’’ خدائے بزرگ و برتر کی قسم جب تک ہمارے دشمن ہمیں اٹھا
کر بحیرہ عرب میں نہ پھینک دیں، ہم ہار نہیں مانیں گے۔ پاکستان کی حفاظت کے
لئے تنہا لڑوں گا ، اُس وقت تک لڑوں گا جب تک میرے ہاتھوں میں سکت اور میرے
جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی موجود رہے گا۔مجھے آپ سے یہ کہنا ہے کہ اگر
کبھی ایسا وقت آجائے کہ پاکستان کی حفاظت کے لئے جنگ لڑنی پڑے تو آپ کسی
صورت میں ہتھیار نہ ڈالیں اور پہاڑوں، جنگلوں ، میدانوں اور دریاؤں تک میں
جنگ جاری رکھیں‘‘۔یہ وہ الفاظ ہیں جو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح
نے قیام پاکستان کے بعد قوم سے مخاطب ہوکر کہے تھے۔ پاکستانی افواج نے ہر
مشکل گھڑی میں خواہ وہ جنگ ہو یا سرحدات پر کشیدہ صورت حال‘ہرحال میں اپنے
قائد کا خواب لفظ بہ لفظ پوراکرکے دکھایا۔
5 ستمبر 1965 ء کی رات کو بھارت کے جرنیلوں نے اپنی افواج کو خوش خبری
سنائی کہ وہ اگلے روز دوپہر کا کھانالاہور میں کھائیں گے اور جم خانہ کلب
میں انہیں شراب پلائی جائے گی۔ یہ خوش خبری سُن کر بھارتی سپاہی گرم ہوگئے۔
ابھی 6 ستمبر کی صبح طلوع نہیں ہوئی تھی کہ بھارت نے بغیر کسی اعلان جنگ کے
پاکستان پر حملہ کردیا۔ اس نے لاہور، واہگہ ، برکی اور بھینی کے مقامات پر
تین اطراف سے زبردست حملہ کیا۔ دشمن نے برکی کے محاذ پر متعدد چھوٹے بڑے
حملے کیے لیکن پاکستانی فوج کے جوان مقابلے میں ڈٹے رہے۔ دشمن ہر دفعہ تازہ
دَم فوج کے ساتھ حملہ کرتا رہا۔ لاہور کے معرکے میں برکی کے محاذ پر پنجاب
رجمنٹ کی کمان ملک و ملّت کا ایک عظیم مجاہد اور ایک عظیم سپاہی راجہ
عبدالعزیز بھٹی کررہاتھا، جس نے اپنی جرأت و ہمت کا ایک ایسا کارنامہ سر
انجام دیا جو پاکستان کا ایک سنہراباب بن کر رہ گیا۔ تاریخ آپ کو محافظِ
لاہور کے نام سے بھی یاد کرتی ہے۔
8 ستمبر کو بھارتی فوجوں نے برکی کے مقام پر شدید ترین حملہ کیاجس میں توپ
خانے کی پوری ڈویژن ، ٹینکوں کا ایک سکواڈرن اور مشین گنوں کی بھاری کھیپ
پیدل بھارتی فوج کے معاون تھی۔ دشمن کی توپیں دن رات اس طرح گولے برساتی
تھیں کہ ہماری فوج کو سانس لینے کی فرصت نہیں ملتی تھی۔ لیکن پاک فوج کے
جوان وطنِ عزیز کی حفاظت کے لئے دن رات لڑ رہے تھے۔ برکی کے محاذ پر پنجاب
رجمنٹ کی کمان میجر راجہ عبدالعزیز بھٹی کر رہے تھے، ان کی کمپنی کی دو
پلٹنیں بمبانوالی راوی بیدیاں (بی آر بی) نہر کے سائفن میں عقبی مورچے
سنبھالے ہوئے تھیں۔ آپ خود قیادت کرنے کے لئے اگلی پلٹن میں شامل تھے۔ بی
آر بی نہر کی اہمیت کے پیشِ نظر دشمن فوج برکی کے مورچوں پر برابر دباؤ
ڈالتی رہی۔ جب دشمن کا دباؤ بڑھ گیا تو آپ نے اپنے سپاہیوں کے ساتھ پیچھے
ہٹے ، لیکن وہاں سے دشمن کا صفایا کرنا لازمی تھا۔ لہٰذا آپ نے جوانوں سے
ایک ولولہ انگیز خطاب کیااور دو دستوں کے دشمن پر حملہ کردیا۔ آپ مشین گن
ہاتھ میں لیے اپنے سپاہیوں کے ساتھ زبردست فائرنگ کرتے ہوئے آگے بڑھے اور
دشمن کا صفایا کرتے چلے گئے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے جوانوں اور فوجی
گاڑیوں کو نہر کے دوسرے کنارے دشمن کی برستی گولیوں میں پہنچانے میں کامیاب
ہوگئے، وہاں پہنچنے کے بعد آپ نے کمپنی کو از سرِ نو ترتیب دیا اور بے مثل
اعلیٰ قیادت کا مظاہرہ کیا دشمن کی پوزیشن کا جائزہ لینے کے لئے انہیں
باربار اپنا سر مورچے سے باہر نکالنا پڑتا تھا تا کہ آپ دیکھ سکیں کہ دشمن
کس پوزیشن میں ہے۔متواتر کئی روز دشمن سے لڑتے ہوئے آپ بہت تھک گئے تھے۔
اسی لئے افسر کمانڈر نے آپ کو چند دن آرام کرنے کو کہا لیکن آپ نے کہا۔’’
میں پیچھے نہیں ہٹوں گا بلکہ ملک کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان دے دوں گا‘‘۔
ایک صبح دشمن کے دو ٹینک آگے بڑھتے ہوئے نظر آئے، آپ نے سگنلز کو پیغام
بھیجا تو جوابی گولہ باری سے دونوں ٹینک تباہ ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد دشمن
فوج کا پورا یونٹ دکھائی دیا۔میجرراجہ عبدالعزیز بھٹی بیک وقت ٹینکوں، پیدل
فوج اور توپ خانہ کو گولہ باری کی ہدایات دینے میں مشغول ہوگئے، علاوہ ازیں
دشمن کی پیش قدمی کی بھی مسلسل نگرانی کرتے رہے۔جونہی انہوں نے توپ خانہ کو
گولہ باری کا حکم دیا، اسی اثناء میں برکی روڈ کی جانب سے دو ٹینک نظر آئے۔
آپ نے بڑی پھرتی سے ان کی طرف متوجہ ہوئے۔ جب اُن ٹینکوں میں سے ایک کو
تباہ کردیاگیا تو دوسرے ٹینک کا ایک گولہ آپ کے کندھے پر آگرا ، اور آپ
موقعہ پر شہید ہوگئے۔
یہ تھا میجر راجہ عبدالعزیز بھٹی کا وہ جذبہ ‘ جس نے دشمن کے مذموم عزائم
اور لاہور پر قبضہ کے خواب کو خاک میں ملا دیا۔ یہ تھا وہ ولولہ ‘ جس کے
سامنے بھارتی فوج گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی۔گزشتہ سال سے لائن آف کنٹرول
پر بھارتی فوج کی بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ کافی حد تک زیادہ ہوچکا ہے جس
کی بنیادی وجہ مقبوضہ جموں کشمیر میں آزادی کی تیزی سے ابھرتی ہوئی تحریک
ہے۔بعض دفعہ بھارت فائرنگ کے ان واقعات کو توڑ مروڑ کر ’سرجیکل سٹرائیک‘ کا
نام دیتا ہے۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان کے مطابق کو ئی ’سرجیکل سٹرائیک ‘
نہیں ہوئی ہے جب کہ بھارت کی جانب سے LoC پر بلااشتعال فائرنگ کی جاتی ہے
جس کا بھر پور جواب دیا جاتا ہے اورآج بھی پاکستانی فوج میں ستمبر65 ء کا
جذبہ موجود ہے اور وہ اپنے سے آٹھ گُنا بڑے دشمن کی ہر قسم کی جارحیت کا
منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔
|