عوامی ووٹ کے تقدس کی پامالی واضع طور نظر آرہی ہے
سندھ حکومت کی بدترین کارکردگی شہرکراچی کی ترقی کے آگے دیوار بن گئی ایم
کیوایم پاکستان.مئیرکراچی سندھ حکومت کے ہاتھوں بلیک میل ہونے پر مجبور ۔بلدیاتی
انتخابات میں صرف ایم کیوایم پاکستان کی کامیابی صوبائی حکومت کو ہضم نہیں
ہورہی ہے۔نہ کام کرینگے اور نہ ہی کرنے دینگے شہر کراچی کی عوام سے محبت سے
دئیے گئے ٹیکس پر عیش منظور لیکن ایم کیوایم کو ووٹ دینے کی سزا بلدیاتی
مسائل اور مئیر کراچی وسیم اختر کو اختیارات نہیں دیکر دی جارہی ہے صوبائی
حکومت کی پالیسی واضع ہوگئی ہےکراچی میں مون سون بارشوں کے نتیجے میں ہونے
والی سیلابی صورتحال کی ذمہ داری سندھ حکومت سمیت وزیر بلدیات۔کراچی
واٹراینڈسیوریج بورڈ کے ساتھ کچھ بلدیہ عظمیٰ کراچی پر عائد ہوتی ہے کیونکہ
کراچی واٹراینڈسیوریج بورڈ مکمل طور پر اور چئیرمین بورڈبھی سندھ حکومت کا
ہے جتنے وسائل بلدیہ عظمیٰ کراچی اور مئیر کراچی وسیم اختر کے پاس ہیں اس
سے چند یوسیز میں ترقیاتی کام بھی مشکل سے ہونگے لیکن مئیرکراچی وسیم اختر
جس ناگفتہ حالت میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں وہ قابل تحسین ہے لیکن یہ
بات اپنی جگہ ایک حقیقت رکھتی ہے کہ شہرقائد میں ایم کیوایم پاکستان۔پاک
سرزمین پارٹی۔حقیقی جب تک ایک شخصیت کو نشانہ بناتے رہیں گے اپنی سیاست کی
کشتی چلاتے رہیں گے۔ کیونکہ یہ سب آپس میں دست گریباں رہیں گے ایک دوسرے پر
الفاظ کے نشتر برساتے رہیں گے تو سیاست چلتی رہے گی ورنہ نئی ڈرامہ سریل کے
لئیے نئے کرداروں کی کمی کھبی بھی نہیں رہی ہے اور شاید اسی وجہ سے تقسیم
کے عمل کو زیادہ ہوا دی گئی ہے اور اسی تقسیم کا فائدہ کس کو ہوگا یہ طے
ہونا باقی ہے برسوں سے ترسے ہوئے منتظر اپنی جگہ بنانے کی بھرپور کوشش
کررہے ہیں لیکن فی الحال 2018ء الیکشن سے پہلے لیڈرز بننے کے جنون نے سیاست
کو غیر مستحکم کردیا
(اللہ جانے کون بشر ہوگا) اور کون بشر کامیاب ہوگا ؟ یہ کہنا قبل از وقت
ہوگا.مئیر کراچی وسیم اختر جس بدتریں صورتحال میں اپنی فرائض منصبی انجام
دے رہے ہیں وہ ہرگز آئیڈیل کنڈیشن نہیں ہے کیونکہ سابق سٹی ناظم کراچی سید
مصطفی کمالٰ نے بہت ہی پرسکون اور آئیڈیل ماحول میں کام کیا تھا انکا آج کے
مئیر کے ساتھ اگر کوئی موازنہ کرتا ہے تو یہ پیٹ بھری کی مستی ہی ہوسکتی ہے
شہر کراچی میں ایم کیوایم کی تقسیم در تقسیم نے شہر میں بے پناہ مسائل پیدا
کردئیے ہیں ابتداء میں جو تجربات کیئے گئے وہ ابتک کوئی نتائج دینے میں
مکمل ناکام ہوچکے ہیں اور اسکا بڑا فائدہ سندھ وفاق دونوں کو ہورہا ہے
کراچی کی فی الحال اسٹیک ہولڈر جماعت ایم کیوایم پاکستان۔پاک سرزمین
پارٹی۔حقیقی کے ضمیر اگر ”سوجائیں“ تو یہ خوش آئند ہوگا کیونکہ انکے ضمیر
”کچھ عرصے پہلے جاگے تھے“ تو یہ سب الگ الگ ہوگئے تھے لیکن سب مہاجر قوتوں
کو کراچی کے وسیع تر مفاد میں ایک ہونا ضروری ہے اگر کوئی ایک یہ سوچتا ہے
کہ وہ اکیلا ہی عوام کے مسائل کو حل کرنے کی سکت رکھتا ہے تو وہ حقیقت سے
بہت دور ہوکر سوچ رہاہے کیونکہ چاروں پوائنٹ کو ایک جگہ ہونا پڑے گا کب ؟
یہ غور فکر سے مشروط ہے یہ ایم کیوایم (مکمل) سے یہ تین ایم کیوایم پاکستان۔
حقیقی اور پاک سرزمین نکلی ہیں اور یہ بات طے ہے کھل کر ان تینوں کو عوامی
مسائل پر ہلکے راگ گانے کی اجازت ہوگی لیکن پکے راگ گانے اور بجانے کی
اجازت نہیں ہوگی اور اس کا بھرپور فائدہ سندھ حکومت اٹھارہی ہے۔عید قربان
پر آلائشوں کے اٹھانے پر بلدیہ عظمیٰ کراچی اور ڈسرکٹ چئیرمینوں کی زمہ
داری تھی جوکہ ست روی کاشکار رہی اور توپوں کا رخ مئیر کراچی ودیگر
چئیرمینز کی جانب ہوگیا اور جہاں سے آلائشیں اٹھاگئیں وہاں زرائع ابلاغ
ونشریات کی رسائی ممکن نہیں ہوسکی کیونکہ ایڈورٹائزنگ کا سب سے بڑا شعبہ
بھی سندھ حکومت کے پاس ہے وجہءمجبوری سمجھ آتی ہے مئیرکراچی کو اختیارات
لینے کے حوالے سے عوام عدالت عالیہ کی نظر گوہرنایاب کی منتظر ہیں نگاہ مرد
مومن شہر کراچی کی بے کسی، حالت زار پر کب اوپر اٹھتی ہیں یہ دعا قلبی کے
ساتھ گزارش بمعہ التجاء بھی ہے۔۔۔ |