حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سےروایت ہے کہ میں نے
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتےہوئےسناکہ" اللہ تعالی نے جس
دِن رحمت پیدا فرمائی تو ایک سو رحمتیں پیدا فرمائی(یعنی رحمت کےایک
سوحصےبنائے) پس اپنے پاس ننانوے رحمتیں روک لِیں اور ایک رحمت (یعنی ایک
حصےکو) اپنی تمام تر مخلوق میں بھیجاپس اللہ کے پاس جو رحمت ہے اگر کافر وہ
ساری کی ساری رحمت جان لے تو کبھی اللہ کی جنّت (کے حصول) سے مایوس نہ ہو
اور اللہ کے پاس کتنا عذاب ہے اگر ایمان والا وہ سارے کا سارا عذاب جان لے
تو کبھی بھی اللہ کی جہنم سے خود کو محفوط نہ سمجھے )صحیح البُخاری
حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کہ صحیح معنوں میں سمجھ دارعالم وہ ہے کہ جونہ تو لوگوں کواللہ تعالی کی
رحمت سےنااُمیدکرے اورنہ اُن کواللہ تعالی کی نافرمانی کی اجازت دے اورنہ
ہی اُن کواللہ تعالی کےعذاب سےمطمئن کرے
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ"علاءابن زیادآگ(جھنم) کابہت تذکرہ
فرماتےتھے،توکسی نےاُن سےعرض کیاکہ آپ لوگوں کومایوس کیوں کرتےہیں (یعنی
جنت اوراللہ تعالی کی رحمت سےلوگوں کوکیوں نااُمیدکرتےہیں )توفرمایا"میں
کیسےنااُمیدکرسکتاہوں جبکہ اللہ جلّ شانہ خوداپنےکلام میں فرماتےہیں
کہ"اےمیرےوہ بندوں جنہوں نے(گناہ کرکے)اپنی جانوں پرظلم کیااللہ کی رحمت
سےمایوس مت ہوؤ،یقیناًاللہ تمام گناہوں کوبخش دیگاوہ بہت بخشنےوالانہایت
مہربان ہے،(سورۃ الزمر35)اورساتھ یہ بھی فرمایاہےکہ"(گناہ
کرکے)حدسےتجاوزکرنےوالےہی آگ والےہیں،،سورۃ المؤمن 43)لیکن دراصل تم اپنی
بداعمالیوں کےباوجودجنت کی خوشخبری سن کرخوش ہوجاناچاہتےہوں حالانکہ اللہ
تعالی نےحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کواُس شخص کےلئےخوشخبری
سنانےوالابناکربھیجاہےجوآپ کی اطاعت کرےاوراُس شخص
کےلئےڈرانےوالابناکربھیجاہےجوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے،،علاء
ابن زیادرحمہ اللہ کےقول کامطلب یہ ہےکہ جب اللہ تعالی نےخوداپنےگناہ
گاربندوں کواپنی رحمت کی اُمیددلائی ہےاورمایوسی سےمنع فرمایاہےتومیں کون
ہوں آپ لوگوں کواللہ کی رحمت سےمایوس کرنےوالالیکن یہ بھی تواللہ تعالی نے
فرمایاہےکہ جس نےساری زندگی نافرمانی میں گزاری اورمرنےتک اُسکو ایمان
اورتوبہ کی توفیق نہیں ہوئی اُس کےلئےعذاب ہے،اسی طرح اللہ تعالی کےحبیب
صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعلمین کی صفت سےمتصف ہونےکیساتھ ساتھ خوشخبری
دینےوالےاورڈرانےوالے بھی تھے،جنت کاانتہائی دلکش نقشہ کھینچنےکیساتھ ساتھ
جھنم کاانتہائی ہولناک منظربھی بیان فرمایاہےلیکن تم بس یہی چاہتےہوکہ دعوی
ایمانی کےباوجوداسلامی تعلیمات کی مٹی پلیدکرتےرہو ،اللہ تعالی
اوراُسکےرسول کی حدوں اورظابطوں کوپامال کرتےرہو،پوری ڈھٹائی کیساتھ حکمِ
خداوندی کى خلاف کرتےرہواورواعظ بہرحال تمہیں خوشخبری ہی سنائے،،
خلاصہ یہ ہے کہ سورۃ زمرکی آیت نمبر35 ہراُس شخص کےلئے اُمیدکی کرن
ہےجواپنی ساری زندگی کفروشرک یامعصیت کےگھٹاٹوپ اندھیروں میں گزاردےاورجب
مسلمان ہوناچاہےیاہے تومسلمان لیکن گناہ گارہےاورتوبہ کرناچاہےتوشیطان اُس
کےدل میں یہ وسوسہ ڈال دے کہ اب توبہ کاکیافائدہ؟یعنی یہ شیطانی وسوسہ
ایسےشخص کےایمان یاتوبہ کےلئےرکاوٹ نہیں بنناچاہئےاللہ،رحیم وکریم کی رحمت
سےہرگزمایوس نہیں ہوناچاہئےبلکہ حدیث کےمطابق اللہ جلّ شانہ کی شان تویہ
ہےکہ"رات کواپناہاتھ پھیلاتاہےتاکہ دن میں گناہ کرنےوالاتوبہ کرلےاوردن
کوہاتھ پھیلاتاہےتاکہ رات کوگناہ کرنےوالاتوبہ کرلے(اوراُس کی کرم نوازی
کایہ سلسلہ اُس وقت تک چلتارہیگا)جب تک سورج مغرب سےطلوع نہ ہو،،صحیح مسلم
حقیقت یہ ہےکہ اللہ تعالی کی رحمت کی اُمیدرکھناانتہائی ضروری اورایمان
کاحصہ ہےاوراُسکی رحمت سےنااُمیدی اورمایوسی کفروضلالت ہے لیکن
اُمیدکےلئےکوئی بنیادبھی توہونی چاہئے،حنظل نامی پودے کابیج
بوکرمیٹھےپھل،فروٹ کی اُمیدتونہیں رکھی جاسکتی،بغیرڈیوٹی پرجائےصرف اُمیددل
میں پال لینےسےتنخواہ شایداکاؤنٹ میں نہ آئے،پھراللہ تعالی کےحکم سےبغاوت
اورسرکشی کےباوجوداُس کی رحمت کی اُمیدکیسےکی جاسکتی ہے؟اگراللہ جلّ شانہ
کی رحمت کی اُمیدکسی کےاسلامی احکامات پرعمل کرنےکےلئےرکاوٹ بنتی
ہےتوسمجھےکہ وہ دھوکہ میں ہے اوروہ حقیقت میں اُمیدنہیں شیطان یانفس
کادھوکہ ہےاُمیدسےتوعمل میں اضافہ ہوتاہے
|