دور جدید میں جہاں آئے روز نت نئے علوم دریافت ہوتے جارہے
ہیں وہی پر قدیم علوم کو بھی نئے انداز میں پیش کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے
’سپیشلائزیشن‘ کا تصور ابھر کر سامنے آرہا ہے ماضی قریب میں بھی ایسے
حادثات رونماہوئے ہیں کہ لوگوں سے پوچھا گیا کہ آپ کس شعبے کو ترجیح دیں گے
؟ان کے جواب کے مطابق ہی ان کو سرکاری ملازمت عطا کی گئی ۔ محکمہ تعلیم
گلگت بلتستان میں بھی ایسے ہوائی باتیں سامنے آتی رہتی ہیں کہ بعض
افرادماضی میں صرف انتخاب کی بنیادپر اساتذہ میں شامل ہوگئے یہاں ماضی سے
مراد حکومتی نہیں بلکہ تاریخی ہے ۔ اس کی ایک وجہ افرادی قوت کی کمی اور
مقابلے کا رجحان نہ ہونا تھا جس کی وجہ سے من پسند شعبوں کے انتخاب پر اس
کے ماہرین بن گئے لیکن بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف افرادی قوت میں اضافہ
ہوتا گیا بلکہ مقابلے کا رجحان بھی بڑھتا جارہا ہے موجودہ وقت میں اگرکسی
سرکاری محکمے میں کوئی آسامی مشتہر ہو تو ہزاروں امیدوار مطلوبہ معیار سے
بھی بڑی ڈگریاں لیکر پہنچ جاتے ہیں ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے
اثرات اور معلومات کے تیزی سے بہاؤ کی وجہ سے اب ہر ایک شعبہ درجنوں مزید
شاخوں میں تقسیم ہوکر خود ایک شعبہ کی شکل اختیارکرچکا ہے۔ ماضی میں صحافت
صرف ایک شعبہ ہوا کرتا تھا اب کالم نگاری الگ،فلم سازی الگ،کیمرہ ،کمپیوٹر
،رپورٹنگ، آن لائن صحافت، سمیت کئی دیگر شاخوں میں تقسیم ہوگیا ہے جس کی
وجہ سے نہ صرف سپیشلائزیشن کا تصور سامنے آیا بلکہ ہر بندے کو اپنے شعبے کے
انتخاب کے لئے درجنوں شعبے سامنے آرہے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ہی وجہ
سے ایسے قدیم و جدید علوم بھی الگ سے مرتب ہورہے ہیں جن کا بلاواسطہ تعلق
انسان سے ہے جیسے سٹریس منیجمنٹ(دباؤ کو۔۔۔ّ)، ٹائم منیجمنٹ، سٹریٹیجیک
ویژن سمیت کئی دیگر علوم ہیں جن کے جاننے اور ان کو روز مرہ زندگی میں
استعمال میں لانے سے انسان اپنے معاملات باآسانی حل کرپاتا ہے ۔
انگریزی ادب کی معروف شخصیت ہیلن کیلر جو کئی مضامین کی مصنف تھی اور خود
بینائی سے محروم تھی لکھتی ہے کہ ’یہ ایک خوفناک بات ہے کہ بندہ دیکھ تو
سکے لیکن ویژن نہیں ہو‘ ’’سٹریٹیجیک ویژن‘‘کو آسان الفاظ میں سمجھنے کے لئے
یوں کہا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی آفت،حادثہ ،مصیبت یا نئے موڑ سامنے آنے سے
قبل اس کی مکمل اور بھرپور تیاری کرنا۔ عام انسان او ر تیسری دنیا کے لوگ
عموماً موقع کی بنیاد پر اپنی زندگی ترتیب دے پاتے ہیں انہیں معلوم ہی نہیں
ہوتا کہ ان کی اپنی زندگی کی کتنی اہمیت ہے یا پھر ان کی زندگی کا کیا مقصد
ہے ۔معاشرے میں ایسے افراد سینکڑوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں جن کے اولاد
جوان ہوکر سرکاری ملازمت کے لئے عمر کی بالائی حد بھی عبور کرتے ہیں لیکن
والدین کو اس بات کی خبر تک نہیں ہوتی کہ ان کے اولاد کی بہتری کے لئے کن
اصولوں کو سامنے رکھ کر یہاں تک لایا جاتا ہے ۔جب سر سے پانی گزر جائے تو
اس وقت دماغ میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ ان کی تربیت ضروری ہے ۔ ایسے
افرادبھی تعلیم یافتہ طبقوں میں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں جو اس خصوصیت
سے محروم ہوکر ڈگری کسی اور شعبے میں مکمل کرتے ہیں اورملازمت یا کاروبار
کسی اور شعبے میں اختیار کرتے ہیں۔اب ایسی صورتحال سوائے پریشانی کے کچھ
نہیں ہوتی۔
’’سٹریٹیجیک ویژن‘‘کے اس موضوع پر گلگت کے مقامی ہوٹل میں تین روزہ ورکشاپ
کا انعقاد کیا گیا جس کا اہتمام بین الاقوامی کمپنی ’ٹائم لینڈرز ‘نے کیا
تھا جبکہ گلگت میں جامعہ نصرت الاسلام اس کے معاون تھی اس ورکشاپ میں ٹائم
لینڈرز کے کوآرڈینیٹر سلیمان احمر نے موضوع پر نہ صرف مفصل لیکچرز دیا بلکہ
شرکاء کے مابین مختلف ایکٹیویٹیز بھی کرائے گئے مثلاً ہر بندہ آج سے 20 سال
بعد خود کو کس مقام پر دیکھنا چاہتا ہے ؟ آج سے 20سال بعد وہ کیسی صحت کا
طالب ہے ؟آپ کی زندگی میں کونسے ایسے کردار ہیں جو آپ کے بنیادی اور اولین
ہیں اور کونسے کردار آپ نبھارہے ہیں جو ثانوی ہیں؟ان کرداروں کو نبھانے اور
ان مقاصد کے حصول کے لئے کیا لائحہ عمل اپنایا گیا ہے ؟اس کے علاوہ
پریزنٹیشن کے زریعے مختلف مثالیں سامنے لاتے رہے جو اس بات کا ثبوت تھے کہ
اگر قبل از وقت تیاری نہ کرنے کی وجہ سے ہم اکثر دھوکہ کھاجاتے ہیں یا پھر
نقصان۔ جیسے ہمارا عام معمول ہے کہ کوئی مشکل راہ میں پڑجائے گی تو دیکھا
جائیگا ؟ جبکہ ضرورت تو یہ ہے کہ ہم ہر قدم کی ترتیب گھر سے نکلتے ہوئے
پہلے سے دیں۔
بقول شاعر
یہ جہاں ہے دوستوں کو آئیگا ،کوئی جائیگا
کوئی کچھ فرمائے گا کوئی کچھ فرمائے گا
ازل سے تاج یہ روش رہی ہے اپنی
جب خد ا کا سامنا ہوگا تو دیکھا جائیگا
اس ورکشاپ میں چند چیزیں راقم کے لئے دلچسپ تھی اول یہ کہ پہلی بار کسی بھی
سطح پر جدید علوم سے وابسطہ ایسے ورکشاپ کو منعقد کرانے کی نگرانی ایک
مدرسہ یعنی جامعہ نصرت الاسلام کی تھی ۔ مولانا قاضی نثار احمد، مولانا
عبدالسمیع(جماعت اسلامی)، ڈاکٹر جلیل احمد(سابق سیکریٹری)،جمشید خان
دکھی،عبدالحفیظ شاکر،میر بہادر،مولانا مقصود احمد ،عبدالعلیم، منہاج
الدین،یونس خان (محکمہ تعلیم)، فیض اﷲ فراق(ترجمان صوبائی حکومت جو صرف
اختتامی تقریب میں شریک ہوئے تھے ) محمد عیسیٰ حلیم،سمیت بڑی تعداد میں
شرکاء جو معمول میں بہت مصروف زندگی گزارتے ہیں لیکن اس پروگرام کی نوعیت
اور سنجیدگی کو محسوس کرتے ہوئے تین رو ز تک پروگرام میں شریک رہے ۔ ٹائم
لینڈرز کے کو آرڈینیٹر سلیمان احمر تین روز تک خود ہی تمام موضوعات پر
لیکچر دیتے رہے ان کے قوت گویائی کا شرکاء داد دیتے رہے ۔دینی مدارس سے
وابسطہ زہنوں ایسی باتیں اتارنا کوئی آسان بات نہیں لیکن سلیمان احمر صاحب
قرآن و احادیث اور اسلاف کے معمول کی مثالوں کو اپنے انداز سے پیش کرکے اس
بات کو آسان کرگئے ۔ ایک موقع ایسا آیا کہ مثال سے بات بڑھاتے ہوئے چاند تک
پہنچنے کے لئے کیا لائحہ عمل اپنا یا گیا ہوگا؟ کا سوال سامنے آیا جس کو
شرکاء مجلس میں سے ایک معزز شخصیت نے چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ بات
ماننے کے لئے تیا ر ہی نہیں ہوں کہ کوئی چاند پر پہنچ گیا ہو اتفاق سے صاحب
دینی مدرسے کا طالبعلم نہیں بلکہ ایک سابق بیوروکریٹ تھے ۔اس سب کے باوجود
سلیمان احمر صاحب ورکشاپ کے اختتام تک تمام شرکاء کو یہ بات سمجھانے میں
کامیاب ہوگئے کہ واقعی زندگی ایک انمول تحفہ ہے جس کے لمحے لمحے کے قد ر کی
ضرورت ہے ۔ سٹریٹیجک ویژن ایسی دوراندیشی کا نام ہے کہ بندے کو شادی سے قبل
اولاد کی ہی نہیں بلکہ پوتوں کی فکر زہن میں رکھنی چاہئے جس کے لئے 40 سالہ
پلان اور ہر سال ، ہر مہینے کا باقاعدہ شیڈول ترتیب دینے کی ضرورت ہے ۔واضح
رہے کہ ٹائم لینڈرز ایسے پروگرامات اکثر دبئی اور دیگر مقامات پر منعقد
کراتے ہیں جس کی رجسٹریشن کی بھی بھاری فیس ہے لیکن قاضی نثار احمد صاحب کے
درخواست پر انہوں نے بغیر فیس کی ورکشاپ کا انعقاد کرایا ۔
اس ورکشاپ کی اختتامی تقریب میں شعراء نے خوب طبع آزمائی کی او ر ایک دوست
یہاں تک کہہ گئے کہ سٹریٹیجک ویژن کی مجلس حلقہ ارباب زوق کی مجلس میں
تبدیل ہوگئی ہے جبکہ پروگرام قاضی نثار احمد صاحب کے پرمغز خطاب اور دعا کے
ساتھ اختتام پذیر ہوا۔سلیمان احمر صاحب نے آئندہ ہر سال گلگت میں ورکشاپ
منعقد کرانے کا بھی اعلان کیا ۔قاضی نثار احمد صاحب کی اس کاوش کو بالمشافہ
بھی سراہا اور بالقلم بھی سراہاجانے کے قابل ہے ۔اس مثبت قدم کے سٹریٹیجک
ویژن اثرات بہت مفید نظر آرہے ہیں- |