پاکستانی طرزِ سیاست سوال و جواب کے پیرایوں میں

س: پاکستان میں سیاست کیا ہے؟
ج: پاکستان میں سیاست معنی ہے۔ لعن،طعن ،جھوٹ ، بہتان تراشی،باہم ٹانگ کھینچائی اور قوم کو بے وقوف بنانے کی۔وسیع مفہوم میں قوم کی خدمت اور نمائندگی کے نام پر ملکی خزانے کو لوٹنا۔لوٹی ہوئی دولت کو چھپانا یا پھر انہیں ڈالرز اور درہم میں تبدیل کرنا۔اولاد کیلئے نامی یا بے نامی جائیدادیں خریدنا اور پورے تین چار نسلوں کیلئے ملکی دولت ذخیرہ کرنا۔
س: پاکستانی جمہوریت اور مغربی جمہوریت میں کیا فرق ہے؟
ج: پاکستان میں پورا نظام چند افراد یا خاندانوں کے گرد گھومتی ہے جبکہ مغربی ممالک میں پورا نظام ملکی عوام گے گرد گھومتا ہے۔
س: نظریاتی کارکن کون ہیں؟
ج: وہ اندھے مجنون جن کو سڑکوں پر گھسیٹا جاتا ہیں جو پارٹی کے کہنے پر جیلوں میں کوڑے کھاتے ہیں اور اچھے اوقات میں ان کے ہاتھوں کچھ نہیں آتا۔
س: پاکستانی سیاست میں کامیاب لوگ کون ہیں؟
ج: میراثی، زبان دراز،خوشامدی اور وہ جن کے اکاؤنٹس میں کروڑوں اور اربوں روپے پڑے ہو۔جو وقت کے ساتھ وفاداریاں بدلنے اور اُڑان لینے میں ماہر ہو۔
س:لیڈر کون کہلاتا ہے؟
ج:کسی بھی پارٹی میں دادا سے لیکر پوتے تک سلسلہ وار ایک کے بعددوسرا لیڈر ہوتا ہے۔جوخود یا تو انگریز سامراج میں پلہ بڑا ہو۔یا پھر اولاد و جائیدادیں ملک سے باہر ہو۔صرف ملک لوٹنے کیلئے آئے اور بوریاں بھر کردیارِغیر میں آف شور کمپنیاں بنائیں۔ جن کو ملکی ساکھ کا کوئی فکر نہ ہو۔جن کا قبلہ امریکہ، لندن ،دوبئی یا کینیڈا ہو۔جن کے دامن پرکرپشن اور انسانوں کے قتل کے دھبے موجود ہو۔لیکن ریاستی ادارے ان کو پکڑنے سے قاصر ہو۔جو اپنے زیرِسایہ سیاستدانوں،اراکینِ پارلیمنٹ، بیوروکریٹس،پولیس اوردیگر لوگوں میں قومی پیسہ بانٹنا جانتا ہو۔جو خود کو احتساب اور ہر قسم کے مواخذے سے مستثنیٰ سمجھتا ہو۔
س:انتخابات میں کامیابی کیلئے ایک امیدوار کو کیا کرناچاہیئے؟
ج:انتخابات سے پہلے عوام کے سامنے جھوٹے دعوے کرنا۔انتخابات کے دن بدمعاشی،لڑائی جھگڑوں اور اسلحہ کی نوک پر ووٹوں کے صندوق جعلی ووٹوں سے بھروانا۔اگر ضرورت پڑی تو گلوبٹوں کے ذریعے انتخابی عملہ کو ڈرا دھمکا کرساتھ ملانایا پھر یرغمال بنا کرمرضی کے نتائج تیار کروانا۔جن پولنگ سٹیشنز پرمخالف امیدوار کی ووٹ بینک زیادہ ہو۔وہاں افراتفری اور جھگڑے کا ماحول پیدا کرکے ووٹنگ کے عمل میں رخنہ ڈالنا ۔
س:کیا پاکستان میں شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن ہے؟
ج:کبھی نہیں،کیونکہ اس سے پرانے سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کیلئے اقتدار میں آنے کے راستے بند ہوجائیں گے۔روایتی سیاستدان شفاف انتخابات کے حق میں نہیں۔
س:کیا بلاول بھٹوزرداری اور نواز شریف کے علاوہ پارٹیوں کے اندر وزارتِ عظمیٰ کا کوئی امیدوار موجود نہیں؟
ج:بہت سے قابل اور سینئر سیاستدان موجود ہیں۔لیکن کوئی لب کشائی اورسَر اُٹھانے کی جُرأت نہیں کرسکتا۔اور ا ن خاندانوں کے اقتدارمیں نہ ہونے سے ملک میں جمہوریت خطرے میں پڑجاتی ہے۔
س: صدر ِ مملکت کا عہدہ کتنا اہم ہے؟
ج:صدر کا انتخاب وزیراعظم کرتا ہے۔پاکستان میں صدر کو ربڑسٹیمپ کہا جاتا ہے۔ اس کی ذمہ داریوں میں سال میں ایک دو مرتبہ سیمینار یا کسی کنونشن کی صدارت کرنا ہوتا ہے۔پہلے سے لکھا ہوا تقریر مجمع کے سامنے پڑھتا ہے ۔مزیداس کا کام وزیراعظم کے حکم پر دستخط کرنا ہوتا ہے۔
س:حکومت اپنی مدت کیسے پوری کر سکتا ہے؟
ج:اپوزیشن کے ساتھ اقتدار کی باریاں لگانے کیلئے میثاقِ اقتدار ہوجائے۔اداروں کے سربراہان حاکمِ وقت کے تابع فرمان بن جائے۔میڈیا ہاؤسز کو اشتہارات اور پیمرا قوانین کے ذریعے انڈر پریشر رکھا جائے۔
س:سیاستدانوں کے بیچ تعلقات کیسے رہتی ہیں؟
ج:عوام کے سامنے دشمن اور پردے کے پیچھے دوست۔ایک وقت میں بدترین دشمن، مہینوں و سالوں بعد ایک ہی جھنڈے تلے بہترین دوست۔سیاستدانوں کے بیچ لڑائیاں اور بیویوں کے بیچ تحائف تقسیم ہوتے ہیں۔دو سگے بھائی علیٰحدہ علیٰحدہ پارٹیوں کے گانے گُنگناتے ہیں۔باپ اور بیٹا بھی سیاسی مخالفین مگر گھر میں ایک دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔
س:ملکی معیشت میں بہتری کیسے لائی جا سکتی ہے؟
ج:آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بینک اور ملکی بینکوں سے قرضے لے کر، ملکی اداروں کی نجکاری کرکے، غریب لوگوں پر ٹیکسز لگا کراور سرمایہ دار وں کو ٹیکسوں میں چوٹ دے کر ملکی معیشت میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔
س:روایتی طرزِسیاست مستقبل کے تناظر میں کیسے دکھائی دیتا ہے؟
ج:ملک پر اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بھاری بھرقم بوجھ اوربے انتہا کرپشن سے ملک کا مستقبل خطرے میں ہے۔کیونکہ انفرادی مفادات کی سیاست قومی مفادات کی سیاست کا احاطہ نہیں کرتی۔
س:قانون کیا ہے؟
ج: وہ سیدھی چھڑی جن کوہر کوئی اپنی خاطر موڑنا چاہتا ہو۔ طاقتور کیلئے لچکدار اور کمزور کیلئے بے لچک ہو۔
س:ملک میں کوئی ادارہ ایسا ہے۔جس نے سارے ملک کی خدمت کا بیڑا اُٹھا رکھا ہو؟
ج:جی ہاں،پاک فوج ایک ایسا ادارہ ہے جو ہر مشکل اور کٹھن وقت میں عوام کا سہارا بنتی ہے۔ اس ادارے نے باقی اداروں کی کمزوریوں پر پردہ ڈالا ہوا ہے۔
س:ملک میں ترقی اور تبدیلی کا خواب کب شرمندہ تعبیر ہوگا ؟
ج:جب ملک سے روایتی سیاست اور سیاستدانوں کا خاتمہ ہو۔جب ہر شہری یہ سوچے کہ میں اس ملک کی بہتری کیلئے کیا کچھ کر سکتا ہو۔لیکن اس سے بڑھ کر شرعی نظام اور قانون کی حکمرانی ہی ترقی کی ضمانت دیتا ہے۔
 

Hafiz Abdul Raheem
About the Author: Hafiz Abdul Raheem Read More Articles by Hafiz Abdul Raheem: 31 Articles with 19847 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.