تحریر:کلیم اﷲ خان لودھی
بہترین انتظامی اقدامات جہاں ریاستی امور کی انتہائی احسن انداز میں سر
انجام دہی کیلئے زبردست مدد گار ثابت ہوتے وہیں ۱ٓئین کی بالا دستی، قانون
کی سربلندی،انسانی، اخلاقی، معاشرتی روایات کی پاسداری کے ساتھ ساتھ گڈ
گورننس کے فروغ سے حکومتوں اور اداروں کو کئی مسائل سے بچاتے ہوئے انکی
پیشہ وارانہ کاکردگی میں اضافہ کے علاوہ میرٹ کے تقدس کی بحالی میں بھی ممد
و معاون ثابت ہوتے ہیں جن کے ذریعے نہ صرف مختلف قباحتوں سے بچا جاسکتا ہے
بلکہ اس امر کو بھی دوام بخشا جاسکتا ہے کہ صرف اہلیت و قابلیت ہی انسانی
ترقی کا زینہ ہے جس سے ایک طرف مسابقت و مقابلہ بازی کے رجحان اور محنت کی
عظمت کو جلا ملے گی اور دوسری جانب معاشرے سے کسی بھی قسم کی کرپشن کے
دروازے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کئے جاسکتے ہیں کیونکہ مہذب معاشروں میں یہی
قانون لاگو ہے۔اگرچہ خادم اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف سختی سے گڈ
گورننس کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں تاہم اس کے باوجود افسر شاہی کے کچھ مہرے
بعض اوقات انکی ۱ٓنکھوں میں بھی دھول جھونکنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور ان
سے حقائق چھپاتے ہوئے انہیں اصل حالات سے ۱ٓگاہی فراہم نہیں کی جاتی اور نہ
ہی مجوزہ رولز کو پیش نظر رکھا جاتا ہے جس سے حقیقی اہل افراد کی حوصلہ
شکنی ہوتی ہے اور بعدازاں انہیں اعلیٰ عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے
جس سے کئی انتظامی مسائل جنم لیتے ہیں اور بسا اوقات ارباب اختیار کو بھی
سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یوں تو گا ہے بگاہے میرٹ پالیسی کی خلاف ورزی
کی کئی داستانیں منظر عام پر ۱ٓتی رہتی ہیں لیکن حال ہی میں اعلیٰ تعلیم،
تدریس، تحقیق کے ادارے یونیورسٹی ۱ٓف سرگودھا میں وائس چانسلر کی خلاف
قانون اور میرٹ سے ہٹ کر تقرری نے بھی کئی خدشات، تحفظات اور شکوک و شبہات
کو جنم دیا ہے جس سے جہاں مذکورہ ادارہ میں تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہورہی
ہیں وہیں سنگین انتظامی مسائل کا بھی سامنا ہے۔اس ضمن میں تفصیلات کچھ یوں
ہیں کہ مارچ 2015 ء میں سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب لاہور کی
جانب سے صوبہ پنجاب کی 10 یونیورسٹیز بشمول گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور،
یونیورسٹی ۱ٓف ایجوکیشن لاہور،یونیورسٹی ۱ٓف سرگودہا، بی زیڈ یو ملتان،ایف
جے وومن یونیورسٹی راولپنڈی، لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی
لاہور،گورنمنٹ صادق کالج وومن یونیورسٹی بہاولپور،دی غازی یونیورسٹی ڈیرہ
غازیخان، محمد نواز شریف یونیورسٹی ۱ٓف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ملتان اور
خواجہ فرید یونیورسٹی ۱ٓف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی رحیم یار خان
میں وائس چانسلرز کی خالی ۱ٓسامیوں پر تقرری کیلئے 28 اپریل 2015 ء تک اہل
ماہرین تعلیم سے درخواستیں طلب کی گئیں۔ کئی قومی اردو و انگریزی اخبارات
میں شائع ہونیوالے ان اشتہارات میں واضح طور پر اہلیت کی شرائط تحریر کی
گئیں ور ان میں کہا گیا کہ امیدوار کو پی ایچ ڈی، ایچ ای سی کی ریکگنائزڈ
یونیورسٹی میں تدریس کا کم از کم 12 سالہ تجربہ،فل پروفیسر کے طور پر
ٹیچنگ، کم از کم 15 ریسرچ پیپرز کی پبلیکیشن جن میں کم از کم 5 گزشتہ 5سال
میں شائع ہونا اور نتظامی و فنانشل مینجمنٹ کا 10 سالہ تجربہ شامل ہے مانگا
گیا۔اس اشتہار کی روشنی میں جہاں اور کئی ماہرین تعلیم نے درخواستیں گزاریں
وہیں قائداعظم یونیورسٹی اسلام ۱ٓباد کے انٹرنیشنل ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ میں
بطور ٹنیور ٹریک ایسوسی ایٹ پروفیسر تعینات ڈاکٹر اشتیاق احمد نے بھی
درخواست جمع کروائی۔اسی اثناء میں ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی جانب
سے جاری کئے گئے نوٹیفکیشن نمبر No.SO(Univ)5-3/09 میں وائس چانسلرز کی
تقرری کے ضمن میں تعلیمی، تدریسی، تحقیقی،انتظامی تجربہ اور اہلیت و قابلیت
سمیت انٹرویو کے نمبرز کی تفصیلات جاری کردی گئیں۔نوٹیفکیشن کے مطابق پی
ایچ ڈی کی صورت میں 20 نمبرز،ٹاپ 500 یونیورسٹیز میں سے کسی ایک سے پی ایچ
ڈی کی صورت میں مزید 5 نمبر،15 سالہ تدریسی/ٹیچنگ تجربہ کے 10 نمبر،ریسرچ
پبلیکیشنز کے 10 نمبر، 10 سالہ انتظامی تجربہ کے15 نمبر، 8 سالہ انتظامی
تجربہ کے 7.5نمبر اور انٹرویو کے 40 نمبر مقرر کئے گئے۔ریکروٹمنٹ پالیسی
برائے وائس چانسلرز میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ تعلیم، تدریس، تحقیق،
انتظامی و معاشی مینجمنٹ کے تجربہ کے مقر کردہ کل 60 نمبرز میں سے 45 نمبر
حاصل کرنیوالے امیدواروں کو ہی شارٹ لسٹ کیا جائیگا۔اس اشتہار کے پیش نظر
ڈاکٹر اشتیاق احمد نے بھی یونیورسٹی ۱ٓف سرگودھا کی وائس چانسلر شپ کیلئے
درخواست جمع کروادی جنکے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ نہ صرف مذکورہ عہدہ
کیلئے اپلائی کرنے کے اہل ہی نہ تھے بلکہ انکی قائداعظم یونیورسٹی اسلام
۱ٓباد میں بطورٹنیور ٹریک ایسوسی ایٹ پروفیسر تقرری بھی غیر قانونی تھی اور
اس میں بھی مقررہ رولز اینڈ ریگولیشنز و میرٹ پالیسی کی صریحاً خلاف ورزی
کی گئی۔ قائداعظم یونیورسٹی اسلام ۱ٓباد میں بطورٹنیور ٹریک ایسوسی ایٹ
پروفیسر انکی تقرری سال 2007 ء میں کی گئی حالانکہ اس وقت ماڈل ٹنیور ٹریک
سٹیٹس ورشن ٹو سا ل 2008 ء کے تحت شرط یہ تھی کہ امیدوار کے 10 ریسرچ
پبلیکیشنزکی اشاعت ہونا چاہئے جن میں سے کم از کم 4 کی اشاعت گزشتہ 5 سال
میں ضروری ہے مگر اس و قت انکے پاس صرف 4 ریسرچ پیپرز تھے لیکن پھر بھی
قائداعظم یونیورسٹی اسلام ۱ٓباد کی انتظامیہ نے انہیں کس طرح ٹنیور ٹریک
ایسوسی ایٹ پروفیسر تعینات کیا یہ ابھی تک ایک سوالیہ نشان ہے حالانکہ ہائر
ایجوکیشن کمیشن ۱ٓف پاکستان نے اپنے لیٹر نمبر
No.AD(QA)/HEC/QAU/TTS.102/03/44/337 بتاریخ 15 جون 2015 ء میں اسکی
نشاندہی بھی کردی۔یہی نہیں بلکہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام ۱ٓباد میں
بطورٹنیور ٹریک ایسوسی ایٹ پروفیسر اپنی تقرری کے بعد موصوف نے مقررہ 4 سال
کا عرصہ تعیناتی بھی پورا نہیں کیااور سراسر نا جائز و غیر قانونی طور
پرپوسٹ ڈاکٹریٹ کی ۱ٓڑ میں برطانیہ چلے گئے۔اس ضمن میں مروجہ قواعد و ضوابط
کے مطابق انہیں صرف ایک سال کی چھٹی کا اختیار حاصل تھا مگر وہ 5 سال 2010ء
سے2015ء تک بیرون ملک رہنے کے بعد وطن واپس لوٹے جو صریحاً ناجائز و غیر
قانونی اقدام تھا۔اس ماڈل ٹنیور ٹریک سٹیٹس ورشن ٹو سا ل 2008 ء کے تحت
قوانین کی خلاف ورزی پر ہا ئر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب اور قائد اعظم
یونیورسٹی انتظامیہ اسلام ۱ٓباد کو انہیں فوری برطرف کردینا چاہئے تھا مگر
نامعلوم وجوہ کی بناء پر ایسا نہ کیا گیا۔قصہ مختصرپی ایچ ڈی کی صورت میں
20 نمبرز،ٹاپ 500 یونیورسٹیز میں سے کسی ایک سے پی ایچ ڈی کی صورت میں مزید
5 نمبر،15 سالہ تدریسی/ٹیچنگ تجربہ کے 10 نمبر،ریسرچ پبلیکیشنز کے 10 نمبر،
10 سالہ انتظامی تجربہ کے15 نمبر، 8 سالہ انتظامی تجربہ کے 7.5نمبرکی
پالیسی کی روشنی میں وائس چانسلر یونیورسٹی ۱ٓف سرگودھا کی خالی ۱ٓسامی پر
سلیکشن کے پہلے مرحلہ میں ڈاکٹر اشتیاق احمد کو پی ایچ ڈی کے 20 نمبر،پی
ایچ ڈی فرام ٹاپ 500 یونیورسٹیز کی مد میں زیرو نمبر،ٹیچنگ کے تجربہ کے نام
پر 10 نمبر،ریسرچ پبلیکیشن کے نام پر 4 نمبر اور ایڈ منسٹریٹو ایکسپیرینس
کے نام پر 15 میں سے زیرو نمبر دیا گیا اس طرح انہوں نے کل 60 میں سے 34
نمبر حاصل کئے ۔یہاں انتہائی اہم امر یہ ہے کہ جب مطلوبہ اہلیت کے مطابق
انکے نہ تو 60 میں سے مطلوبہ 45 نمبر تھے، وہ نہ فل پروفیسر تھے،نہ انکے
پاس ریسرچ پیپرز پبلیکیشنز تھیں،نہ ایک بھی دن کا انتظامی امور اور فنانشل
مینجمنٹ کا تجربہ تھا تو پھر انہیں وائس چانسلر یونیورسٹی۱ٓف سرگودھا کیلئے
شارٹ لسٹ ہی نہ کیا جاسکتا تھا مگر پھر بھی اس وقت کے سیکرٹری ہائر
ایجوکیشں ڈیپارٹمنٹ پنجاب لاہور نے نہ صرف غیر مرعی دباؤ کے پیش نظر انہیں
شارٹ لسٹ کیا بلکہ بعدازاں سرچ کمیٹی کے بعض ارکان کی معاونت سے انکی تقرری
میں بھی معاونت کی۔ممتاز ماہر قانون حسنین رضا باروی ایڈووکیٹ کی جانب سے
اس سلسلہ میں وائس چانسلر سرگودھا یونیورسٹی ڈاکٹر اشتیاق احمد کی تقرری
کالعدم قرار دینے کیلئے وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف، گورنر پنجاب و
چانسلر یونیورسٹی ۱ٓف سرگودہا ملک محمد رفیق رجوانہ، صوبائی وزیر ہائر
ایجوکیشن پنجاب رضا علی گیلانی ،سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب،
چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن پنجاب اوردیگر ارباب اختیار کو دی گئی درخواست
میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سابق سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب
لاہور عرفان علی کے دور میں میرٹ اور قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے
ڈاکٹر اشتیاق احمد کو وائس چانسلر کے عہدہ کیلئے شارٹ لسٹ کیا گیااور
بعدازاں سر چ کمیٹی نے اہل امیدواروں کی موجودگی کے باوجود انہیں وائس
چانسلر لگانے کی سفارش بھی کر دی ۔انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر اشتیاق احمد کی
قائداعظم یونیورسٹی اسلام ۱ٓباد میں بطورٹنیور ٹریک ایسوسی ایٹ پروفیسرغیر
قانونی تقرری پر قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی سنڈیکیٹ میں 18 جنوری
2015ء کو رپورٹ بھی پیش کی جا چکی ہے جس میں ان کی تقرری کو غیر قانونی
قرار دیا گیا تھا۔موصوف کے بارے میں مزید معلوم ہوا کہ سرچ کمیٹی کے سربراہ
سید بابر علی اور پاکستان میں یوایس ایڈ کے سابق عہدیدار ڈاکٹر ظفر اقبال
قریشی نے ذاتی پسند کی بنیاد پر فیور بھی فراہم کی۔علاوہ ازیں سرچ کمیٹی نے
وزیراعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف کو موصوف کی اہلیت کے متعلق لاعلم
رکھا۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے
13 فروری 2016 ء کو لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی لاہور، یونیورسٹی
۱ٓف سرگودھا، پنجاب یونیورسٹی لاہوراور محمد نواز شریف یونیورسٹی ۱ٓف
انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ملتان سمیت 4 یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر تقرری
کیلئے 12 امیدواروں کے ایوان وزیر اعلیٰ پنجاب لاہور میں انٹرویو کئے جس
میں سرچ کمیٹی کے سربراہ سید بابر علی کے سوا باقی ممبران ڈاکٹر عائشہ غوث
پاشاصوبائی وزیر خزانہ پنجاب، ڈاکٹر ظفر اقبال قریشی ۱ٓف لمز، ڈاکٹر محمد
نظام الدین چیئرپرسن ہا ئر ایجوکیشن کمیشن پنجاب اور سیکرٹری ہائر ایجوکیشن
ڈیپارٹمنٹ پنجاب لاہور عرفان علی بھی موجود تھے۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ
پنجاب نے فرداً فرداً ہر یونیورسٹی کیلئے تین تین امیدواروں کے پینلز کا
انٹرویو کیا جس میں یونیورسٹی ۱ٓف سرگودھا کیلئے تین امیدوار پروفیسر ڈاکٹر
طاہر کامران،ڈاکٹر اشتیاق احمد اور پروفیسر ڈاکٹر ظفر معین ناصر پیش
ہوئے۔مذکورہ پینل میں سے پروفیسر ڈاکٹر طاہر کامران نے کل 100 میں سے 83
نمبر،ڈاکٹر اشتیاق احمدنے 82 نمبر اور پروفیسر ڈاکٹر ظفر معین ناصر نے 80
نمبر حاصل کئے۔اس طرح تمام تر لوازمات پورے کئے جانے کے بعد پہلی پوزیشن پر
۱ٓنیوالے پروفیسر ڈاکٹر طاہر کامران کو وائس چانسلر مقرر کیا جانا تھا مگر
نامعلوم وجوہ کی بناء پر میرٹ کے تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے محکمہ
ہائرایجوکیشن پنجاب نے وائس چانسلر تقرری کیس کے عدالتی فیصلے کے فور اً
بعد مئی میں ڈاکٹر اشتیاق احمدکو وائس چانسلر تعینات کرنے کا نوٹیفکیشن
جاری کر دیا۔ماہر قانون حسنین رضا باروی کی جانب سے صوبائی وزیر ہائر
ایجوکیشن پنجاب سید رضا علی گیلانی و دیگر حکام کو وائس چانسلر سرگودھا
یونیورسٹی ڈاکٹر اشیاق احمد کی اہلیت کے متعلق تمام تر ثبوت مہیا کئے جاچکے
ہیں جس پر جلد انکوائری کا امکان ہے ۔ دریں اثناء سرگودھا یونیورسٹی کے
اساتذہ نے گورنر ووزیراعلی پنجاب سے مطالبہ کیا ہے کہ حقائق چھپانے اور
قواعد کے برعکس اقدامات پر سابق سیکرٹری ہائر ایجوکیشن اورممبران سرچ کمیٹی
کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جائے اور میرٹ کے خلاف تقرری پر موصوف
کو ان کے عہدہ سے برطرف کیا جائے ۔ انہوں نے وائس چانسلر کے عہدہ کیلئے جمع
کرائی جانے والی درخواست میں غلط بیانی پر بھی ان کے خلاف سخت کارروائی کا
مطالبہ کیا ہے۔دریں اثناء درخواست گزار ماہر قانون حسنین رضا باروی کا کہنا
ہے کہ اگر میرٹ سے ہٹ کر تعینات ہونے والے وائس چانسلر سرگودھا یو نیو رسٹی
کو فوری انکے عہدہ سے نہ ہٹایا گیا تو وہ انکی خلاف ضابطہ تقرری کو لاہور
ہائیکورٹ میں چیلنج کریں گے۔ |