کے بارے میں جو معلومات فراہم کی ہیں ،وہ کس حد تک مستند ہیں اس کا
اندازہ کتابیات سے کیا جا سکتا ہے۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موضوع کی شاید
ہی کوئی کتاب ہو جو ان کی نظر سے نہ گزری ہو ۔ انھوں نے علمی تحقیق کے ساتھ
ساتھ عملی تگ و دو بھی کی ہے ۔خطاطی کے نمونے اور خطاطوں کے حالات حاصل
کرنے کے لیے انھوں نے جو صعوبتیں برداشت کی ہیں ان کی مثالیں پرانے زمانے
میں ملیں تو ملیں، موجودہ زمانے میں ناپید ہیں ۔یہ کتاب نہیں عشق و جنوں
اور محنت و مشق کے سفر کا حاصل ہے ۔کتا ب کی معنوی اورصوری خوبیاں مصنف کے
ذوقِ علمی اور ذوقِ جمال کی آئینہ دار ہیں‘ ۔ |