قال الشافعیُّ رحمہ اللہ
أحب من الاخوان كل مواتي*
وكل غضيض الطرف عن عثراتي
يوافقني في كل أمر أريده *
ويحفظني حيا و بعد مماتــــــــي
فمن لي بهذا؟ليت أني أصبته*
لقاسمته ما لي من الحسنـــات
تصفحت إخواني فكان أقلهم*
على كثرة الإخوان أهل ثقاتـــي
مذکورہ اشعارمیں امام شافعی رحمہ اللہ فرماتےہیں
"میں بھائیوں میں سےہرموافق طبع دوست کوپسندکرتاہوں
اورہراُس شخص سےمحبت کرتاہوں جومیری لغزشوں کونظراندازکردے
جومیرےہرپسندیدہ(موافقِ شرع) کام میں میری موافقت کرے،
جوزندگی اورمرنےکےبعدمیری حفاظت کرے،
پس اِن صفات کاحامل کون ہےجومجھ سے دوستی کرے؟
کاش میں اِن صفات کاحامل دوست پالیتا
تومیں اُ س کےساتھ اپنی نیکیاں تقسیم کردیتا
میں نےاپنےبھائیوں میں(اس قسم کےدوست کو تلاش کرنےکےلئے)بڑی
جستجوکی(لیکن)بھائیوں کےکثرت کےباوجوداعتمادوالےبہت کم نکلے
اِن اشعارمیں امام شافعی نے دوست کی جن صفات کاذکرفرمایاہے
یہ کوئی غیرِ معمولی صفات نہیں ہیں بلکہ احادیث میں بھی اِن صفات
کواپنانےکی بڑی ترغیب آئی ہےچنانچہ
نیکی اورتقوی کےکام میں ایک دوسرےکیساتھ تعاون کرنےکااللہ جلّ شانہ نے حکم
دیاہے،حدیث میں آتاہے"جواپنےمسلمان بھائی کی حاجت پوری کرنےمیں لگاہواللہ
تعالی اُس کی حاجت پوری فرمانےمیں لگاہوتاہے،
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا"جوبندہ کسی بندےکی دنیامیں سترپوشی
کرتاہےتواللہ تعالی قیامت والےدن اُس کی پردہ پوشی فرمائیں گے،،صحیح مسلم
حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سےہر ایک مذکورہ صفات کے حامل دوست کوپسندکرتاہےاور
ہرایک یہ چاہتاہےکہ اُس کی کمزوریوں اورلغزشوں سےصرف نظرکردیاجائے،
اورجب ایساہےتوکیوں نہ ہم دوسروں کےلئےوہی کچھ
پسندکرےجوخوداپنےلئےپسندکرتےہیں،
سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا"جواس بات کوپسندکرتاہوکہ اُس کوآگ
سےدوراورجنت میں داخل کردیاجائےتوچاہئےکہ اُس کوموت اس حال میں آئےکہ وہ
اللہ اور آخرت کےدن پرایمان رکھتاہواورلوگوں کےساتھ وہی برتاؤکرےجووہ اپنے
لئےپسندکرتاہے،،صحیح مسلم
اگرہم اپنی خطاؤں کے لئےعذرتلاش کرتے ہیں تودوسروں کی لغزشوں کےلئےبھی
عذرڈھونڈناچاہئے
لیکن آج عالم یہ ہےکہ اگرکسی بڑی سےبڑی شخصیت سےبھی خطاء ہوجائےتوہم اُس
کوفوراً اچھال دیتے ہیں حالانکہ ممکن ہےوہ اُس کےاوپربہتان ہو،یااُس
کےلئےاللہ تعالی کےہاں کوئی عذرہو ،یاوہ صرف ہماری نظرمیں غلطی ہوجیساکہ
ایک شاعرکہتاہے
نعیب زمانناوالعیب فینا،،برازمانےکوکہتےہیں حالانکہ عیب
ہمارےاندرہے،،بہرحال کسی کےلئے عذرتلاش کرنااللہ کوبھی پسندہےاورمخلوق
کوبھی، اوراگرکسی کوخیرخواہی کےجذبےسےنصیحت کرنی ہوتواسکی بھی اجازت ہےلیکن
شائستگی سےہواورتنہائی میں ہو،ظاہرہےہم جس کی اصلاح چاہتے ہیں وہ تب ممکن
جب صرف اسکےسامنےاُس کوتنبیہ کریں گے، دوسروں کےسامنےاُس کورسواکرنےسےاُس
کی بدنامی توہوگی پرفائدہ کچھ نہیں ہوگا،امام شافعی رحمہ اللہ نصیحت
کےمتعلق اپنےدیگراشعارمیں فرماتےہیں
"مجھےنصیحت تنہائی میں کرو،لوگوں کےسامنےنہیں،اس لئےکہ لوگوں کےسامنےنصیحت
ایک قسم کی سرزنش ہےجس کومیں سننانہیں چاہتا،اوراگرتم نےمیری مخالفت کی
اورمیری بات نہیں مانی توپھرتم بھی نہ ماننے(عمل نہ کرنے)کاشکوہ نہ کرنا
دوست سے تعلق،محبت اور تعاون بالخصوص اور دیگر لوگوں سے بالعموم محض اللہ
کی رضا کے لئے ہونی چاہئے، خالص محبت اوردوستی کی علامت یہ ہےکہ اُس میں
دنیوی مفادات کےنشیب وفرازکیساتھ اُتارچڑھاؤنہیں آتابلکہ یہ محبت ہرصورت
قائم ودائم رہتی ہےاس کےبرخلاف جو دوستی مفادات اورخودغرضی
کےاوپراستوارہو،وہ غرض پوری ہونےپردم توڑدیتی ہے ،،خالص اللہ تعالی کی رضاء
کےلئےکسی سے محبت کرنےکےبڑے فضائل احادیث مبارکہ میں بیان ہوئےہیں،اُن میں
سےایک عظیم فضیلت یہ ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
’’اللہ تعالی قیامت کےدن ارشادفرمائے گا وہ لوگ کہاں ہیں جو صرف میری عظمت
و جلالت کے لئے آپس میں محبت کیا کرتے تھے۔ آج میں ان کو اپنے سائے میں جگہ
دوں گاجس دن میرےسایہ کےعلاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا،،صحیح مسلم،،اللہ تعالی
ہمیں آپس میں صرف اپنی رضاکےلئےمحبت کرنےکی توفیق عطاء فرمائے
|