جانثاروں کے نام

6 ستمبر1965ء کی صبح فجر کی اذان دینے کے لئے برکی کے سرحدی نواحی گاؤں ’’ہزیارہ‘‘ کے موذن نے دوران وضو خلاف معمول گاڑیوں کے چلنے کی آوازیں سنیں تو سوچ میں پڑگیا تاہم ان آوازوں کووسوسہ سمجھ کر نظر انداز کرکے وضو سے فارغ ہوکراذان کے لئے جیسے ہی مخصوص مقام کی طرف پہنچاتواچانک مسجد کے صحن میں بھاری بوٹوں اور’’ہینڈز اپ‘‘کی آوازیں سنی۔موذن ایک بار پھر حیران ہوکر یہ کون بہروپئے فوجی وردی میں ملبوس ہیں اوراذان سے روک رہے ہیں۔موذن نے ان کی بات سنی اَن سنی کرکے اذان دینا شروع کی۔موذن کی زبان سے جیسے ہی اﷲ تبارک و تعالیٰ کی عظمت ’’اﷲ اکبر‘‘کی آواز نکلی ہی تھی کہ بھارتی فوجی درندون نے گولی چلادی اور موذن موقع پر ہی شہید ہوگئے یہ 1965ء کی جنگ کے پہلے شہیدتھے جن کی شہادت نے بھارت کی تباہی اور بد ترین شکست کی بنیاد رکھی۔پاکستانی فوج نے رات کی تاریکی میں سرحدی خلاف ورزی کرنے والے بزدل بھارتی فوجیوں کو ایسا سبق سکھایا کہ انہیں چھٹی کا دودھ یاددلادیابھارتی افواج کی بذدلی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح دنیا بھر میں پھیل گئی اور یوں بھارتی فوج کی رسوائی کے باب میں ایک نیا اضافہ ہوگیا۔خواتین جو بھارتی حملے کے وقت فجر کی نماز اور ناشتے کی تیاری میں مصروف تھیں یہ مائیں بہنیں فوراًگھرمیں تیارکھانے ودیگر اشیاء لیکر سڑکوں پروطن کے محافظوں کوپیش کرنے کیلئے آگئیں۔ دوسری جانب مرد ،خواتین ،بوڑھے اوربچے لاٹھیاں،کلہاڑیاں اور ڈنڈے لیکربھارتی درندوں کوشکست دینے کیلئے سڑکوں پر آ گئے بلکہ اسی یوں کہیں کہ بھارتیوں کے حملے کے بعد’’قوم کے جذبات بھڑک اٹھے‘‘۔ ریڈیو پاکستان ملی نغموں سے گونج رہا تھا ہر طرف اﷲ اکبر پاکستان کا مطلب کیالا الہ الا اﷲ کے فلگ شگاف نعرے گونجنے لگے قوم کے سالار اعظم کا پیغام کیاسناکہ شہریوں کے جسموں میں بجلی سی گوندگئی، جوانوں نے بیلچے اٹھائے شہر اور دیہاتوں کے اطراف میں خندقیں کھود ڈالیں، جوانوں کی ایک بڑی تعداد نے بلیک آؤٹ کے دوران اپنے اپنے علاقوں میں محافظت کے فرائض سر انجام دیئے قوم جب فوج کی پشت پر کھڑی ہوئی تو انہوں نے بھی بہادری کی وہ عظیم مثال قائم کی کہ دنیا دنگ رہ گئی۔جوانوں نے نہ صرف بھارتی درندوں کی لاہور جیم خانہ میں فتح کے جشن کی ناپاک خواب کوچکناچورکردیا۔قوم کے ہر فرد کے طرح ملی جذبے سے سرشارگلوکاروں نے بھی وطن کی حفاظت میں مصروف فوجی جوانوں کی ہمت بڑھانے کیلئے شہرہ آفاق ملی نغمے لگائے جن میں ملکہ ترنم نورجہاں نے ’’اے پتر ہٹاں تے نئی وکدے‘‘۔’’اے وطن کے سجیلے جوانوں‘‘۔’’میرے ڈھول سپاہیا‘‘ شہنشاہ غزل مہدی حسن نے ’’اپنی جاں نذر کروں‘‘۔ گلوکارہ نسیم بیگم نے ’’اے راہ حق کے شہیدو‘‘۔ استاد امانت علی خاں نے ’’اے وطن پیارے وطن‘‘۔’’چاند میری زمیں ،پھول میرا وطن‘‘۔ لوک گلوکارہ تاج ملتانی نے ’’ جنگ کھیڈنہیں ہوندی زنانیاں دی‘‘ جبکہ ’’جاگ اٹھاہے سارا وطن‘‘ کئی معروف گلوکاروں نے گایا۔ جنگ میں فضائیہ کے شہہ سوار اور قومی ہیرو ایم ایم عالم نے صرف ایک منٹ میں پانچ بھارتی طیاروں کوزمین بوس کرکے فضائی کی تاریخ کاعظیم اوربے مثال کارنامہ انجام دیاایم ایم عالم کا یہ ورلڈریکارڈتاریخ کے پنوں پرہمیشہ رقم رہے گا۔ بھارت نے اسی روز سرگودھا ائیر بیس پر59 حملے کئے مگر بفضل خدا کسی بھی ایک طیارے کو نقصان نہیں پہنچا جبکہ قومی شاہینوں نے بھارتی فضائی اڈوں پٹھان کوٹ، جام نگر،ہلواڑا، انبالہ اور دیگر ہوائی اڈوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ ایک قومی ہیرو کے جہاز میں ایندھن ختم ہوگیا جو کہ پٹھان کوٹ میں مصروف تھا انہوں نے واپسی کی رسک کے بجائے اپنے جہاز کو بھارتی جہازوں سے ٹکرا کر انہیں جہنم واصل اور خود جام شہادت نوش کی۔ بری فوج نے چونڈہ کے محاذ پر بھارت کے650 ٹینکوں کو تہس نہس کرکے تاریخ میں وہ انمٹ نقوش چھوڑے کہ دنیا آج بھی انہیں سنہرے حروف سے یاد کرتی ہے۔ بحریہ نے بھی وہ کارنامے سر انجام دیئے کہ بھارتی بحری جہازچلانے کی تکنیک ہی بھول گئے بھارتی نیتاؤں نے جب اپنے سورماؤں کی بدترین شکست کا عملی مظاہرہ دیکھا تو زور زور سے ’’مہاراج شانتی مہاراج شانتی‘‘ کی صدائیں بلند کرنا شروع کردی اس یوم فتح کے دن اگر میجر ضیاء الدین عباسی کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ شہید کے خون کے ساتھ بددیانتی ہوگی جنہوں نے چونڈو کے محاذ پر اکیلے دم19بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بنا کر دشمن کو ششدر کردیا اور اپنی نئی نویلی دلہن کو خداحافظ کہہ کہ اپنی جان اس قوم پر نچھاور کردی۔ 1965ء کی جنگ پاکستان کی تاریخ کی وہ پُر عزم داستان ہے کہ جس کی یاد آج بھی نوجوان کا لہو گرما دیتی ہے ۔اس جنگ میں ملک وقوم کی حفاظت کیلئے اپنی جان نچھاورکرنے والے ’’جانثاروں‘‘ کوقوم سلام عقیدت پیش کرتی ہے۔ مملکت خداداد سرزمین کی طرف میلی آنکھ دیکھنے والے یاد رکھیں۔
’’جنگ کھیڈنئی ہوندی زنانیاں دیں‘‘

Kamran Chouhan
About the Author: Kamran Chouhan Read More Articles by Kamran Chouhan: 5 Articles with 4153 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.