ہم جس ملک میں بستے ہیں یہ خطہ انگریزوں کے دور میں غَلّے
کا گھر کہلاتا تھا۔ اور کیوں نہ کہلاتا، یہ خوب صورت خطہ پانچ دریاؤں کی
سرزمین پنجاب، اپنے زوردار دھاروں سے دھرتی کا شاداب کرتا شیر دریا کہلانے
والا دریائے سندھ اور اونچے پہاڑوں سے بہتے چشموں اور آبشاروں کا گہوارہ
تھا۔ دریاؤں، چشموں اور آبشاروں سے سیراب ہونے والی یہ سرزمین اپنے بیٹوں
اور بیٹیوں کے تن ڈھانپنے کے لیے کپاس دان کرتی تھی تو ان کی خوراک کے لیے
گندم، چاول، دیگر اناج، سبزیاں اور پھل کے تحفے وافر مقدار میں پیش کرتی
تھی، لیکن اب اس خطہ زمین پر آباد ملک جہاں اور شعبوں میں زبوں حالی کا
شکار ہے وہیں غذا کے معاملے میں بھی بدحال ہے اور ہم پاکستانی مصنوعات ہی
نہیں خوراک بھی باہر سے منگوانے پر مجبور کردیے گئے ہیں۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت و ٹیکسٹائل کی ذیلی کمیٹی کو بتایا
گیا ہے کہ گذشتہ مالی سال کے دوران 2ارب 10 کروڑ ڈالر کے غذائی اشیا درآمد
کی گئیں جن میں سے ایک ارب ڈالر کی دالیں برآمد کی گئی ہیں۔ یہ صورت حال
ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
وزارت تجارت کے حکام نے شازیہ مری کی زیرصدارت ذیلی کمیٹی برائے تجارت کو
بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ یورپی یونین کو مجموعی برآمدات کا حصہ 33فی صد
ہے مالی سال 2016 -2017 کے دوران یورپی یونین کو 6 ارب 2کروڑ ڈالر کی
برآمدات رہیں۔ ملکی درآمدات اور تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے اور برآمدات کم
ہورہی ہیں۔ یہ امر کس قدر افسوس ناک ہے کہ پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود
زرعی اجناس درآمد کر رہا ہے۔ ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ18ویں آئینی ترمیم
کے بعد زراعت کا بیڑا غرق ہو گیا۔ بریفنگ کے موقع پر سیکریٹری تجارت یونس
ڈھاگہ نے کہا کہ ٹیکسٹائل مصنوعات میں کمی کی بڑی وجہ غیر ملکی خریداروں کی
پاکستان کے سفر پر پابندیاں ہیں، پاکستان آنے کے لیے غیرملکی خریداروں پر
ان کے ممالک نے سفری پابندی عائد کر رکھی ہیں۔ ظاہر ہے اس پابندی کی بنیادی
وجہ ہمارے ملک میں ہونے والی دہشت گردی ہے۔
ہمارا ملک غذائی قلت کے معاملے میں کن حالات سے دوچار ہے اور صورت حال کس
قدر خطرناک ہوچکی ہے، یہ بتانے کے لیے بس یہ حقیقت سامنے لانا کافی ہوگی کہ
پاکستان میں بچوں کی اموات کا ایک اہم سبب غذا کی شدید کمی ہے، جس کے باعث
پاکستان میں بچوں کی اموات کی شرح 35 فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ بچوں کی غذا کے
حوالے سے کام کرنے والی ایک تنظیم کے مطابق ایک سروے کے دوران چھوٹے بچوں
کی اموات کے بارے میں ان کے والدین نے بتایا کہ اس کی بنیادی وجہ خوراک کی
کمی ہے۔
خوراک ہر جان دار کی بنیادی ضرورت ہے۔ مناسب، متوازن، صحت بخش اور معیاری
خوراک ہر عمر کے افراد کی صحت مند نشوونما اور بیماریوں سے تحفظ کے لیے
ناگزیر ہے۔ معیاری غذا انسان میں عزم و حوصلہ، قوت و توانائی اور حرکت و
امنگ پیدا کرتی ہے۔ ناقص، غیرمتوازن اور غذائیت سے عاری خوراک سے انسان
مختلف قسم کی بیماریوں، ذہنی و جسمانی معذوریوں اور ناامیدی و مایوسی کا
شکار ہوسکتا ہے۔ نسل انسانی کی بقاء و تسلسل اور پیداواری سرگرمیوں کے لیے
صحت مند اور توانا افراد کی ضرورت ہوتی ہے، جو وہ صرف معیاری و متوازن
خوراک کے ذریعے پوری کرسکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں مناسب، متوازن، غذائیت سے
بھرپور اور معیاری خوراک سے کسی معاشرہ کی افرادی قوت اور مجموعی قوت کار
میں اضافہ ہوتا ہے جو پیداواری مقاصد اور سرگرمیوں کے لیے ناگزیر ہے۔
معیاری افرادی قوت میں کمی مجموعی استعداد کار اور قومی قوت عمل کو مضمحل
کردیتی ہے، جس کے نتیجے میں پیداواری سرگرمیاں ماند پڑجاتی ہیں۔ پیداواری
سرگرمیاں ماند پڑنے سے مجموعی قومی پیداوار متاثر ہوتی ہے جس سے قومی معیشت
پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ معاشی ابتری آگے چل کر پیداواری وسائل کی کمی،
غربت، بے روزگاری، مہنگائی، افراط زر اور اس کے نتیجے میں جہالت، باہمی
کشمکش، خانہ جنگی اور بد امنی کو جنم دیتی ہے۔ معاشی ابتری اور سماجی
بدامنی مل کر سیاسی عدم استحکام پیدا کرتے ہیں اور یوں گوناں گوں مسائل کا
شکار قوم مایوسی، ناامیدی، فکری انتشار اور داخلی عدم استحکام کا شکار ہوکر
قومی بقاء و سلامتی کے سنگین مسائل سے دوچار ہوجاتی ہے۔ معاشی ترقی اور
تحفظ خوراک ترقیاتی عمل میں ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہوتے ہیں۔ اس طرح
قومی تحفظ خوراک کا مسئلہ دراصل قومی سلامتی کا معاملہ قرار پاتا ہے۔
پاکستان کی آبادی اس وقت اکیس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ ہمارا ملک قیمتی قدرتی
وسائل کی دست یابی، شان دار نہری نظام، زرخیز زمین اور موسمی آب و ہوا کے
اعتبار سے دنیا کے بہترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ زرعی سائنس دانوں کی
تحقیقی کاوشوں اور مثبت حکومتی پالیسیوں کی بدولت پاکستان بیسویں صدی عیسوی
کی اسی کی دہائی کے شروع ہی میں خوردنی اجناس میں خود کفالت کی منزل حاصل
کرچکا تھا، لیکن بعد ازاں آبادی میں مسلسل اضافے، غیرقانونی تارکین وطن کی
آمد اور اشیائے خوراک خاص طور پر آٹے، گُڑ اور مویشیوں کی ہمسایہ ممالک کو
غیرقانونی اسمگلنگ، حکم رانوں کی زراعت کے حوالے سے ناقص پالیسیوں اور
بدعنوانی اور بدانتظامی کے باعث لہلہاتی فصلوں والا یہ دیس خوراک کی
ضروریات پوری کرنے کے لیے دوسروں کا محتاج ہوگیا ہے۔
پاکستان میں غذائی اشیاء کی صورت حال پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ
اپنے ستر سال کے سفر میں ہم نے پانا تو کیا تھا جو ہمیں میسر تھا اسے بھی
کھونے پر بضد ہیں۔ سائنس ٹیکنالوجی اور صنعت وتجارت میں ترقی کا خواب تو اب
تک خواب ہے، ہمارے حکم رانوں نے ایک زرعی ملک اور اناج کے گہوارے کو بھی
خوراک کے لیے ترستی بستی بنادیا ہے۔ خدا کے تحفے کی اس سے بڑھ کر ناقدری
اور کیا ہوگی۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو زراعت اور خوراک کے حالات سامنے
رکھتے ہوئے ان شعبوں کے حوالے سے موثر اور دوررس پالیسیاں بنانی ہوں گی،
ورنہ بڑھتی آبادی کے ساتھ خوراک کا بحران بڑھتا جائے گا اور اس کا نتیجہ
کیا نکل سکتا ہے اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ |