مولانا صاحب اِک غیر مسلم دیس
میں موجود مسلمانوں کے ایک مجمع سے مخاطب تھے۔ اِس مجمع میں بہت سے غیر
مسلم بھی موجود تھے۔ مولانا صاحب اسلام میں عورت کی عزت و تعظیم کے موضوع
پر گفتگو فرما رہے تھے کہ اچانک مجمع سے اِک شخص اُٹھا اور مولانا صاحب سے
مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ آپ لوگ عورت کی قدر نہیں کرتے۔۔۔۔ آپ اپنی
عورتوں کو زبردستی پردہ کرواتے ہیں۔۔۔ عورت کی آزادی چھین لیتے ہیں۔۔۔
آسکو قید کر کے رکھ دیتے ہیں۔۔۔ آسکو باہر نہیں نکلنے دیتے اور نہ ہی خود
کمانے دیتے ہیں۔۔۔
مولانا صاحب خاموشی سے سُنتے رہے اور اُس شخص کے چُپ ہونے پر بولے کہ آپ
اپنی لیڈی ڈیانا سے کیوں کام نہیں کرواتے؟ وہ شخص مولانا کے سوال پر نہایت
حیران ہوا اور فوراً بولا کہ وہ تو ہماری پرنسس ہیں۔ ہم اُن سے بھلا کیسے
کام کروا سکتے ہیں؟ وہ کیوں کوئی کام کریں؟ مولانا صاحب نے جواب دیا کہ بات
یہ ہے کہ آپکی صرف ایک شہزادی ہے جبکہ مسلمانوں کے ہر گھر میں ملکائیں اور
شہزادیاں بیٹھی ہیں۔
کاش آج میرے نبی ﷺ کی پوری اُمت کے قلوب میں اِس بات کا احساس پیدا ہو
جائے اور میرے تمام مسلمان بہن بھائیوں کی سمجھ میں عورت کا وہ مقام آجائے
جو اسلام نے اُسکو دیا ہے۔ اگر آج مسلمانوں کے ایمان پختا ہوتے اور وہ
اپنے فرائض سے غافل نہ ہوئے ہوتے تو کِس کی جُرأت تھی کہ وہ مسلمانوں کی
اِن شہزادیوں کی جانب میلی آنکھ سے دیکھتا؟ یورپ میں تو غیر مسلم قوتیں
مسلمان عورت کے آنچل کو برداشت نہیں کر سکیں مگر ڈوب مرنے کا مقام تو یہ
ہے کہ آج اِس برائے نام اِسلامی ریاست میں ایسی عورتوں کی تعداد میں دِن
بہ دِن اضافہ ہوا جارہا ہے جو خود اپنے اِس آنچل سے تنگ ہیں۔ اِسلام کے
اِن احکامات پر عمل کرنا اب اِنکے لئے کسی غلامی سے کم نہیں۔ غرض اِس سے
زیادہ اور افسوس کی کیا بات ہوگی کہ آج تو خود مسلمان عورت ہی اپنا مقام
بھُلا بیٹھی۔۔۔ نجانے کل کے دِن یہ عورت اماں عائشہؓ کے سامنے کس منہ کے
ساتھ کھڑی ہوگی۔۔۔ اور اُنکو کیا جواب دے گی کہ آپ کی اِس وراثت کو ہم نے
کیا خوب سنبھالا؟؟؟
آج ہماری قوم کی اِن شہزادیوں کی لبوں پر وہی اعتراضات ہیں جو اُس انگریز
کے مسلمانوں سے تھے۔ سوچنا اِس بات کا ہے کہ اُس انگریز کے اعتراضات تو
مولانا صاحب نے نہایت مؤثر انداز میں دور کر دئیے تھے مگر اب یہاں کون
مولانا صاحب کی جگہ ہمارے دیس کی اِن شہزادیوں کے اعتراضات کو دور کرے گا؟؟؟
ہم کون ہیں کیا ہیں بخدا یاد نہیں
اپنے اسلاف کی کوئی بھی ادا یاد نہیں
ہیں اگر یاد تو کفر کے ترانے اب تک
ہاں نہیں یاد تو کعبہ کی سدا یاد نہیں
بنتِ ہوا کو نچاتے ہیں سرِ محفل اب
کتنے سنگ دل ہیں کہ رسمِ حیا یاد نہیں
آج اپنی زلت کا سبب یہ ہے شاید
ہم کو سب یاد ہے بس خدا یاد نہیں
(یہ تحریر میرے بلاگ سے لی گئی ہے جسکا لنک یہ ہے:
https://adilbaiya.blogspot.com) |