دل کی دنیا

عید کے دنوں کی بات ہے کہ میں دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔گپ شپ ہورہی تھی ۔ان میں سے ہرایک اپنی اپنی سنارہاتھا۔میں بہت غور سے سنتاچلاجارہاتھا۔جب سے صحافت کی دنیا سے وابستگی ہوئی ۔میں اب چیزوں کو تجزیاتی نظر سے دیکھتاہوں ۔اچھا مزے کی بات کہ میرا یہ عمل کوئی ارادۃََ نہیں بلکہ عادت سی بن گئی ہے ۔میں چیزوں کو کھنگالتاہوں ۔سوچتاہوں پرکھتاہوں ۔خیر ان سب کی باتیں سن رہاتھا ۔لیکن ان سب کی باتوں میں ایک قدر مشترک تھی ۔وہ تھی یار !کسے کے دل میں نرمی ہی نہیں رہی ،محبت ہی نہیں دلوں میں ،دل میں احساس ہی نہیں رہاہے۔دل مردہ ہوگئے ہیں ۔دلوں میں نفرت ہی نفرت ہے ۔یعنی دل ،دل ،دل بار بار اس کی گردان کی جارہی تھی ۔ایسے میں نے سوچا کہ حقیقت ہے یہ دل کا ٹکڑا انسانی بدن کا مرکز ہے ۔سوچا کیوں نہ اس دل کے ہارے ہوؤ ں کو دل کے جیتنے ہی کا فن سیکھادوں ۔

ہم میں سے ہر شخص اس تاک میں رہتاہے کہ میں رونق محفل بن جاؤں ۔لوگوں مجھ سے محبت کریں ۔لوگوں کے دلوں میں میرے لیے جگہ بن جائے ۔تو پھر ایسے میں آپ کو کچھ کام کرنے ہوں گے ۔جو کہ میں اس مضمون میں ذکر کررہاہوں ۔امید ہے کہ آپ اس کے خاطر خواہ نتائج محسوس کریں گے ۔

(1)دوسروں کی خدمت و تواضع!!
انسانی فطرت ہے کہ جو اس کے کام آتاہے جو اس کے لیے کسی طورپر بھی خدمت کا عنصر رکھتاہے ۔اس کے دل میں اس کے لیے جگہ بن جاتی ہے ۔آئیے !میں یہ بات آپ کو اپنے آقامدینے والے مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی روشنی میں سمجھاتاہوں ۔

میرے آقاصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ’’خَیرُکُم خَیرُکُم لأَہلِہِ وَأَنَا خَیرُکُم لأَہلِی‘‘۔’’تُم لوگوں میں سب سے زیادہ اچھائی والا وہ ہے۔ جو اس کے گھر والوں کے ساتھ اچھائی کرتاہے اور میں تُم لوگوں میں سے سب سے زیادہ اپنے گھر والوں سے اچھائی کرنے والا ہوں‘‘(سنن ابن ماجہ ؍حدیث؍1977کتاب النکاح؍باب50، سنن الترمذی ؍حدیث؍3895کتاب النکاح؍باب64، إِمام الالبانی رحمہُ اﷲ نے فرمایا"""حدیث صحیح ہے)

والدین کے دل میں اولاد کی قدر نہیں اولاد کے دل میں والدین کی قدر نہیں ۔رشتہ داروں میں باہم روابط نہیں دلی دوریاں ہیں ۔اس کے لیے آسان نسخہ یہی ہے کہ خدمت کا جذبہ پیداکریں ۔خدمت دل کی دنیا کو مسخر کرنے اور محبت کے بیج کی آبیاری کا آسان نسخہ ہے ۔ہمیں تو اسلام دل جیتنے کے کیسے کیسے گُر سیکھاتاہے ۔جیساکہ فرمانِ مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم’’ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلْیُکْرِمْ جَارَہُ ::جو کوئی اﷲ اور آخرت کے دِن پر اِیمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو عِزت دے(صحیح بخاری ؍حدیث؍6019کتاب الادب؍باب31، سنن الترمذی ؍حدیث؍182کتاب الاِیمان؍باب21،)

(2)در گذر کریں۔۔
آپ گھر میں ہیں یا دفتر میں کہیں پر بھی ہوں آپ کا واسطہ انسانوں ہی سے پڑتاہے ۔کہیں کسی کی تلخی تو کہیں کسی کی چرپ زبانی تو کہیں کسی کا اکھڑ پن آپ کا منتظر ہوتاہے ۔یہ معاشرے کے عمومی رویے ہیں ۔ان رویوں کا سامنا تو کرنا ہی پڑھے گا۔آپ چاہتے ہیں کہ انہی مزاجوں و رویوں میں جی کر دوسروں کے دل کی دنیا کو مسخر کرلیں تو پھر ایک نکتہ جان لیں کہ آپ درگز ر کریں ۔حلم سے کام لیں ۔

میں آپ کوکبھی وقت ملا تو کسی دوسری تحریر میں اپنے پیارے آقاصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی سیرت کے واقعے سناؤں گا۔زیادتی کرنے والا ،بدتمیزی کرنے والا،تلخی کرنے والا خود شکست خوردہ ہوکر آپ کے پاس آئے گا۔خاموشی اور صبر بہترین انتقام ہے ۔ اپنی ایسی کسی خواہش کی تکمیل کی طاقت رکھنے کے باوجود اپنے غصے کو قابو میں رکھنا "حِلم"ہے اور یہ ایسا عمل ہے جو لوگوں کے دِل جیتنے کے کامیاب نسخوں میں سے ہے ۔اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ایسا کرنے والوں کی تعریف فرمائی ہے ۔الَّذِینَ یُنفِقُونَ فِی السَّرَّاء ِ وَالضَّرَّاء ِ وَالْکَاظِمِینَ الْغَیْظَوَالْعَافِینَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ()
ترجمہ کنزالایمان:’’وہ جو اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں خوشی میں اور رنج میں اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللّٰہ کے محبوب ہیں ‘‘.(سورت (آل عمران (3)/آیت 134)
اور نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِس رویے کو ہمیشہ ہی اپنائے رکھا ہے. جس کی بہت سی مثالیں سیرت مُبارکہ میں میسر ہیں ۔قران مجید فرقانِ حمید میں دل جیتنے کے حوالے سے کتنا پیارنسخہ ٔ کیمیاعطافرمایاہے۔

فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللَّہِ لِنتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِی الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِینَ۔(پ۴،سورۃ ال عمران،آیت:۱۵۹)
ترجمہ ٔ کنزالایمان:تو کیسی کچھ اللّٰہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لئے نرم دل ہوئے اور اگر تم مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گرد سے پریشان ہوجاتے تو تم انہیں معاف فرماؤ اور ان کی شفاعت کرواور کاموں میں ان سے مشورہ لواور جو کسی بات کا ارادہ پکا کرلو تو اللّٰہ پر بھروسہ کرو بے شک توکل والے اللّٰہ کو پیارے ہیں۔

(3) فراخ دلی اور نرم گوئی !!
آپ کسی دوکان پر کھڑے ہوں سودا طلب کریں دوکاندار کا مزاج ترش ہوتو آپ کو برامحسوس ہوگااسی طرح آپ دوکاندار ہوں اور گاہک کا لہجہ سخت ہو تو آپ کو بھی ناگوار گزرے گا۔لہذانرمی سے باہم رہنے سے محبت بڑھتی ہے ۔دل کی دنیا کے فاصلے مٹنے لگتے ہیں میں خود اپنی بات بتاؤں کہ میں کافی دور سے ایک دوکان سے دودھ لینے جاتا تھا صرف اور صرف اس دوکاندار کے انداز اور محبت بھرے لہجے کی وجہ سے ۔یعنی اس نے اپنی نرمی سے میرے دل کی دنیا کو مسخر کرلیا۔میرادل جیت لیا حالانکہ وہ دودھ مجھے مارکیٹ ریٹ پر ہی دیتاتھالیکن اس کی نرمی اور مٹھاس نے میرے قلب پر گہرے نقوش چھوڑے۔

آئیے میں اپنی جان ،اپنے مان ،اپنی کل کائنات اپنے آقا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے قول سے بتاتاہوں ۔میرے آقا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے لبہائے جنبش فرمائی ۔حکمت کے موتی جڑھنے لگے ۔آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’رَحِمَ اللَّہُ رَجُلًا سَمْحًا إِذَا بَاعَ، وَإِذَا اشْتَرَی، وَإِذَا اقْتَضَی‘‘۔
’’اﷲ اُس شخص پر رحم کرے جو فروخت کرنے میں سخاوت و نرمی کرتا ہے ، اور جب خریداری کرتا ہے تو سخاوت و نرمی کرتا ہے ، اور جب اپنا کوئی حق طلب کرتا ہے تو سخاوت و نرمی کرتا ہے‘‘(صحیح البخاری؍حدیث2076 ؍کتاب البیوع؍باب16)

اگر اس نرمی کے رویہ اور فراخدلی کو روا رکھا جائے تو ان شاء اﷲ لوگوں کے دل جیت سکتے ہیں ۔

(4)دُوسروں کی زندگیوں میں خوشی و سکون مہیا کرنا :
دل جیتنے کا ایک گُر اور یاد رکھ لیجئے ۔کہ آپ دوسروں کی زندگیوں میں خوشیاں لانے کا باعث بنیں ۔اپنی خوشی کے لیے تو آپ ہلکان ہیں ہی لیکن دوسروں کی خوشیوں کے لیے اپنے حصّے کی کوشش تو کریں ۔آپ دوسروں کی دنیا پر حکومت کریں گے ۔

آئیے میں اپنے آقاصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے قول سے آپ کو سمجھاتاہوں ۔فرمان ِ مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :لاَ تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَیْئًا وَلَوْ أَنْ تَلْقَی أَخَاکَ بِوَجْہٍ طَلْق:نیکیوں میں سے کسی کام کو بھی کمتر نہ سمجھو ، خواہ تُم اپنے (مُسلمان)بھائی کو مُسکرا ہی کر ملتے ہو(تو اسے بھی کمتر عمل نہ جانو)
(صحیح مسلم ؍حدیث6857 ؍کتاب البر و الصلۃ و الآداب؍باب43)

ایک اور فرمانِ مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پڑھئے اور جھوم اُٹھیے کہ میرے آقا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں زندہ رہنے کامیاب زندگی گزارنے اور دوسروں کے دلوں میں رچ بس جانے کے کیسے کیسے طریقے عطافرمائے ہیں ۔سبحان اﷲ !
أَحَبُّ النَّاسِ إِلَی اللَّہِ أَنْفَعَہُمْ لِلنَّاسِ، وَأَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَی اللَّہِ سُرُورٍ تُدْخِلُہُ عَلَی مُسْلِمٍ، أَوْ تَکْشِفُ عَنْہُ کُرْبَۃً، أَوْ تَقْضِی عَنْہُ دِینًا، أَوْ تُطْرَدُ عَنْہُ جُوعًا، وَلِأَنْ أَمْشِیَ مَعَ أَخٍ لِی فِی حَاجَۃٍ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أَعْتَکِفَ فِی ہَذَا الْمَسْجِدِ، یَعْنِی مَسْجِدَ الْمَدِینَۃِ، شَہْرًا، وَمَنْ کَفَّ غَضَبَہُ سَتَرَ اللَّہُ عَوْرَتَہُ، وَمَنْ کَظَمَ غَیْظَہُ، وَلَوْ شَاء َ أَنْ یُمْضِیَہُ أَمْضَاہُ، مَلَأَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ قَلْبَہُ أَمْنًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَمَنْ مَشَی مَعَ أَخِیہِ فِی حَاجَۃٍ حَتَّی أَثْبَتَہَا لَہُ أَثْبَتَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ قَدَمَہُ عَلَی الصِّرَاطِ یَوْمَ تَزِلُّ فِیہِ الْأَقْدَامُ :::اﷲ کے ہاں سب سے زیادہ محبُوب(لوگوں میں سے )وہ لوگ ہیں جو لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والے ہوتے ہیں ، اور اﷲ کے ہاں سب سے زیادہ محبُوب (کاموں میں سے )یہ کام ہے کہ تُم کسی مُسلمان کو خوشی اورسکون مہیا کرو ، یا اُس کی کوئی تکلیف دُور کر دو ، یا اُس کا قرض ادا کر دو ، یا اُس کی بھوک دُور کر دو ، اور مجھے اِس مسجد (نبوی)میں ایک مہینہ اعتکاف میں بیٹھنے سے زیادہ یہ بات پسند ہے کہ میں اپنے کسی (مُسلمان)بھائی کی مدد کے لیے اُس کے ساتھ (خواہ کچھ قدم ہی)چلوں ، اور جو کوئی اپنے غصے کو روکے رکھتا ہے اﷲ اُس کی پردہ داری فرماتا ہے ، اور جو کوئی اپنے جوش کو قابو میں رکھتا ہے باوجود اِس کے کہ وہ اُس کو پورا کرنے کی طاقت رکھتا ہو ، تو قیامت والے دِن اﷲ اُس کے دِل کو اَمن سے بھر دے گا ، اور جو کوئی اپنے (مُسلمان)بھائی کی کوئی ضرورت پوری کرنے کے لیے اُس کے ساتھ چلا یہاں تک کہ اُس کی ضرورت پوری کر دی تو اﷲ تعالیٰ اُس دِن اُس کے قدم (پُل) صِراط پر مضبوط کر دے گاجِس دِن صِراط پر (سب ہی کے قدم)پھسل رہے ہوں گے(المعجم الکبیر ،و الاوسط، و الصغیر ، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ؍حدیث 906،)

(5)احترام دو احترام پاؤ!!
دنیا کا یہ دستور ہے کہ ہر عمل کا رد عمل ہوتاہے ۔ہم کسی سے برے طریقے سے پیش آتے ہیں کسی کی تکریم نہیں کرتے تو ہمیں اس کے بدلے میں ایسا ہی رد عمل ملے گااور اگر ہم کسی کا احترام کرتے ہیں ۔اسے عزت دیتے ہیں ۔ایک چھوٹی سی مثال سے سمجھ لیجئے ۔آپ بس میں سفر کررہے ہیں سیٹ پر براجمان ہیں ۔کسی بزرگ کو دیکھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں انھیں بیٹھنے کی جگہ دیتے ہیں ۔دیکھنے میں ایک چھوٹا سا عمل ہے لیکن اس عمل سے آپ نہ جانے کتنے دلوں میں برسوں زندہ رہیں گے ۔
حدیث مبارکہ میں ہے کہ :
لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیرَنَا وَیَعْرِفْ شَرَفَ کَبِیرِنَا۔’’ وہ ہم میں سے نہیں جِس نے ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کیا اور ہمارے بڑوں کی عِزت نہ سمجھی‘‘۔(سنن الترمذی ؍ابواب البر الصلۃ)

(5) :نفیس گفتگو!!
یعنی ایسی بات کرنا جو مخاطب پر اور سُننے والے پرکوئی منفی اثر مرتب نہ کرے، اُسے اُس کے رب اور اُس رب کے سچے دین کی طرف راغب کرنے والی ہو ، اُسے نیکی اور بھلائی کی طرف مائل کرنے والی ہو ، ایسی ہو کہ مخاطب اور سُننے والے کو اُس کی خامیوں سے آگاہی بھی ہو جائے اور برا بھی نہ لگے ۔
الکَلِمَۃُ الطَّیِّبَۃُ صَدَقَۃٌ۔’’پاکیزہ(جائز ،اچھی ، مُثبت)بات صدقہ ہے۔‘‘

(6)اِنکساری وعاجزی!!!
عجز و انکساری والا رویہ مُسلمان کے لیے اس کی دُنیا اور آخرت میں بلندیوں کا اہم سبب ہے ، بس اُسے اﷲ کی رضا کے لیے اختیار کیا جائے ۔
اِس کی خبر بھی ہمیں ہمارے محبوب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمائی کہ ?مَا نَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِنْ مَالٍ وَمَا زَادَ اللَّہُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّہِ إِلَّا رَفَعَہُ اللَّہ۔
’’صدقہ کرنے سے مال میں کچھ کمی نہیں ہوتی ، اور اﷲ کسی بندے کو اُس بندے کے درگُذر والے رویے کی وجہ سے عِزت میں ہی بڑھاوا دیتا ہے ، اور جب بھی کوئی بندہ تواضع اختیار کرتا ہے تو اﷲ اسے(درجات میں ) بلند ہی کرتا ہے۔
(صحیح مُسلم ؍حدیث4689/کتاب البر و الصلۃ و الآداب؍باب19 ،)
اگر ہم بھی اپنی نبی صلی اﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بتائے اور سکھائے ہوئے اِس طریقے پر اﷲ کی رضا کے لیے عمل کرنے لگیں تو دُنیا میں لوگوں کے دِل اور آخرت میں اپنے رب کی رضا سے بلند رتبے حاصل کر سکتے ہیں ۔

( 7)فراخ دِلی سے دُنیاوی مال و اسباب عطاء کرنا!!
یہ عمل بھی لوگوں کے دِلوں میں خوشی پیدا کرنے کے اہم اسباب میں سے ہے ۔ آپ کی بات قبول کرنے پر ، آپ سے محبت کرنے پر اور آپ کا احترام کرنے پر دوسروں کو مائل کرنے کے بڑے اسباب میں سے ہے۔لیکن یہ عمل کسی دُنیاوی مقصد کے لیے یا غیر ثابت شدہ دینی مقصد کے لیے نہیں کیا جانا چاہیے ۔

(8)دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالنا اور حکمت سے اصلاح کی کوشش!!!
اس بات کو آپ میں آپ کو ایک واقعہ کے ذریعے سمجھاتاہوں۔ایک دیہاتی بارگاہِ رسالت میں حاضر ہواتھا۔ جس نے مسجد نبوی میں پیشاب کر دیا تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُسے کچھ نہیں کہا ، اگر ہم میں سے کوئی ہوتا تو شاید اُس پر کفر کا فتویٰ لگانے کے ساتھ ساتھ اُس کی خوب پٹائی بھی کرتا ۔یہ غلطی تھی لیکن اس غلطی کا اژالہ اتنے خوبصورت انداز میں فرمایاکہ وہ
دوسروں کے لیے مثال بن گئی ۔یہ بھی دلوں پر حکمرانی کرنے کا ایک نسخہ ہے ۔ایک شخص رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دِین دُنیا اور آخرت کی کسی خیر کا سوال کرنے کی بجائے زنا کرنے کی اجازت طلب کرنے لگا ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُس کے ساتھ کس قدر شفقت اور نرمی والا رویہ اپنایا ، یہاں تک کہ وہ مُطیع و فرمان بردار ہو کر بارگاہ نبوی سے نکلا ۔
محترم قارئین:آئیے مل کر نفرتوں کی دنیا ختم کر کے محبت کے گلشن آباد کرتے ہیں ۔دوسروں کے دلوں میں جہاں ہمارے کردار و گفتار کے سنگ ریزے اور جھاڑیاں موجود ہیں انھیں پیار،محبت ،عقیدت و انسیت کے گلوں سے رونق بہار بخشتے ہیں ۔

ہمارے تعفن زدہ کاموں کی وجہ سے کسی کے دل کی دنیا میں کوئی آلودگی ہے تو آئیے اسے اخلاقِ حسنہ کے مشک و عنبر سے معطر معطر کردیں ۔توپھر آج ہی کوشش کیجئے کہ ہم بن جائیں ہر ایک کے دل کی دھڑکن ۔اس دنیا میں بھی رہیں تابندہ اور جب عارضی و فانی دنیا سے کوچ کرجانے کے بعد بھی لوگوں کی دھڑکنیں ہمارے روشن کردار کی گواہ ہوجائیں ۔آپ موٹیویشنل ٹریننگز ،کیرئیر پلاننگ ،میڈیکل مشوروں کے حوالے سے بھی ہم سے رابطہ کرسکتے ہیں ۔

DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 381 Articles with 593990 views i am scholar.serve the humainbeing... View More