مشکل راستے قسط نمبر52

ازمینہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی شکیلہ بیگم اس کے چہرے پر چھائی گھبراہٹ اور خوف کو دیکھ کر پریشان ہوگئیں ۔۔۔

کیا ہوا ہے تمہیں ازمینہ۔۔۔ تم اتنی ڈری ہوئی کیوں ہو ۔۔۔

ان کا بس اتنا پوچھنا تھا کہ ازمینہ ان سے لپٹ کر رونے لگی ۔۔۔

بتاؤ ازمینہ میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں ۔۔۔۔۔ تم مجھے اور پریشان کر رہی ہو ۔۔۔۔۔

امی آج اللہ کا کرم ہوا ہے ہم پر ۔۔۔۔ آپ کی دعائیں ہی ہیں جن کی بدولت میں اور شزا صحیح سلامت اپنے گھر واپس آگئیں ورنہ ناجانے کیا ہوجاتا ۔۔۔۔

کیا مطلب ! کھل کر بتاؤ ازمینہ مجھے ہول اُٹھ رہے ہیں ۔۔۔۔

امی شزا مجھے ایک بزرگ خاتون کے پاس لے جانا چاہتی تھی ۔۔۔ جو رقیہ (روحانی علاج ) کرتی ہیں ۔۔۔نبیلہ باجی کے بارے میں بتایا تھا میں نے اسے ۔۔۔۔ تب اس نے ان خاتون سے اس بارے میں بات کی تھی۔۔۔ ان خاتون نے نبیلہ باجی کو دیکھنے کا کہا تھا ۔۔۔ مگر میں پہلے ان سے مل کر تسلی کرلینا چاہتی تھی کہ آیا وہ واقعی روحانی علاج کرنا جانتی ہیں یا پھر دوسرے عاملوں کی طرح فراڈ تو نہیں کر رہیں ۔۔۔۔ انہیں خاتون سے ملنے کے لئے آپ سے اجازت لے کر گئی تھی ۔۔۔ سوری امی آپ سے جھوٹ بولا تھا کہ شزا کو کچھ کام ہے ۔۔۔ اگر اصل وجہ بتا دیتی تو ابو اور آپ مجھے منع کر دیتے ۔۔۔۔

تم نے جھوٹ بول کر اچھا نہیں کیا ازمینہ ۔۔۔۔

معاف کردیں امی مجھے ۔۔۔۔ میں نے یہ جھوٹ نبیلہ باجی کے لئے بولا تھا ۔۔۔۔۔ اگر سچ بول دیتی تو آپ کبھی مجھے جانے نہیں دیتیں ۔۔۔۔

چلو خیر ۔۔۔۔ مگر تم رو کیوں رہی تھیں اور اتنی ڈری ہوئی کیوں ہو ۔۔۔۔ کیا ہوا ہے تمہارے ساتھ ۔۔۔۔

وہی بتانے جارہی ہوں امی ۔۔ ہم بس کی بجائے رکشہ میں گئے تھے ۔۔۔ مگر ایک گاڑی نے ہمارا پیچھا کرنا شروع کردیا تھا ۔۔۔۔ وہ کبھی ہمارے رکشہ کے آگے گاڑی لاتے اور کبھی پیچھے رہ کر ہارن پر ہارن بجانا شروع کردیتے ۔۔۔۔ انہیں سے جان چھڑانے کے لئے شزا نے چڑیا گھر کے قریب روکنے کو کہا ۔۔۔۔ اس کا خیال تھا کہ پولیس موبائل اور اتنا رش دیکھ کر لڑکے ہماری جان چھوڑ دینگے۔۔۔ مگر ایسا نہیں ہوا ۔۔۔ بلکہ ایک لڑکے نے تو شزا کا ہاتھ پکڑ لیا تھا ۔۔۔جس پر ہم ڈر کر رونے لگی تھیں ۔۔۔ کچھ لوگ آگے بڑھے تھے ہماری مدد کو ۔۔۔ مگر ان چاروں میں سی ایک نے ہوائی فائر کردیا ۔۔۔ جس پر سب پیچھے ہٹ گئے ۔۔۔ پولیس تماشہ دیکھ رہی تھی اور سب لوگ بھی ۔۔۔۔ اتنے میں اچانک ایک دھان پان سی لڑکی آگے بڑھی تھی اور ان غنڈوں کو شزا کا ہاتھ چھوڑنے کو کہا ۔۔۔۔ جس پر وہ سب اس کا مزاق اُڑانے لگے ۔۔۔۔ مگر جو کچھ اس کے بعد ہوا وہ مجھ سمیت سب کے لئے ہی حیران کن تھا اس ایک واحد کمزور سی دکھنے والی لڑکی نے ان چاروں کو زمین چانٹنے پر مجبور کردیا ۔۔۔۔ اس نے نا صرف ہماری عزت اور جان بچائی بلکے ان بدمعاشوں کی بھی اچھی خاصی دھلائی کردی ۔۔۔۔۔۔

اللہ اس لڑکی کا بھلا کرے ۔۔۔۔۔ حیرت ہے پولیس وہاں کھڑے ہو کر صرف تماشہ دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔

مجھے تو اس بات پر حیرت ہے امی اس دبلی پتلی لڑکی نے ان چاروں بدمعاشوں کو اکیلے ہی نبٹ لیا ۔۔۔۔ وہ ذخمی بھی تھی ۔۔۔ اس کی کمر اور بازو سے خون بھی بہرا تھا ۔۔۔۔۔

ازمینہ ان کی بات سن کر بولی تو وہ اس کی طرف دیکھنے لگیں ۔۔۔۔ ابھی وہ دونو ں بات ہی کر رہی تھیں کہ دالان کے سامنے والے کمرے سے چیخنے اور اُٹھا پٹخ کی آوازیں آنے لگیں ،۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو ایک دو منٹ خوف زدہ نظروں سے دیکھتی رہیں پھر تیزی سے اس کمرے کی طرف بڑھیں ۔۔۔۔ ساتھ ساتھ معوزتین اور آیتالکرسی بھی پڑھنے لگی تھیں ۔۔۔ ابھی کمرے کے قریب پہنچی ہی تھیں کے ایک زور کی چر چراہٹ کے ساتھ کمرہ خود بخود کھل گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ اور پلنگ پر رسیوں میں جکڑی نبیلہ اپنی بڑی بڑٰی وحشت ناک آنکھوں سے دونوں کو گھور رہی تھی ۔۔۔۔۔

××××××××××××××××

وہ پولیس کی وردی میں ملبوس شخص مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔

اگر پولیس اپنے فرائض سے پہلو تہی کرے گی تو کسی نا کسی کو تو مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرنی ہی پڑے گی ۔۔۔

میں نے اس کے پوچھنے پر طنز یہ لہجے میں اس کی بات کا جواب دیا تھا ۔۔۔۔ تو ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ وہ مجھے دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔۔ مجھے اس کے اس طرح دیکھنے اور مسکرانے پر جھنجھلاہٹ ہونے لگی تھی ۔۔۔۔۔

جی بالکل آپ درست فرما رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن آپ شائد ہماری مجبوریوں کو نہیں سمجھ سکتیں ۔۔۔۔۔ بی بی جب ہاتھ بندھے ہوں ۔۔۔ اور آپ اپنی مرضی سے کسی کی بھی مدد کرنے سے قاصر ہوں تب جو کیفیت ہوتی ہے وہ بیان سے باہر ہے ۔۔۔۔۔

اگر ایسی بات ہے تو آپ کو یہ جاب چھوڑدینی چاہئیے ۔۔۔۔میں آپ کی جگہ ہوتی تو یہی کرتی ۔۔۔۔۔یا تو دیانت داری اور پوری ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دیتی یا پھر کالی وردی اُتار دیتی ۔۔۔۔۔

میں یہ کہکر وہاں سے جانے لگی تھی ۔۔۔۔۔ ابھی تھوڑی دور ہی گئی ہونگی کہ اچانک میرا سر گھومنے لگا تھا اور پھر ایک دم میں چکرا کر گر گئی تھی ۔۔۔۔۔

××××××××××××××××

چاہا تھا جسے اس سے وفا کر نہ سکا
پایا تھا جسے اس کا ہو نہ سکا

محبت کی راہ میں قربان ہونے چلا تھا
الفت کیا ہوتی ہے پر جان نہ سکا

خاموش وہ اپنے بڑے سے کمرے میں اپنی مخصوص روکنگ چئیر پر بیٹھے تھے ۔۔۔۔ پرانی یادیں ڈسنے لگی تھیں انہیں ۔۔۔ حوریہ کے سنگ بیتی یادیں ۔۔۔۔ پچھتاوے کی آگ میں جلتا وجود ۔۔ کیسے سامنا کر پائینگے وہ ۔۔۔ محبت کا دعواہ کیا تھا نا انہوں نے ۔۔۔۔ کتنے بڑے بڑے دعوے کئے تھے اس سے ۔۔۔ مرتے دم تک ساتھ نبھانے کی بات کی تھی انہوں نے ۔۔۔۔ مگر وقت آنے پر تمام وعدے وعید بُھر بُھرے کاغظ کی طرح ثابت ہوئے تھے ۔۔۔۔ غیر کی باتوں پر یقین کر کے اپنے کو غیر کردیا تھا ۔۔۔۔ اسے زندگی سے ہی نہیں نکالا تھا ۔۔۔بلکہ اس کو زندہ درگور کردیا تھا انہوں نے ۔۔ وہ اس سے ملنا چاہتے تھے مگر کس منہ سے اس کے سامنے جاتے ۔۔۔۔۔۔ کیا کہتے اسے ۔۔۔ کس منہ سے اس سے معافی مانگتے ۔۔۔۔ فاطمہ کا بھی خیال نہیں کیا تھا انہوں نے ۔۔۔۔ ماں سے جدا کر کے وہ اس وقت خود کو صحیح سمجھ رہے تھے ۔۔۔۔۔ انہیں یہ ظلم ظلم نہیں لگا تھا ۔۔۔۔۔۔ کتنے ظالم بن گئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ محبت کے گلے پر چھری پھیر کر جان نکال کر ۔۔۔ یہ کیسا عشق تھا کہ محبوب کے راستے میں خود کانٹے بچھا کر بھی اسے بے وفائی کا الزام دے ڈالا تھا ۔۔۔۔۔

یہی سوچیں انہیں اندر سے کچوکے لگا رہی تھیں ۔۔۔۔ جلا رہی تھیں ۔۔۔۔۔ بار بار وہ بڑی بڑی کالی چمکدار آنکھیں جو اس وقت برستے ساون کی طرح ہورہی تھیں یاد آرہی تھیں ۔۔۔۔ محبت انمول ہوتی ہے ۔۔۔۔ مگر ناقدری اسے بےمول کردیتی ہے ۔۔۔ اور وہ اپنے ہی ہاتھوں لُٹ چکے تھے ۔۔۔۔۔ سب کچھ گنوا چکے تھے ۔۔۔۔ جب وہ تکلیف دہ یادوں میں کھوئے ہوئے تھے تب ہی دروازے پر ہلکی سی مخصوص دستک ہوئی تھی ۔۔۔۔ چونک کر دیکھا تھا دروازے کی سمت ۔۔۔۔

اندر آجاؤ فاطمہ ۔۔۔۔

ان کی اجازت پر وہ اندر داخل ہوئی تھیں ۔۔۔۔ پر باپ کا دھواں دھواں چہرا دیکھ کر چونکی تھیں ۔۔۔۔۔

ابو جی آپ کی طبیعت ٹھیک ہے ۔۔۔۔ کیا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔

کچھ نہیں بیٹا کچھ بھی تو نہیں ہوا ہے ۔۔۔

زبردستی لبوں پر مسکراہٹ لائی تھی انہوں نے ۔۔۔ مگر چہرے پر چھائی ویرانی کو چھپا نہ سکے ۔۔۔۔

تم جانا چاہتی ہو کیا فاطمہ ۔۔۔۔

جی ۔۔۔۔ میں سمجھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ چونکی تھیں ۔۔۔ اجازت تو لینے آئی تھیں جانے کی ۔۔۔۔ مگر انہیں کیسے خبر ہوگئی تھی کہ وہ کہیں جانا چاہتی ہیں ۔۔۔ کہیں انہیں خبر تو نہیں ہوگئی تھی کہ وہ حوریہ سے یعنی اپنی ماں سے ملنے جانا چاہتی ہیں ۔۔۔۔

میں جانتا ہوں تم حوریہ سے ملنا چاہتی ہو ۔۔۔ اور باپ سے اجازت لینے آئی ہو ۔۔۔۔۔ میں تمہیں نہیں روکونگا۔۔۔ پہلے ہی تم ماں بیٹی پر بہت ظلم کئے ہیں ۔۔۔۔ مگر کیا میرا ایک پیغام اپنی ماں تک پہنچا سکتی ہو ۔۔۔۔

جی ابو جی ۔۔۔۔۔ مگر اگر آپ خود اپنے دل کی بات ان سے کرینگے تو مجھے بہت اچھا لگے گا۔۔۔۔

نہیں بیٹا ۔۔۔ اس کا سامنا کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے ۔۔۔ کس منہ سے اس کے سامنے جاؤنگا ۔۔۔۔۔ میں نے خود کو پاتال میں گرا دیا ہے ۔۔۔ اس قدر زمین میں دھنسا دیا ہے کہ اب ہمت ہی نہیں ۔۔۔۔ وہ معاف کردیگی مجھے پتہ ہے ۔۔۔۔ مگر میں خود کو اس کی معافی کا اہل نہیں سمجھتا ۔۔۔۔

وہ رو رہے تھے ۔۔۔ بیٹی کے سامنے اعتراف کر رہے تھے ۔۔۔ اور وہ پرنم آنکھوں سے اپنے باپ کی بےبسی کو دیکھ رہی تھیں ۔۔۔۔۔

××××××××××××××××××

مجھے جب ہوش آیا تو خود کو ایک بڑے سے کمرے کے بستر پر پڑے پایا ۔۔۔۔ میں غالباً زیادہ خون بہنے سے اور بھوک پیاس کی شدت سے بے ہوش ہوگئی تھی ۔۔۔۔ مگر اللہ جانے کون مجھے اُٹھا کر یہاں لے آیا تھا ۔۔۔۔ ہاتھ اُٹھانا چاہا تو ہاتھ پر کچھ محسوس ہوا تھا مجھے دیکھا تو کینولا لگا ہوا تھا ۔۔۔ نظر اُٹھا کر دیکھا تو ڈرپ کے اسٹینڈ پر نظر پڑ گئی ۔۔۔ مجھے آئی وی دی جارہی تھی ۔۔۔۔ نقاہت اب بھی مجھے محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔ کمرے میں اندھیرا تھا مگر سامنے دیوار پر لگی بڑی سی کھڑکی کے خوبصورت پردوں سے جھانکتی ننی کرنیں دن کا پتا دے رہی تھیں ۔۔۔۔ میں کچھ دیر تو یونہی پڑی رہی ۔۔۔ مگر پھر ایک دم اُٹھ بیٹھی تھی ۔۔۔۔ مگر اسی وقت دروازہ کھلا تھا ہلکی سی چرچراہٹ کے ساتھ ۔۔۔

وہ ایک عورت تھی ۔۔۔۔۔۔ جو اندر داخل ہوئی تھی ۔۔۔ مجھے یوں بیڈ پر بیٹھے دیکھ کر ٹھٹکی تھی ۔۔۔۔ پھر میری طرف بڑھی تھی ۔۔۔

ارے ابھی آپ لیٹی رہیں ۔۔۔۔ ڈرپ تو آدھی بھی نہیں ہوئی ہے ابھی ۔۔۔۔۔

آپ کون ہیں اور میں یہاں کیسے ۔۔۔۔

آپ بے ہوش ہوگئیں تھیں ۔۔۔۔ ذکی آپ کو لایا ہے ۔۔۔۔۔

وہ محبت سے میرے شانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اور واپس لٹا تے ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔

ذذ ذکی ۔۔۔۔۔

جی ۔۔۔۔۔ اب آپ لیٹی رہیں میں ذرا خالہ بی کو اور ذکی کو بتا تی ہوں کہ آپ کو ہوش آگیا ہے ۔۔۔۔

یہ کہہ کر وہ پلٹیں اور کمرے سے باہر نکل گئیں ۔۔۔۔۔

میں چپ چاپ لیٹی چھت پر لگے خوبصورت فانوس کو دیکھنے لگی تھی ۔۔۔۔ کچھ بھی سوچنے اور سمجھنے کی ہمت نہیں تھی اس وقت مجھ میں ۔۔۔۔۔ حالات مجھے کدھر لے آئے تھے کچھ خبر نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔ بار بار سنئیہ کا پریشان چہرا ذہن کی اسکرین پر ابھر رہا تھا ۔۔۔۔۔ میں جانتی تھی وہ پریشان ہوگی جب اسے میرے یوں گمشدہ ہونے کی خبر ملے گی ۔۔۔ ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ پھر سے دروازہ کھلا تھا ۔۔۔۔ اور کسی کے بھاری قدموں کی آواز پر چو نک کر نظر اٹھا کر دیکھا تھا ۔۔۔۔۔

کیسی ہیں اب آپ ۔۔۔۔۔

میں اس کی بات پر اسے جواب دینے کی بجائے خالی الاذہن دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔

وہ وہی آفیسر تھا جس سے میری بات ہوئی تھی ۔۔۔۔۔

میں آپ کا نام جان سکتا ہوں ۔۔۔۔ کون ہیں آپ ۔۔۔۔۔

وہ تفتیشی انداز میں مجھ سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔ اور میں کچھ لمحے چپ رہ کر خود کو سمیٹنے لگی تھی ۔۔۔۔

بی بی میں نے کچھ پوچھا ہے آپ سے ۔۔۔۔۔

وہ پھر بولا تھا ۔۔۔۔۔

ارے ذکی گھر میں تو اپنی پولیس گردی سے باز رہو ۔۔۔۔

اس عورت نے اس پولیس آفیسر کو ڈانٹا تھا ۔۔۔۔

چندہ پھو پھو پلیز ۔۔۔۔۔

ارے کیا پلیز بھئی ۔۔۔۔ دیکھ نہیں رہے ہو ۔۔۔ ابھی ہوش آٰیا ہے بچی کو اور تم شروع ہوگئے ۔۔۔۔

پھو پھو پلیز مجھے ان خاتون سے پوچھنے تو دیں ۔۔۔۔۔

نائلہ ۔۔۔۔۔

وہ آپس میں بحث کر رہے تھے کہ میرے بولنے پر میری طرف دیکھا تھا ۔۔۔۔۔ تو میں انہیں اپنی طرف متوجہ پاکر دوبارہ سے اپنے لب وا کئے تھے ایک جھوٹ بولنے کے لئے ۔۔۔۔۔ ایک نئی شناخت ایک نیا نام ۔۔۔۔ اب کی بار بہت اعتماد کے ساتھ شاید خود کو بھی باور کرایا تھا ۔۔۔۔

میرا نام نائلہ اسفند ہے ۔۔۔

×××××××××××××××

باقی آئندہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

farah ejaz
About the Author: farah ejaz Read More Articles by farah ejaz: 146 Articles with 230343 views My name is Farah Ejaz. I love to read and write novels and articles. Basically, I am from Karachi, but I live in the United States. .. View More