حکمت آمیز باتیں-گیارواں حصہ

یہ تحریر فیس بک کے آفیشل پیج www.facebook.com/ZulfiqarAliBukhari
پر میری کہی گئی باتوں کا مجموعہ ہے، میری سوچ سے سب کو اختلاف کا حق حاصل ہے،میری بات کو گستاخی سمجھنے والے میرے لئے ہدایت کی دعا کر سکتے ہیں۔ئ

یہ ضروری نہیں ہوتا ہے کہ اگر آپ کے نزدیک کوئی برا شخص ہے تو پھر سب اس کو برا ہی سمجھیں گے،آپ کی سوچ آپ کے مشاہدہ تک ہی ہے،ہو سکتا ہے کوئی برا بن رہا ہو تو آپ کی وجہ سے بن رہا ہو،آپ کے سامنے کوئی خود کو برا بن کر بھی دکھا سکتا ہے ،لہذا اپنی سوچ کو تمام دنیا کے افراد کی سوچ سمجھنے سے گریز کریں۔

جب بھی کوئی نیا رشتہ بنتا ہے تو اس کو برقرار رکھنے کے لئے بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے،اپنی انا کو مارنا پڑتا ہے،بہت کچھ سہنا پڑتاہے کبھی کبھی یہ سب رشتے کو قائم رکھنے کے لئے بھی کرنا پڑتا ہے،لہذا اپنی طرف سے کوشش کریں کہ کوئی بھی رشتہ نہ ٹوٹے کہ جب بھی ایک فریق کی جانب سے رشتہ توڑا جاتا ہے تو پھر وہ بہت تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔اسکے اثرات کسی کو زیادہ کسی کو کم سہنا پڑتے ہیں۔

وقت گذر رہا ہے گذر ہی جائے گا،لیکن کیا ہم وقت کے ساتھ چل رہے ہیں یہ ایک اہم نقطہ ہے۔جس پر ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے؟

جب تک ہماری سوچ عمل میں نہیں بدلتی ہے تب تک ہم محض لفظوں سے جی بہلا رہے ہوتے ہیں۔

جو بہت کم قوت ارادی رکھتا ہے اوراپنے آپ پر دبائو برداشت نہیں کر سکتا ہے، دوسروں کا رویہ بھی اسکے ساتھ لاتعلقی کا سا ہو تو وہ خود کشی کی طرف جاتا ہے،مگر قوت ارادی کے ساتھ دباو کا مقابلہ رکھنے والے اپنے پیاروں کا ساتھ رکھتے ہیں مگر ذہنی طور پر درست فیصلہ کر کے پریشانی کا حل نہ نکالنے والے ذہنی دباو کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ پہلی صورت حال سے دوچار افراد خودکشی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔

ہمیں اس حوالے اپنے احباب کو بتانا چاہیے کہ کسی پر حد سے زیادہ تنقید نہیں کرنی چاہیے اور بلند حوصلے کے ساتھ جینے کا طریقہ کار بچوں کو سمجھانا چاہیے تاکہ وہ اس صورت سے بچ سکیں،جو مبتلا ہوں انکو محبت اور حسن سلوک کے ساتھ علاج معالجہ جہان ضرورت پڑے کے ساتھ واپس زندگی کی رونق کی طرف لے آئیں۔اسلام کے قوانین پر عمل سے بھی اس سے بچا جا سکتا ہے۔

اکثر نفسیاتی مسائل کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم سچائی کا سامنا نہیں کر سکتے ہیں اور یہی بات ہمیں نفیساتی مریض بنا کر رکھ دیتی ہے۔

بیٹیوں کے کردار بنانے اور بگاڑنے میں باپ اور بھائی کا بھی بہت بڑا عمل دخل ہوتا ہے ، ذرا سی بھی نظر چوک جائے ، پورا دامن داغ دار ہوجاتا ہے۔دوسری طرف اکثر ماں کی طرف سے بے جا طرفداری بھی انکی بے راہ روی کا شکار ہونے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

بہت کچھ ہمارے ہاتھوں میں نہیں ہے کچھ قدرت کا امتحان بھی ہوتا ہے مگر برائی قدرت کی جانب سے نہیں کروائی جاتی ہے ہم خود غلط راستہ چنتے ہیں ،ہم ہر بات کو اپنے اوپر نہیں لیتے ہیں اس کو بھی جو ہماری غلطی سے ہوتی ہے،یہ بات درست ہے کہ مرد اگر سدھار کرنا چاہے تو اسکی اولاد بھی اور اسکے گھرانے کی خواتین بھی راہ راست پر ہونگی۔

مسائل کا جب تک درست حل نہ نکالا جائے وہ کہیں سے پھر نمودار ہو کر پریشانی کا سبب بن جاتے ہیں۔

جب تک ہم اپنے درد کو بانٹے اور دل کی باتوں کو دل میں رکھنے کی بجائے بیان کرنا شروع نہیں کریں گے،اسوقت تک ہم ذہنی و نفسیاتی اذیت میں مبتلا رہیں گے،ہمیں اس کا احساس نہیں ہوگا کہ ہم ذہنی طور پر مفلوج ہو رہے ہیں مگر ہمارے اردگرد افراد اس کو بخوبی محسوس کرلیں گے،اس لئے دوسروں کو اس بات کا موقع نہ دیں کہ وہ آپ کی فکر کریں،آپ ازخود اپنے آپ کو سدھرنے اوراس پر قابو پانے کی کوشش کریں اور کڑے حالات کا سامنا کریں،تب ہی آپ کی بھی زندگی میں سکون آسکے گا۔

ہم محبت کے معاملے میں بے حس بن جاتے ہیں،اپنے جذبات کو چھپا لیتے ہیں یا اظہار کرنے سے ڈرتے ہیں،مگر نفرت کے اظہار کے لئے ہم وہ سب کرتے ہیں جس سے کسی دوسرے کو اُسکی اوقات دکھائی جا سکے۔

ماضی کو بھول جانے سے اور تکلیف دہ چیزوں کو برداشت کرلینے سے ہی ہم ذہنی طور پر پرسکون رہ سکتے ہیں،جب تک ہم اپنے آج میں جینا نہیں شروع کریں گے، ہمیں ہمارا ماضی خون کے گھونٹ پلاتا رہے گا..

دوسروں کو سچ بتانا جرم نہیں ہے لیکن دوسروں کے لئے سچائی زہر قاتل بن جاتی ہے۔

اپنی ہی سرزمین پر بدعنوانی کرنے والے،دہشتگردی کرنے والے کیا اس ارض پاک سے مخلص ہیں،اگر ایسا ہے تو پھر اپنے ہی بھائیوں کے ساتھ ظلم وذیادتی کیوں کر رہے ہیں؟؟؟

ہم اپنے گھروں میں پالتو جانوروں سے تو محبت کا سلوک کر سکتے ہیں مگر اپنے ملازموں سے جانوروں سے بھی بدترین سلوک کر کے بھی انسانیت کا درس دیتے ہیں کہ ہم سے بڑا کوئی خلق خدا سے محبت کرنے والا نہیں ہوگا۔

خوشبو دینے والوں کے ہاتھوں میں خوشبو کی مہک رچ بس جاتی ہے تو اسی لئے خود کو ایسا رکھیں کہ آپ بھی تکلیف میں نہ آئیں اوردوسرے بھی سکون میں رہ پائیں۔

اچھے عمل کی تقلید کرنا مشکل امر ہے مگر برائی کی شاہراہ پر گامزن ہوجانا آسان ہوتا ہے۔

جب بڑے ہی چھوٹوں کے لئے غلط مثال قائم کریں گے تو پھر بچوں سے بھلائی کی امید کم ہی رکھی جا سکتی ہے۔

اپنے اعمال کو درست کرنے سے ہر بندش، ہر جادو اور رکاوٹ دور ہو جاتی ہے۔اللہ پر کامل یقین کے ساتھ نماز و دعا کی پابندی کیجئے سب مسئلے حل ہونگے۔

جھوٹ بولنے میں ہم مہارت رکھتے ہیں مگر سچائی کا سامنے کرنے سے کتراتے ہیں۔

قربانی اللہ کے لئے، کھالیں اللہ کے نام پر مانگنے والوں کے لئے ،باقی رہ گیا گوشت وہ اپنے پاپی پیٹ کو بھرنے کے لئے، خدا کا خوف کریں وہ لوگ جو مہنگی قربانی کر کے بھی مستحق افراد کا حق مارتے ہیں اور گوشت کی بندربانٹ محض دکھاوئے کے لئے کرتے ہیں، کیا ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ مہنگے جانور خریدنے کی بجائے ایسے بہت سے جانور خرید لیں جائیں جو اُس رقم سے بہت سے غریبوں کے لئے گوشت کی فراہمی کو ممکن کریں جو عام حالات میں گوشت خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں،ایک مہنگے جانور سے دس اُسی رقم کے مطابق اگر آجائیں تو بہت سے افراد کا بھلا ہو سکتا ہے۔اُس پر درد دل والے سوچیں تو کچھ اچھائی کا کام شروع کیا جا سکتا ہے۔


کبھی کبھی ہمیں زندگی میں ایسا لگتا ہے کہ ہماری کوئی عزت ہی نہیں کرتا ہے اور نہ ہی محبت رکھتا ہے مگر ہم یہ نہیں سوچتے ہیں کہ جب ہم کسی کی عزت کو پائوں میں روندتے ہیں اور محبت کرنے والے کی توہین کرتے ہیں تو کوئی ہم سے کیسے محبت رکھے گا اور ہمیں عزت دے گا کہ یہ تو ہمیں خود ہمارے عمل کی بدولت ہی اکثر ملا کرتی ہے۔ ہمیں بس اپنی اور اپنوں کی بے عزتی محسوس ہوتی ہے کسی دوسرے کی عزت کی دھجیاں اُڑ کر بھی ہم لاپروا رہتے ہیں جب تک ہمیں احساس نہ دلایا جائے ہمیں بھی کچھ عقل نہیں آتی ہے۔

سیاست کرنے والے اگر اپنے مفادات کی بجائے قوم کا مفاد سوچ لیں تو کبھی بھی کوئی قوم تباہ و برباد نہ ہو۔

اپنے آپ کو تبدیل کرنا آسان نہیں ہوتا ہے تبھی ہم دوسروں میں تبدیلی لانے کے خواہاں ہیں۔

حضرت انسان کو اﷲ تعالی نے بے شمارصلاحیتوں سے نوازاہے اور ان ہی کی بدولت وہ دنیا میں بے بہا کارہائے نمایاں سرا نجام دیتا ہے ۔اگر انسا ن میں ہمت و حوصلہ ہو توکچھ بھی نہ ممکن نہیں ۃوتا ہے۔جناب اگر آپ کو کچھ بھی مسائل ہیں اور آپ ذہنی الجھن جسے ہم ڈپریشن بھی کہہ سکتے ہیں میں مبتلا ہو چکے ہیں تو سب سے پہلے آپ خود کو اس سے لڑنے کیلئے تیار کیجئے ۔کیونکہ جناب جنگ کیسی ہی کیوں نہ ہو اس کیلئے آپ کو تیاری کرنی پڑتی ہے اور تب جا کر آپ میدان مارتے ہیں۔محض باتوں سے دوسروں کو اس بات پر قائل کرنے سے کہ آپ واقعی بیمار ہیں اور ٓپ کو دوسروں کی ضرورت ہے تو آپ کے مسائل حل نہیں ہوسکتے ہیں۔اس کیلئے آپ کو پہلے تو یہ جاننا ہوگا کہ آپ کو کیا بات پریشان کر رہی ہے جب یہ معلوم ہو جائے تو آپ اپنے مسئلے کو حل کرنے کے قابل ہو جائیں گے ۔

غلط کرنے والوں کو بتانا چاہیے کہ اُن سے کہاں غلطی ہوئی ہے تاکہ وہ آئندہ ایسا نہ کریں اور اپنی غلطی کی اصلاح بھی کرسکیں۔

ہم بدقسمتی سے لوگ کیا کہیں گے کا سوچ کر اپنے سب اعمال سرانجام دینے لگے ہیں،تب ہی ہم گمراہی کی دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں۔

Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 523139 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More