فہم قرآن ایمان اور اطاعت درسِ قرآن سورۂ تغابن۔۱ سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اﷲ علیہ

یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ o (التغابن ۶۴:۱) اللہ کی تسبیح کر رہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے، اور ہر وہ چیز جو زمین میں ہے، اُسی کی بادشاہی ہے اور اُسی کے لیے تعریف ہے، اور وہ ہرچیز پر قادر ہے۔

یہ سورۂ تغابن کی ابتدائی آیت ہے۔ سورۂ تغابن کے بارے میں اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا یہ مکّی ہے یا مدنی، لیکن مفسرین کی اکثریت اسی بات کی قائل ہے کہ یہ سورت مدنی ہے اور اس کے مضمون پر غور کرنے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مدنی زندگی کے ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی ہوگی۔ آگے چل کر آپ خود محسوس کریں گے کہ یہ مدینے کے ابتدائی دَور ہی سے تعلق رکھتی ہے۔

یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ،اللہ کی تسبیح کر رہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں ہے۔

کسی جگہ قرآنِ مجید میں سَبَّحَ لِلّٰہِ (اس نے اللہ کی تسبیح کی) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور کسی جگہ فرمایا گیا ہے کہ یُسَبِّحُ لِلّٰہِ (وہ تسبیح کرتا ہے اللہ کی)۔ عربی زبان میں مُضارع کا صیغہ حال اور مستقبل دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ان دونوں صیغوں کو ملایا جائے تویہ معنی سمجھ میں آتے ہیں کہ سَبَّحَ لِلّٰہِ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی رہی ہے ہر چیز جب سے وہ دنیا میں پائی جاتی ہے، اور یُسَبِّحُ لِلّٰہِ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی تسبیح کرتی ہے اور کرتی رہے گی ہر چیز جب تک کہ وہ دنیا موجود ہے۔ گویا جب تک یہ کائنات باقی ہے اس کی ہرچیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی رہے گی۔

تسبیح کے معنی یہ نہیں ہیں کہ کوئی شخص تسبیح ہاتھ میں لے کر اس کے دانے پھرا رہا ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہرچیز زبانِ حال سے بھی اور زبانِ قال سے بھی اس بات کو ظاہر کر رہی ہے کہ اُس چیز کا بنانے والا اور پیدا کرنے والا،اس کو رزق دینے والا اور اس کی پرورش کرنے والا، تمام عیوب اور نقائص اور کمزوریوں سے بالکل پاک ہے۔ وہ بے خطا ہے، بے عیب ہے اور کوئی کمزوری اس کے اندر نہیں ہے۔ کائنات کی ایک ایک چیز اس پر گواہی دے رہی ہے۔

لَہُ الْمُلْکٌ’’بادشاہی اس کی ہے‘‘، یعنی اس کائنات میں کوئی دوسرا صاحبِ اقتدار اور صاحبِ اختیار موجود نہیں ہے۔ کسی کے پاس اقتدار ہے تو وہ اس کا اپنا حاصل کیا ہوا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے۔ وہ اس وقت تک مقتدر ہے جب تک اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اقتدار اس کے پاس رہے۔ اسی طرح اگر کسی کے پاس کوئی طاقت ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہے، اس کی اپنی ذاتی طاقت نہیں ہے۔ ذاتی اقتدار اور ذاتی قوت و اختیار اللہ کے سوا پوری کائنات میں کسی اور کے پاس نہیں ہے، اکیلا وہی اس کا بادشاہ ہے۔

وَلَہُ الْحَمْدُ ’’اور اسی کے لیے حمد ہے‘‘۔ حمد کے معنی تعریف کے بھی ہیں اور شکر کے بھی۔ دوسرے الفاظ میں وہی تعریف کا مستحق ہے اور وہی شکر کا بھی مستحق ہے اور کسی دوسرے کے پاس ایسا کوئی کمال نہیں ہے جس کی بنا پر اس کی تعریف کی جائے۔ کسی کے پاس جو کچھ بھی کمال موجود ہے وہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے۔ جو کچھ بھی خوبی کسی کے اندر ہے وہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہے۔ تمام خوبیوں کا تنہا مالک وہی ہے۔ اسی وجہ سے وہی تعریف کا مستحق ہے اور کسی کے پاس کچھ نہیں ہے کہ کوئی نعمت وہ کسی کو دے سکے۔ اگر کوئی نعمت کسی کو دے رہا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے عطیے سے دے رہا ہے۔ اس وجہ سے شکریے کا مستحق بھی دراصل اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے۔

وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ’’اور وہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے‘‘، یعنی کائنات میں اُس کی قدرت غیرمحدود ہے۔ جو چیز وہ چاہے وہی ہوگی، اور جو چیز وہ نہ چاہے وہ نہیں ہوگی۔

ربِ کائنات کو ماننے اور نہ ماننے والے

ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ فَمِنْکُمْ کَافِرٌ وَّمِنْکُمْ مُؤْمِنٌ ط وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ (۲) وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا، پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن، اور اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے جو تم کرتے ہو۔

یہ دو فقرے ہیں، ایک یہ ہے کہ اس نے تم کو پیدا کیا ہے اور دوسرا فقرہ یہ ہے کہ کوئی تم میں سے کافر ہے اور کوئی مومن ہے۔ ان دونوں فقروں کے درمیان ایک بڑا وسیع مضمون ہے جو آدمی غور کرے تو اس کو سمجھ سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا خالق نہیں ہے، وہی ہے جس نے انسان کی تخلیق کی۔ انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے۔ یہ جسم اور اس کی قوتیں، اس کی قابلیت اور عقل و فکر اور دوسری تمام صلاحیتیں اور ساری خوبیاں اور قوتیں پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ انسان کو جو ذرائع بھی دنیا میں حاصل ہیں جن سے وہ کام کرتا ہے، وہ تمام چیزیں، یعنی ہوا اور پانی، گرمی اور سردی اور دوسری بے شمار چیزیں جو انسان کی زندگی کے لیے ضروری ہیں، اور وہ سارا سازوسامان جس کی بدولت آدمی دنیا میں زندگی بسر کرتا ہے، وہ سارے کا سارا اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا ہے۔ اگر کوئی شخص ان چیزوں پر غور کرے تو اس کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور دنیا میں اس کا مطیع و فرمان بردار بن کر رہے۔ باوجود اس کے کہ یہ حقیقت انسان کے سامنے واشگاف موجود ہے کہ اس کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ انسانوں کا ایک بڑا گروہ اس پر ایمان لاتا ہے اور ایک بڑا گروہ کفر کا رویّہ اختیار کرتا ہے۔

دوسری بات یہ فرمائی گئی ہے: وَّاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ’’ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس پر نگاہ رکھتا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ ایک ایک شخص کے متعلق یہ دیکھ رہا ہے کہ اپنے خالق کے ساتھ اس کا رویّہ کیا ہے۔ وہ ایک ایک شخص کو دیکھ رہا ہے کہ وہ اپنے خالق کی اطاعت کر رہا ہے یا اس سے منہ موڑ رہاہے۔ اپنے خالق ہی کو اپنا خالق اور اپنا فرماں روا اور حاکم مانتا ہے یا اس کو چھوڑ کر دوسروں کے آگے جھکتا ہے، دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے اور دوسروں کی اطاعت کررہا ہے، جب کہ اپنے خالق ہی کی طرف توجہ نہیں کرتا۔ اس طرح لوگوں کا یہ طرزِعمل اس کی نگاہ میں ہے کہ ایک گروہ وہ ہے جو اطاعت اور ایمان کی راہ اختیار کرتا ہے، جب کہ دوسرا گروہ اس سے منہ موڑ کر کفر کی راہ اختیار کرتا ہے۔

سب کو لوٹ کر اُسی کے حضور جانا ہے۔

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ وَصَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ وَاِِلَیْہِ الْمَصِیْرُ (۳) اسی نے زمین اور آسمانوں کو برحق پیدا کیا ہے، تمھاری صورت بنائی اور بڑی عمدہ بنائی، اور اسی کی طرف آخرکار تمھیں پلٹنا ہے۔

اس نے آسمانوں اور زمین کو بالحق پیدا کیا ہے۔ اُوپر کے فقرے کے بعد یہ بات فرمانے سے اللہ تعالیٰ کا مقصود یہ بات لوگوں کے ذہن نشین کرنا ہے کہ یہ کائنات باطل پر پیدا نہیں کی گئی بلکہ سراسر حق پر پیدا کی گئی ہے۔ نہ یہ کائنات کھیل کے طور پر پیدا کردی گئی ہے کہ کوئی بچہ ہے جس نے گھروندا بنایا، اس سے کھیلا اور کھیل کر اس کو ختم کر دیا۔ اس کائنات کی یہ حیثیت نہیں ہے۔

اس کائنات کو ایک حکیم نے بنایا ہے اور ایک مقصد کے لیے بنایا ہے۔ اس کا نظام سراسر حق پر قائم کیا گیا۔ اس کو باطل پر قائم نہیں کیا گیا۔ اس لیے اس کائنات میں رہتے ہوئے اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ ایک آدمی غلط روش پر چلے اور پھر اس کے بُرے نتائج سے بچ جائے۔ اس میں اس بات کا بھی کوئی امکان نہیں ہے کہ ایک آدمی صحیح رویّے پر چلے اور وہ اچھے نتائج سے محروم رہ جائے۔اس بنا پر اگر کوئی شخص اس کائنات میں رہتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی بخششوں اور انعامات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کفر کی روش اختیار کرے تو اس امر کا کوئی امکان نہیں ہے کہ وہ اس کے بُرے نتائج سے دوچار نہ ہو۔

یہ کائنات باطل پر نہیں بلکہ حق پر پیدا کی گئی ہے اور اگر کوئی شخص حق کے خلاف یہاں چلے تو لازماً ٹھوکر کھائے گا۔ آج نہیں تو کل کھائے گا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ حق کے خلاف چلنے والا آخرکار ٹھوکر نہ کھائے اور اس گڑھے میں نہ جاگرے جس سے پھر نکلنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اسی طرح جو شخص حق کے مطابق چلے، اس کے مطابق کام کرے وہ اگر کبھی ٹھوکر کھابھی جائے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ ہمیشہ ٹھوکر ہی کھاتارہے گا۔ اس لیے یہ طے ہے کہ اگر کوئی حق کے مطابق چلے گا تو لازماً اس کا انجام بہترین ہوگا۔ اس طرح اس فقرے کے اندر گویا کائنات کی پوری حقیقت آدمی کو سمجھا دی گئی ہے کہ یہ کائنات باطل پر نہیں بلکہ حق پر استوار کی گئی ہے۔

وَصَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ، اور تمھاری صورتیں بنائیں اور بہترین صورتیں بنائیں۔

صورت کا لفظ محض آدمی کے چہرے مُہرے کے لیے نہیں بولا گیا ہے بلکہ آدمی کی جو پوری بناوٹ ہے اس کا جو پورا جسم ہے، اس کے متعلق فرمایا گیا ہے۔ پھر محض اس کی ظاہری شکل اور بناوٹ ہی نہیں مراد بلکہ اس کے جسم میں جو صلاحیتیں اور قوتیں اور قابلیتیں رکھی گئی ہیں وہ سب اس تصویر کے مفہوم میں شامل ہیں۔ اس طرح ان الفاظ کے ذریعے یہ بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمھاری صورت گری کی ہے اور بہترین صورت گری کی ہے، یعنی تم کو ایک موزوں ترین جسم دیا گیا جس کے ساتھ تم اس دنیا میں کام کرنے کے قابل ہوئے ہو۔ ہر وہ کام جو انسان کے کرنے کا ہے! اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا کہ تمھیں، مثلاً چھپکلی کا جسم دے دیا جاتا اور اس کے اندر دماغ انسان کا رکھ دیا جاتا اور اس میں وہ صلاحیتیں پیدا کردی جاتیں جو انسان کے دماغ کی ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ چھپکلی کے جسم کے اندر رہ کر انسانی دماغ کام نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اگر کسی اور جانور یا حیوان کے جسم میں انسانی دماغ رکھ دیا جاتا تو اس دماغ کی قوتیں اور صلاحیتیں بروے کار نہ آسکتیں۔ چنانچہ دماغ کی صلاحیتوں کے لیے اس کے مطابق موزوں ترین جسم عطا کیا گیا۔ اس کو سروقد کھڑا کیا، اس کو چار ٹانگوں پر نہیں بلکہ دو ٹانگوں اور دو پاؤں پر چلنے کے قابل بنایا۔ اس کو دو ہاتھ دیے جو بہترین طریقے پر کام کرسکتے ہیں۔ دو پاؤں دیے جن پر سیدھے کھڑے ہوکر وہ دو ٹانگوں سے چل سکتا ہے۔ پھر اس کے اندر عقل اور فکر کی، تجربہ کرنے کی اور ان سے سیکھنے اور ترقی کرنے اور نئی نئی چیزیں ایجاد کرنے کی وہ مختلف صلاحیتیں عطا فرمائیں جو انسان ہونے کی حیثیت سے اس کو درکار تھیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ نظام جس کے اندر تم رہ رہے ہو یہ الل ٹپ نہیں بن گیا ہے۔ یہ تمھارے جسم اور ان کی قابلیتیں آپ سے آپ نہیں بن گئی ہیں بلکہ کوئی خدا ہے جس نے تم کو اس طرح سے ڈیزائن کیا، اس طرح کی قابلیتیں اور صلاحیتیں عطا کیں اور اس کائنات کے اندر تم کو پیدا کیا جو سراسر حق پر بنی ہوئی ہے۔

اس کے بعد جو مزید بات تم کو یاد رکھنا چاہیے وہ یہ ہے: وَاِِلَیْہِ الْمَصِیْرُ ’’اور آخرکار تمھیں لوٹ کر جانا اسی کے پاس ہے‘‘۔ ایسا نہیں ہے کہ تم اس دنیا میں آزاد چھوڑ دیے گئے ہو کہ شُتر بے مہار کی طرح پھرو، جہاں چاہو پھرو اور جس کھیت میں چاہو منہ مار دو اور جس طرح سے چاہو دنیا میں زندگی گزار کر ، مر کر مٹی ہوجاؤ اور کبھی کسی خدا کے سامنے جاکر تمھیں جواب دہی نہ کرنی ہو۔ جو قابلیتیں تم کو دی گئی تھیں اور جو اختیارات اور جو ذرائع و وسائل تم کو دیے گئے تھے ان کو تم نے کیسے استعمال کیا، ان کے بارے میں تم سے کوئی بازپُرس نہ ہو، ایسا نہیں ہوگا۔

ایک فقیر سے فقیر آدمی کو بھی اللہ تعالیٰ نے وہ ذرائع دیے ہیں جن کی قیمت کا آدمی اندازہ نہیں کرسکتا۔ ایک ایک چیز جو اس کو عطا کی گئی ہے، ساری کائنات اس کی قیمت نہیں بن سکتی۔ ایک آنکھ کی قیمت یہ پوری کائنات نہیں بن سکتی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے اندر ایک ایک آدمی کو جو اتنے ذرائع اور وسائل عطا کیے ہیں تو ایسا نہیں ہے کہ وہ ان سب کو مار کر مٹی میں ملا کر بس خاک و غبار بنا دے اور ان سے کبھی نہ پوچھے کہ یہ سب کچھ تمھیں دیا گیا تھا تم نے ان کا کیا استعمال کیا۔ اس لیے فرمایا کہ آخرکار تمھیں جانا اسی کے حضور ہے۔ گویا اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ہوگی جس میں انسانوں کے بارے میں ان کے اعمال کی بنیاد پر فیصلہ ہوناہے کہ کون جزا کا مستحق ٹھیرتا ہے اور کون سزا کا۔

خدائے علیم و خبیر

یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ ط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (۴) زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا اسے علم ہے جو کہ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو، سب اس کو معلوم ہے، اوروہ دلوں کا حال تک جانتا ہے۔

یعنی تم کسی بے خبر خدا کی خدائی میں نہیں رہتے ہو۔ وہ شہِ بے خبر نہیں ہے اور نہ وہ کوئی اندھا راجا ہے کہ جس کی نگری چوپٹ نگری ہو، جس میں تم جس طرح چاہو رہو۔ تم اس خدا کی سلطنت میں رہتے ہو جو تمھاری ایک ایک چیز سے باخبر ہے۔ ایک ایک شخص کے متعلق وہ جانتا ہے کہ وہ دل میں کیا سوچ رہا ہے۔ ایک ایک شخص کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ وہ اندھیرے میں کیا کر رہا ہے اور اُجالے میں کیا کر رہا ہے۔ وہ اپنی خلوت میں کیا کر رہاہے اور اپنی جلوت میں کیا کرتا ہے۔ اس کے بعد اس کو یہ بھی معلوم ہے کہ جو ذرائع اور وسائل آدمی کو دیے گئے تھے ان سے اس نے کس طرح سے کام لیا اور کس نیت سے لیا۔ چنانچہ وہ محض اس کے ظاہری عمل ہی کو نہیں دیکھ رہا ہے بلکہ جو محرکات (motives) اس کے افعال کے پیچھے کارفرما ہیں وہ ان سب کو بھی جانتا ہے۔ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ، وہ دلوں میں چھپے ہوئے رازوں تک کو جانتا ہے۔ گویا آدمی اس سے اپنی کوئی چیز چھپا نہیں سکتا۔

اس پورے پیراگراف میں جو تصویر پیش کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کا مالک اور فرماں روا اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ تمام چیزوں پر قادر ہے۔ انسان کو اس نے پیدا کیا۔ اس نے اس کی صورت گری کی۔ اس کو تمام صلاحیتیں اور قوتیں اور دوسرے ذرائع و وسائل اُسی نے دیے۔ اس کی کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے اور اس دنیا کے بعد آنے والی ایک دوسری زندگی میں آدمی کو جانا اسی کے پاس ہے۔ یہ پورا نقشۂ کائنات، اور اس کائنات کے اندر آدمی کی جو ٹھیک پوزیشن ہے وہ واضح کردی گئی۔ اس طرح آدمی کا اپنے خدا سے جو تعلق، اور اس کی جو صحیح نوعیت ہے وہ ساری کی ساری ان چند فقروں کے اندر واضح طور پر بیان کردی گئی ہے۔

کفر کا انجام

اَلَمْ یَاْتِکُمْ نَبَءُوا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ فَذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (۵) کیا تمھیں اُن لوگوں کی کوئی خبر نہیں پہنچی جنھوں نے اِس سے پہلے کفر کیا اور پھر اپنی شامتِ اعمال کا مزہ چکھ لیا؟ اور آگے اُن کے لیے ایک دردناک عذاب ہے۔

اُوپر کی آیات میں پہلی چیز یہ بیان کی گئی تھی کہ جس کائنات میں تم رہتے ہو اس کی حقیقت کیا ہے، اس میں تمھاری حیثیت کیا ہے۔ یہ بتایا گیا کہ یہ کائنات اُس خدا کی سلطنت میں ہے جو تمھارا خالق ہے۔ یہ جان لینے کے بعد کہ تمھارا خالق وہی ہے اور اس کے بعد کوئی کفر کی راہ اختیار کرتا ہے اور کوئی ایمان لاتا ہے، اب یہاں یہ فرمایا گیا کہ کیا تم نے کبھی نہیں سنا ہے کہ تم سے پہلے جن لوگوں نے کفر کیا ہے اُن کا انجام اِسی دنیا میں کیا ہوچکا ہے؟ گویا ایک طرف پہلے کائنات کی حقیقت اور اس کے اندر انسان کی حیثیت واضح کی گئی اور اب دوسری طرف انسانی تاریخ کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آج جو تم یہاں موجود ہو، تم پہلی دفعہ خودبخود اس زمین پر آگئے ہو اور اس سے پہلے جو انسان اسی زمین پر گزر چکے ہیں ان کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی نہیں ہے کہ پہلے گزرے ہوئے انسانوں کے اعمال کے نتائج تمھارے سامنے نہ ہوں۔ تم تاریخ کے ایک خاص دَور میں پیدا ہوئے ہو، اس سے پہلے بہت سے انسان گزر چکے ہیں۔ تاریخ کے اندر کفر کرنے والوں اور ایمان لانے والوں، دونوں ہی کے حالات موجود ہیں۔ اس کے بعد کیا تم کہہ سکتے ہو کہ تمھیں اپنی گذشتہ تاریخ کا علم نہیں ہے۔ کفر کرنے والے دنیا میں جس غلط روش پر چلتے رہے اس کا انجام کیا ہوا۔ کیونکہ جس آدمی کو یہ احساس نہ ہو کہ وہ ایسے کسی خدا کی سلطنت میں ہے جو اس کے ہرفعل اور ارادے تک سے واقف ہے، جس کے سامنے وہ ذمہ دار اور جواب دہ ہے، جس کی گرفت سے بچ کر وہ کہیں بھاگ نہیں سکتا، ایسا شخص کبھی سیدھے راستے پر نہیں چل سکتا، اس پر قائم نہیں رہ سکتا۔ ان حقائق کا انکار کرنے کے بعد ممکن ہی نہیں ہے کہ آدمی کے اخلاق نہ بگڑیں، اس کے معاملات نہ بگڑیں اور وہ دنیا میں ظالم اور غلط کار بن کر نہ رہے۔ اس بات کا قطعی کوئی امکان نہیں ہے۔

بعض اوقات لوگ ایسا ضرور کرتے ہیں کہ خدا کے دین میں جو اخلاقی تعلیمات دی گئی تھیں ان میں سے کچھ انھوں نے وہاں سے لے لیں اور لا کر مادہ پرستانہ فلسفوں کے ساتھ جوڑ لگا کر اپنا ایک الگ نظامِ زندگی بنا لیا۔ ورنہ واقعہ یہ ہے کہ مادہ پرستانہ فلسفوں میں اخلاق کے لیے کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اگر مادہ پرستی کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے کہ ایک شخص آپ کا مال چُرا کر اس سے اس طرح فائدہ اُٹھا سکتا ہو کہ آپ کو پتا نہ چل سکے، اور کسی پولیس کو بھی پتا نہ چل سکے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ شخص آپ کا مال چرا کر اپنے قبضے میں نہ کرلے۔ مادہ پرستی کے فلسفے میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ آدمی ایسی حالت میں چوری کیوں نہ کرے، جب کہ اس کو چوری کا فائدہ ہی پہنچتا ہو اور نقصان کا کوئی خطرہ نہ ہو۔ اب اگر آدمی کو چوری سے کوئی چیز فی الواقع بچاسکتی ہے اور ایک مضبوط اخلاقی بنیاد پر قائم رکھ سکتی ہے تو وہ اس کا صرف یہ احساس ہے کہ اُوپر ایک خدا اس کو دیکھ رہا ہے اور اس خدا کی گرفت سے وہ نہیں بچ سکتا۔ صرف یہ وہ چیز ہے جو آدمی کو مستقل طور پر دیانت داری پر قائم رکھ سکتی ہے۔ ورنہ مادّہ پرستانہ فلسفے کے ساتھ آدمی کے اندر کسی دیانت کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ دیانت، آدمی اسی جگہ برتے گا جہاں اس کو اس دیانت کا کوئی فائدہ ہوتا نظر آئے، اور بددیانتی سے اس جگہ بچے گا جہاں اس کو اس دنیا میں بددیانتی کا کوئی نقصان ہوتا ہوا معلوم ہو۔ اسی طرح اور آگے بڑھ کر دیکھیے اگر ایک قوم اتنی طاقت ور ہے کہ دوسری قوم پر حملہ آور ہوکر اس کا مال لوٹ سکتی ہے، اس پر تباہی نازل کرسکتی ہے، اس کے آدمیوں کو قتل کرسکتی ہے اور کہیں کوئی طاقت ایسی موجود نہیں ہے جو آکر اس کا ہاتھ پکڑنے والی یااس سے بدلہ لینے والی ہو، تو ایسی ظالم قوم کبھی دوسری قوم پر ظلم کرنے سے باز نہیں رہے گی۔

اس ظالم قوم کو بس اتنا اطمینان چاہیے کہ دوسری قوم کے پاس کوئی بڑا اسلحی سازوسامان نہیں ہے، کوئی بڑا ہوائی بیڑہ نہیں ہے جس سے وہ جوابی حملہ کر کے مجھے کوئی سزا دے سکے، اور کوئی دوسری ایسی بڑی طاقت بھی نہیں ہے جو اس مظلوم قوم کی حمایت کو اُٹھ سکے تو اس کے بعد کوئی چیز اس طاقت کے نشے میں بدمست قوم کو ظالم بننے سے روکنے والی نہیں ہے۔ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ آج دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ کس طرح اسلحی طاقتوں سے لیس قومیں دوسری قوموں کو تباہ و برباد کرر ہی ہیں___ اللہ تعالیٰ یہاں یہ فرما رہا ہے کہ جن لوگوں نے اس سے پہلے کفر کی روش اختیار کرکے دنیا کو ظلم و فساد کی آماج گاہ بنایاہے، کیا ان کا انجام تمھیں معلوم نہیں ہے۔ کبھی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا ہے کہ کسی قوم نے یہ ظالمانہ اخلاق اختیار کیے ہوں اور اس کے بعد آخرکار وہ تباہ نہ ہوئی ہو۔ قوموں کی قومیں اس طرح تباہ ہوئی ہیں کہ آج ان کا کوئی نام لیوا بھی نہیں ہے۔ آج کوئی یہ بات کہنے والا نہیں ہے کہ ہم قومِ ثمود کی اولاد ہیں، حالانکہ ان کی کچھ نہ کچھ نسل تو دنیا میں موجود ہوگی۔ اسی طرح آج کوئی اُٹھ کر یہ کہنے والا نہیں ہے کہ ہم قومِ عاد یا قومِ لوط کی اولاد ہیں۔ اور اگر کوئی یہاں یہ کہنے والا ہے کہ ’’ہم فرعون کی اولاد ہیں‘‘ تو پھر وہ اس کا نتیجہ بھی دیکھتا ہے کہ فرعون کی اولاد بننے کا کیا انجام ہوتا ہے___ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیاتمھیں خبر نہیں ہے کہ جن قوموں نے پہلے کفر اختیار کیا ہے ان کا انجام کیا ہوچکا ہے۔ پھر فرمایا: فَذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ، ’’یعنی انھوں نے اپنے کیے کا مزہ چکھا اور آگے ان کے لیے عذابِ الیم ہے‘‘۔ گویا وہ اس دنیا میں بھی تباہ ہوئے اور آخرت میں بھی ان کے لیے دردناک سزا موجود ہے۔

ہدایت کا سامان

ذٰلِکَ بِاَنَّہٗ کَانَتْ تَّاْتِیْھِمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ یَّہْدُوْنَنَا فَکَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَی اللّٰہُ ط وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ (۶) اِس انجام کے وہ مستحق اس لیے ہوئے کہ اُن کے پاس اُن کے رسول کھلی کھلی دلیلیں اور نشانیاں لے کر آتے رہے، مگر اُنھوں نے کہا: ’’کیا انسان ہمیں ہدایت دیں گے؟‘‘ اس طرح اُنھوں نے ماننے سے انکار کر دیا اور منہ پھیر لیا، تب اللہ بھی ان سے بے نیاز ہوگیا، اور اللہ تو ہے ہی بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود۔

ان منکرینِ حق کا یہ انجام کیوں ہوا؟ اس بات کو اس طرح سمجھیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس زمین پر پیدا کرکے یہ بات انسان پر نہیں چھوڑ دی ہے کہ وہ خود غور کر کے یہ سمجھے کہ مجھے کسی نے پیدا کیا ہے اور میری حیثیت یہاں اس کے بندے کی ہے۔ درآں حالیکہ آدمی کو اللہ نے اتنی عقل و فکر ضرور دی ہے کہ وہ غور کر کے کم از کم اس نتیجے پر تو پہنچ سکتا ہے کہ اس کائنات کا لازماً کوئی نہ کوئی خالق ہے، اور وہ ایک ہی خالق ہونا چاہیے، دس خالق نہیں ہوسکتے ہیں، اور وہ ایسا ہی خالق ہونا چاہیے جو تمام کائنات پر فرماں روائی کر رہا ہو۔ وہ ایسا خالق ہونا چاہیے جو ہرچیز سے واقف ہو اور اس کا علم رکھتا ہو۔

اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تو انسان کو عقل دی ہے کہ وہ اس کی مدد سے اپنے رب کو پہچانے لیکن دوسری طرف اس نے انسان کو اس آزمایش میں نہیں ڈالا کہ وہ خود اپنی عقل استعمال کر کے اصل حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرے، بلکہ اس کی ہدایت کے لیے اس نے خود مکمل انتظام کر دیا ہے۔ اس نے انسانوں کے اندر انھی میں سے ایسے انسان مبعوث کیے جو آکر اس کو بتائیں کہ یہاں تمھاری حیثیت کیا ہے اور اس کائنات کی حقیقت کیا ہے۔ یہ انتظام کر کے اس نے انسان کے لیے اس بات کی گنجایش نہیں چھوڑی ہے کہ وہ کسی غلط فہمی میں پڑ جائے، ٹھوکر کھا جائے۔

اللہ کے یہ نیک بندے انسان کو اس حقیقت سے آگاہ کرتے ہیں کہ کائنات میں تمھاری یہ پوزیشن ہے، اور آخرکار اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی میں جاکر خدا کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔ اس نے اس زندگی میں تمھارے لیے کچھ اصول طے کیے ہیں کہ اگر ان پر تم چلو گے توتمھاری یہ زندگی بھی درست ہوگی اور عاقبت بھی درست ہوگی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی کے لیے اپنے رسول بھیجے اور بیّنات کے ساتھ بھیجے۔

بیّنات سے مراد

بَیّن اس چیز کو کہتے ہیں جو واضح ہو۔ یہ لفظ آپ اُردو زبان میں بھی بولتے ہیں کہ یہ بات بین ہے، یعنی بالکل واضح ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو بینات کے ساتھ بھیجا۔ بیّنات کیا ہیں؟

پہلی چیز بیّنات میں یہ ہے کہ رسولوں کی اپنی زندگی اور جس اخلاق کی تعلیم لے کر وہ آتے ہیں، ان پر ان کی اپنی عملی زندگی کی گواہی واضح طور پر یہ بتا رہی ہوتی تھی کہ یہ خدا کے رسول ہیں، کوئی بناوٹی لوگ نہیں ہیں۔ بنا ہوا آدمی کبھی نہیں چھپتا۔ وہ درجہ بہ درجہ اس خاص مقام تک پہنچتا ہے جس پر وہ پہنچنا چاہتا ہے۔ آپ خود اس سرزمین پر یہ منظر دیکھ چکے ہیں کہ ایک آدمی آپ کی آنکھوں کے سامنے رسول بنتا ہے۔ آج ایک دعویٰ کر رہا ہے، کل دوسرا دعویٰ کر رہا ہے اور پرسوں تیسرا دعویٰ کر رہا ہے۔ ایک قدم رکھ کر اس نے دیکھا کہ یہاں قدم ٹکتا ہے تو پھر اس نے ایک اور دعویٰ کر دیا۔ اس طرح بناؤٹی آدمی جو کچھ ہوتا ہے وہ آپ کی آنکھوں کے سامنے بنتا ہے۔ جیساکہ ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک صاحب نے ایک شخص کے بارے میں کہاکہ دوسروں کے متعلق تو نہیں معلوم کہ یہ سیّد ہیں یا نہیں ہیں، لیکن یہ تو کل ہمارے سامنے سیّد بنے ہیں___ تو اس طرح بناوٹی آدمی کبھی چھپتا نہیں۔

اللہ تعالیٰ نے جن پاکیزہ انسانوں کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ، ان کی پوری زندگی اس بات کی شہادت دے رہی ہوتی تھی کہ وہ واقعی اللہ کے رسول ہیں، کوئی بناوٹ ان کے اندر نہیں پائی جاتی تھی۔ جب تک وہ اللہ کی طرف سے رسول مقرر نہیں ہوئے تھے کسی نے کوئی دعویٰ کبھی ان کی زبان سے نہیں سنا تھا۔ کسی نے ان کی زبان سے وہ مضامین نہیں سنے تھے جو اللہ کے رسول بننے کے بعد انھوں نے سنانے شروع کیے۔ ان کے متعلق کبھی کسی کو یہ گمان نہیں ہوا تھا کہ یہ صاحب کل کچھ بننے والے ہیں۔ البتہ جب وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول بنائے گئے، تب انھوں نے کھڑے ہوکر کہا کہ ہم اللہ کے رسول ہیں___ اور جو دعویٰ انھوں نے پہلے روز کیا تھا اسی دعوے پر وہ آخر دم تک قائم رہے۔ اس میں کسی قسم کے تغیر و تبدل کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اسی طرح جو تعلیم انھوں نے اوّل روز پیش کی، اس کے اندر کسی قسم کا ردّ و بدل تک نہیں کیا، البتہ اس تعلیم کے اندر ارتقا اور تکمیل (development) تو لازمی طور پر ہونا ہوتا ہے۔ اوّل قدم پر جو باتیں آپ کو بتائی جائیں گی ان کے اندر مزید تفصیلات اور توضیحات حالات کے تغیر و تبدل اور ارتقا کے مطابق آپ کو دی جاتی رہیں گی۔ لیکن جس بنیاد پر، یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید، رسالت اور آخرت کے یقین و ایمان پر جس تعلیم کا آغاز انبیا علیہم السلام نے کیا تھا اس میں کبھی کوئی تغیر نہیں ہوا۔ اس طرح اُن کی پوری زندگی اس بات کی شہادت دیتی تھی کہ یہ اللہ کے رسول ہیں، اور جو تعلیم وہ لے کر آئے، وہ واضح ہدایات پر مبنی تھی، اس میں کوئی اُلجھاؤ نہیں تھا۔ صاف صاف یہ بتایا گیا تھا کہ تمھارے لیے حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔انھوں نے اپنی تعلیم میں کسی قسم کا اشتباہ نہیں چھوڑا۔ انھیں بینّات اور روشن دلیل کہا گیا ہے۔

گمراہی کا ایک بڑا سبب

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پچھلی قوموں کے پاس رسول پر رسول آئے اور بینات لے کر آئے لیکن لوگوں نے ان روشن تعلیمات کو دیکھنے، سمجھنے اور پرکھنے کے بجاے رسولوں کو جواب یہ دیا کہ: اَبَشَرٌ یَّہْدُوْنَنَا ’’کیا اب انسان ہمیں ہدایت دیں گے؟‘‘ یعنی انھوں نے نفسِ ہدایت پر بات کرنے کے بجاے انکار کے لیے بیچ کا راستہ اختیار کیا۔ گویا جو چیز لوگوں کو ان پر ایمان لانے سے روکتی رہی وہ یہ تھی کہ وہ انسان کو خدا کا رسول ماننے کے لیے تیار نہیں تھے، نیز یہ کہ کیا ہم جیسے انسان اُٹھ کر اب ہمیں ہدایت دیں گے؟___ گویا ان کا کہنا یہ تھا کہ اگر ہمیں ہدایت دینی ہے تو اس کے لیے خدا خود آئے یا اپنے فرشتوں کو بھیجے۔ ہم یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ کوئی انسان خدا کا رسول ہو۔

انسان کی گمراہی کی یہ عجیب صورت رہی ہے۔ جب رسول مانا تو کہا کہ یہ بشر نہیں ہے، اور جب بشر سمجھا تو کہا یہ رسول نہیں ہے یعنی یہ پھیر تھا جس میں انسان ہمیشہ مبتلا رہے۔چنانچہ یہ کہنے کے بعد کہ کیا بشر ہماری رہنمائی کریں گے، رسولوں کی تعلیم کو ماننے سے انکار کر دیا۔

اللہ قبولِ ہدایت کا محتاج نہیں

اس بات پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: فَکَفَرُوْا وَتَوَلَّوْاوَّاسْتَغْنَی اللّٰہُ ط(۶) ’’آخرکار اُنھوں نے انکار کیا، اور نیکیوں کی تعلیم کو ماننے سے منہ موڑا، پھر اللہ بھی ان سے مستغنی ہوگیا‘‘۔ گویا اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی روشن تعلیمات کو نہ مانے، جو لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب اُس کو سمجھانے آئیں تو ان سے منہ موڑے، تو اللہ کی کوئی غرض نہیں پڑی ہے کہ اس کے سامنے ہدایت کو لیے لیے پھرے اور خوشامد کرے کہ میرے رسول کی بات مان لو۔ نہیں، بلکہ جب ایک آدمی اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو ٹھکراتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی اس سے مستغنی ہوجاتا ہے۔ وَّاسْتَغْنَی اللّٰہُ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ ان سے بے نیاز اور مستغنی ہوگیا۔ اس نے اُن کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا، کہ جاؤ جس گڑھے میں گرنا چاہتے ہو، جا کر گرجاؤ۔

مزید فرمایا: وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ ’’اور اللہ غنی ہے اور حمید ہے‘‘۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی یہ دو صفتیں بیان کی گئیں:پہلی صفت یہ ہے کہ وہ غنی ہے، یعنی وہ تمھارا محتاج نہیں ہے۔ اس کی خدائی کچھ تمھارے بل پر نہیں چل رہی ہے کہ اگر تم نے خدا مانا تو وہ خداہوا، اور نہ مانا تو اس کی خدائی کو کوئی نقصان پہنچ جائے گا۔ نہیں، بلکہ وہ تمھیں جو کچھ سمجھاتا ہے، تمھارے اپنے بھلے کے لیے سمجھاتا ہے، اس کا اپنا کوئی مفاد اس سے وابستہ نہیں ہے۔ اگر تم اس کی پروا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ بھی غنی ہے، اس کو تمھاری بندگی کی کوئی حاجت نہیں ہے۔

اس کے ساتھ دوسری بات یہ فرمائی کہ وہ حمید ہے، یعنی وہ بہترین صفات کا مالک ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ جو خدا خود حمید ہے وہ بُری صفات والے انسانوں کو کبھی پسند نہیں کرتا۔ اسی دنیا میں آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی نیک سیرت آدمی کسی بدسیرت آدمی کے ساتھ میل جول رکھنا پسند نہیں کرتا۔ بدسیرت آدمیوں کے ساتھ بدسیرت آدمی ہی بیٹھا کرتے ہیں۔ اگر نیک سیرت آدمی کبھی اتفاق سے کسی بدسیرت کو نہ سمجھ کر اس کے ساتھ تعلقات استوار بھی کرلے تو جس وقت اس کو معلوم ہوجائے کہ وہ بدسیرت آدمی ہے، وہ اس کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کرلے گا، یا کم از کم سمیٹ لے گا۔ پھر جب انسانوں کا حال یہ ہے تو اللہ تعالیٰ سے آپ کیسے توقع رکھتے ہیں کہ اگر آپ اپنے اندر بُری صفات کی پرورش کریں تو پھر اللہ کا تقرب بھی آپ کو حاصل ہوجائے۔ اللہ کو پسند وہی شخص ہوسکتا ہے جو اپنے اندر قابلِ تعریف صفات پیدا کرے کیونکہ وہ خود قابلِ تعریف صفات کا مالک ہے۔ اور پھر آپ اپنی ذات میں محمود ہے۔ کوئی اس کی حمدوثنا نہ بھی کرے تو اس کی شان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوجاتی۔ (جاری) (جمع وتدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)
Umalbaneen
About the Author: Umalbaneen Read More Articles by Umalbaneen: 11 Articles with 15344 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.