ٹرمپ نے نئی جنوبی ایشیا کی پالیسی کا اعلان کیا ہے جو اس
خطہ خصوصاً پاکستان کے لئے قابل قبول نہیں ہے ۔پاکستان کی مدد کے بغیر
امریکہ کی یہ پالیسی بری طرح ناکام ہو جائے گی۔اس کا ذکر ہمارے وزیر اعظم
خاقان عباسی صاحب بھی کر چکے ہیں اور انہوں نے مزید کہا کہ افغان جنگ کوکسی
صورت بھی پاکستان لانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ایک آزاد اور خود مختار ملک کے
لئے یہ فیصلہ درست ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیئے ۔ہم کب تک دوسروں کی
پالیسیوں کے مطابق اپنے ملک کو چلاتے رہیں گے۔اب اپنے پاؤں پہ کھڑے ہونے کا
یہ بہترین وقت ہے۔اب ہمیں اپنی خارجہ پالیسی بھی اپنے ملک کے مفاد کے مطابق
کرنی ہو گی۔
پاکستان کو اپنا مؤقف کھل کر دنیا کے سامنے لانا ہو گا ۔دنیا پر یہ باور
کرانا ہو گا کہ ہم نے دہشت گردی کی کتنی قیمت چکائی ہے ۔اب اور ڈو مور نہیں
بلکہ اب ڈومور کہنے والوں کی باری ہے کہ وہ افغانستان میں امن
لائیں۔افغانستان میں امریکہ فوج کی تعداد بڑھاتا جا رہا ہے جبکہ امن کے لئے
فوجی حل کبھی نہیں ہو سکتا ۔اس وقت بھی افغانستان کے چالیس فیصد حصے پر
طالبان کا قبضہ ہے۔امریکہ کو اب سوچنا ہو گا کہ پالیسی بدلنے سے حالات صحیح
نہیں ہو سکتے بلکہ خطے کے ممالک خصوصاً پاکستان کے ساتھ مل کر ہی افغانستان
میں امن لایا جا سکتا ہے نہ کہ خطے میں بھارت کی بالا دستی قائم کر کے لایا
جا سکتا ہے۔بھارت خود پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہے جس
کے ثبوت بھی پاکستان کے پاس موجود ہیں ۔بھارتی جاسوس کل بھاشن یادیو اس کا
منہ بولتا ثبوت ہے۔
وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بھی کہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت
رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اب پاکستان کو قربانی کا بکرا نہیں بننے دیں گے اور
پاکستان کو بھی اب اپنی سمت کا تعین کرنا ہو گا۔امریکہ سے تعلقات ختم نہیں
کئے جا سکتے لیکن اب پاکستان کو امریکہ پر کم انحصار کرنا ہو گا ۔پاکستان
نے ہمیشہ امریکہ کا ساتھ دیا ہے لیکن امریکہ نے ہمیں بہت دفعہ دھوکے میں
رکھا ہے چاہیئے تو یہ تھا کہ بہت پہلے ہمیں امریکہ سے متعلق اپنی پالیسی
تبدیل کر لینی چاہیئے تھی لیکن اب بھی وقت ہے کہ پاکستان کو امریکہ کے نہیں
بلکہ اپنے مفادات کو مد نظر رکھ کر خارجہ پالیسی تشکیل دینی ہو گی۔اس کے
لئے پاکستان کو اپنے بہترین دوست ممالک سے مشورے بھی کرنے کی ضرورت ہے تا
کہ ایک مضبوط خارجہ پالیسی بنائی جا سکے جو صرف اور صرف ملکی مفادات کا
احاطہ کرتی ہو۔پاکستان ایک خود مختار ملک ہے اور ایٹمی طاقت بھی ہے ۔ہم کب
تک دوسروں کے رحم و کرم پر پلتے رہیں گے ۔ہمیں اپنی قوم و ملک کے مفادات کو
ہی مد نظر رکھنا چاہیئے۔کارجہ پالیسی کی تبدیلی اب ناگزیر ہے اس کا موجود
حکومت کو بھی احساس ہو گیا ہے ۔
امریکہ پہ کم انحصار کے ساتھ ساتھ ہمیں چین کا اعتماد بھی بحال رکھنا ہو
گا۔چین ہمارا بہترین دوست ہے اور ہماری ہر مشکل گھڑی میں ہمارے ساتھ شانہ
بشانہ کھڑا ہوتا ہے۔ جہاں امریکہ ہمیں ڈو مور کا مطالبہ کر رہا ہے وہاں چین
اب بھی ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔ چین نے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ کچھ بھی
ہو جائے پاکستان کے مفادات کا ہر صورت تحفظ کریں گے۔پاکستان کی ترقی اور اس
کے استحکام کے لئے چین اس کے ساتھ ہے۔چین نے واضح کیا ہے کہ دہشت گردی صرف
پاکستان کا مسئلہ نہیں اب یہ عالمی مسئلہ بن چکا ہے اس لئے سب کو مل کر کام
کرنا ہو گا۔چین نے ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی ہے چاہے یہ علاقائی مسئلہ ہو
یا پھر عالمی فورم ہو۔ چین نہ صرف ہمارا بااعتماد دوست ہے بلکہ وہ پاکستان
میں سی پیک کا منصوبہ بھی شروع کر رہا ہے ۔جس سے اس خطے خصوصاً پاکستان میں
خوشحالی آئے گیااور اس کے دور رس نتائج نکلیں گے۔ |