ترنم جمال، کلکتہ
میں نے ابھی آٹو سے چاندنی بازار اترکر نیو مارکیٹ جانے والے راستے پر قدم
بڑھایا ہی تھا کہ پیچھے سے کسی نے میرا آنچل کھینچ لیا۔ پلٹ کر دیکھا تو
ایک چھ سات سال کی بچی تھی۔ پھٹے پرانے کپڑے، بال بکھرے ہوئے، وہ بولی
’’آنٹی صبح سے بھوکی ہوں، کھانا کھلا دو، میری ماں نے بھی کچھ نہیں کھایا
ہے۔‘‘
’’لیکن تمہاری ماں کہاں ہے۔‘‘ میں نے اطراف میں نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
’’وہ سڑک کی دوسری طرف بیمار پڑی ہے۔‘‘
میں نے پرس سے پچاس کا نوٹ نکال کر اسے دیتے ہوئے کہا۔اپنے اور ماں کے لئے
کھانا لے لینا۔‘‘ اور میں جلدی سے آگے بڑھ گئی۔ مجھے پہلے ہی کافی دیر
ہوگئی تھی۔ ٹریزر لینڈ سے بچوں کے لئے اسکول یونیفارم لینا تھا۔ گھر میں
اپنے تینوں بچوں کو چھوڑکر آئی تھی۔ بڑے دونوں بھائی بہن کو کہہ دیا تھا کہ
چھوٹی بہن کا خیال رکھے۔ رحمٰن اسٹور پہنچ کر میں نے اسکول یونیفارم لئے
پھر اپنی چھوٹی بیٹی کے لئے خوبصورت فراک کی تلاش میں لگ گئی کیونکہ میرا
جب بھی نیو مارکیٹ آنا ہوتا میں اس کے لئے فراک ضرور خریدتی۔ پھر میں نے
ایک بہت خوبصورت ریڈ کلر کا نیٹ ورک فراک لے لیا۔
مجھے معلوم تھا وہ کتنا خوش ہوگی۔ فرمائش کچھ نہیں کرتی۔ بھائی بہن کی
چیزوں کو خاموشی سے دیکھتی ہے۔ لیکن جیسے ہی شاپر سے اس کے لئے کچھ نکلتا
ہے، ہزاروں خوشی کے جگمگاتے رنگ اس کی پیاری سی من موہنی صورت پر آجاتی ہے۔
اور اپنی طرف اشارہ کرتی ہوئی کہتی ہے۔ ’’یہ میرا ہے۔ یہ میرا ہے۔ ممی میرے
لئے لائی ہیں۔‘‘ اس کے پاپا بھی اس کی مسکراہٹ اور اس کے انداز پر فدا ہیں۔
یوں تو وہ انہیں ابا کہتی ہے لیکن پاپا اپنے نازک لبوں سے اس انداز سے کہتی
ہے مانو گلاب کی پنکھڑیوں سے پھول جھڑ رہے ہوں۔ وہ بہت خوش ہوتی ہے کہ میں
نے پاپا کہا کیونکہ بھائی بہن بھی پاپا کہتے ہیں۔
اپنے خیالوں میں گھر پہنچتی ہوں۔ دونوں بچے اسکول کا ہوم ورک کررہے تھے۔
میری چھوٹی بیٹی نیچے فرش پر بیٹھی کھلونوں سے کھیل رہی تھی۔ مجھے دیکھتے
ہی خوشی سے چیخنے لگی اور مجھ سے آکر لپٹ گئی۔ جیسے کتنے دنوں کے بعد مل
رہی ہو۔ اگر میں کبھی بھی باہر کچھ دیر کے لئے چکی جاؤں تو یوں اداس ہوجاتی
ہے اور آنے کے بعد اس طرح ملتی ہے جیسے کب کی بچھڑی ہوئی ہو۔
میں نے بھی گود اٹھاکر اسے لپٹاکر پیار کیا اور جتنے بھی لفظ پیار کے میری
زبان سے نکلے، میں نے کہے۔ میری گڑیا، میری بیٹی، میری دنیا، میری دھڑکن،
میری سب کچھ اور شاپر سے نکال کر میں نے ریڈ فراک اسے پہنا دیا اور وہ اپنی
بڑی امی کے روم میں چلی گئی کیونکہ اسے سب سے پہلے ڈریسنگ ٹیبل میں آئینے
دیکھنا تھا۔ گھوم گھوم کر دائیں بائیں فراک پھیلاکر۔ اسے جب بالکل اطمینان
ہوجاتا کہ وہ بہت اچھی لگ رہی ہے فراک اچھا ہے تو خوشی سے آئینے میں منہ
سٹاکر خود کو پیار کرتی۔ چچازاد بہن سے موبائل سے تصویر کھینچواتی۔ پھر
اپنے کمرے میں آجاتی اور میرے پیچھے پیچھے پورے گھر میں گھومتی، ایک سکینڈ
کے لئے بھی مجھے تنہا نہیں چھوڑتی۔ میں تھکن سے چور بستر پر لیٹتی تب وہ
اپنے نازک ہاتھوں سے میرا ہاتھ دباتی، سر دباتی، مجھ سے لپٹ کر میرا منہ
چومتی اور میں اسے پیار سے سرزنش کرتی، کیا بیٹی تم میرا منہ گندہ کردیتی
ہو۔ پھر وہ میرے دوپٹہ سے میرا منہ صاف کرتی اور یوں میں اپنی ساری تھکن
بھول جاتی۔ اور اپنے دونوں بڑے بچوں سے کہتی۔ دیکھ لو، بڑی ہوکر یہ میری
زیادہ خدمت کرے گی۔ بھائی ہنس کر کہتا۔ ’’امی یہ دکھاوا کرتی ہے۔ سب دکھاوا
ہے۔‘‘ اور میں مسکرا دیتی بیٹے کی سادگی پر۔ میری بچی جسے’’دکھاوا‘‘ لفظ کا
مفہوم نہیں معلوم وہ کیا دکھاوا کرے گی۔
اس کی زندگی میں ایک اور فرد کی بہت اہمیت ہے، جس کا ذکر نہیں کروں تو شاید
یہ کہانی کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔ یہ مخلص ہستی ہے۔ میری آپا کی بیٹی۔ میں
جب بھی اپنے والدین کے یہاں جاتی ہوں بچوں کے اسکول کی چھٹیوں میں، تو وہ
وہاں ہوتی ہے۔ اور میں وہاں اپنی چھوٹی بیٹی کی ذمہ داریوں سے بالکل آزاد
ہوجاتی ہوں۔ یہ ذمہ داری بحسن و خوبی وہ اٹھا لیتی ہے۔ اسے ذرا بھی چوٹ
تکلیف نہیں پہنچنے دیتی۔ بالکل پھولوں کی طرح رکھتی ہے۔ کہتی ہے گھر میں
جتنے بچے بھی آجائیں ’’میری بابو کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔‘‘
میری بیٹی کے لئے اس کی محبت کا یہ عالم ہے کہ ایک دفعہ شرارت کے طور پر
ایک ویڈیو اسے بھیج دیا گیا۔ جس میں میری بیٹی بہت رو رہی تھی اور اشارے سے
کھانا مانگ رہی تھی۔ جسے دیکھتے ہی اس نے انتہائی غصے میں ہمیں فون کیا اور
ازار و قطار رونے لگی۔ ’’آپ لوگ کیوں میری بابو کو رُلا رہی ہیں۔ اسے کھانے
کے لئے کیوں نہیں دے رہی ہیں۔‘‘ اور ہم سبھی کو اس کی نادانی پر خوب خوب
ہنسی آئی تھی۔
لیکن ہم میں سے شاید کسی کو خبر نہیں تھی کہ یہ ہنسی، یہ خوشی بہت جلد
ہمیشہ کے لئے روٹھ جائے گی۔ خوشیاں جب کی ذات سے تھیں ہم سے یوں بچھڑ جائیں
گی۔
آج بھی میں جب نیو مارکیٹ جاتی ہوں تو حسرت بھری نگاہوں سے شاپ میں ٹنگی
ہوئی خوبصورت فراکوں کو دیکھتی ہوں۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس کے
پاپا نیند میں چیختے ہیں۔ بیٹی کا نام لے کر روتے ہیں۔ انہیں کیسے سمجھاؤں،
بیٹی وہاں چلی گئی ہے جہاں رونے اور چیخنے سے اگر واپس آجاتی تو شاید میں
ان سے زیادہ چیختی کیونکہ وہ میری رگِ جاں کے قریب تھی۔ حالانکہ دو بچے اور
بھی ہیں لیکن انسیت اس سے تھی۔ وجہ یہ بھی ہے کہ جسمانی طورپر وہ معذور
تھی۔
………………………………
|