جب زندگی شروع ہوئی۔۔۔۔۔ حصہ ١۳

اب آپ حضرات کے سامنے اس تحریر کا وہ حصہ پیش کیا جارہا ہے جو بہت اہمیت کا حامل ہے، آپ اسے نہ صرف بغور پڑھیے بلکہ اس بات کو بھی یاد رکھیے کہ آخرت ہی آپکی آخری منزل ہے اللہ ہمیں اپنے کاموں میں لگائے اور دین کو سمجھنے کی اور اس پر عمل کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین

چھٹا باب: آج بادشاہی کس کی ہے ؟

ہم کچھ دور آگے چلے تو ایک عجیب منظر دیکھا۔ ایک آدمی اپنا سر ہاتھوں میں لیے چلا آ رہا ہے ۔ اس کی دونوں ٹانگیں تو سلامت تھیں، مگر دھڑ کی جگہ گوشت کے لوتھڑ ے لٹک رہے تھے ۔ یہ آدمی ایک عجیب الخلقت بد وضع سی مخلوق محسوس ہوتا تھا۔ مجھے اسے دیکھ کر سخت کراہیت ہوئی۔ صالح نے اس عجیب الخلقت مکروہ وجود کو دیکھا تو مجھے بتایا: ’’یہ تمھارے زمانے کی چیز ہے ۔ یہ ایک خود کش حملہ آور ہے ۔ اس کی وجہ سے کئی معصوم اور بے گناہ مسلمان شہری مارے گئے تھے ۔ تمھارے زمانے کے مسلمان اخلاقی اور علمی طور پر پست ترین مقام پر تھے ۔ مگر ان کے لیڈر ان کی خامیاں دور کرنے کے بجائے ان کی مغلوبیت کا سارا الزام غیر مسلم طاقتوں پر ڈال دینے کے عادی تھے ۔ حالانکہ غیر مسلموں کا تسلط تواللہ تعالیٰ کی مسلط کردہ ایک سزا تھی۔ مسلمانوں کا اصل کام غیر مسلموں تک دین کی دعوت پہنچانا تھا، مگر جب مسلمان اس ذمہ داری سے غافل ہوئے تو خدا نے سزا کے طور پر غیر مسلموں کو ان پر غلبہ دے دیا۔ بجائے اس کے کہ مسلمان توبہ کرتے اور ایمان و اخلاق، دعوت و انذار اور علم اور اصلاح کا راستہ اختیار کرتے ، وہ غیر مسلموں کی فوجی کاروائیوں کے ردعمل میں ان سے ایک مستقل جنگ چھیڑ بیٹھے ۔ ظاہر ہے کہ شکست تو علمی اور اخلاقی طور پر پست قوم کا مقدر ہوتی ہی ہے ۔ چنانچہ یہی تم لوگوں کے ساتھ ہوا۔ مگر اس کے بعد بھی تمھاری قوم نے توبہ نہیں کی بلکہ خود کش حملہ آور پہلے غیر مسلموں کو نشانہ بنانے لگے ۔ پھر بے گناہ مسلمانوں ، معصوم انسانوں اور اس کے ساتھ ان علما کو جو ان خود کش حملوں کو برا کہتے تھے ، ان بدبختوں نے انھیں مسجدوں اور ان کے گھروں میں گھس کر نشانہ بنانا شروع کر دیا اور اس کے بعد۔ ۔ ۔ ‘‘
میں نے صالح کے ان سخت کلمات پر اس کی بات کاٹ کر کہا:
’’مگر یہ لوگ تو جو کچھ کر رہے تھے ، اخلاص نیت سے اور اللہ تعالیٰ کے لیے کر رہے تھے ۔ یہ بہرحال اجر کے مستحق تو ہیں۔‘‘
’’غلط فیصلے پر نیت کا اجر اجتہادی معاملات میں ہوتا ہے ۔ مگر جہاں پروردگار عالم اور اس کے رسول نے اپنا منشا صاف ترین الفاظ میں واضح کر دیا ہو، وہاں محض اپنے جذبات میں آ کر جرائم کا ارتکاب کرنا انسان کو خدا کے احتساب سے نہیں بچا سکتا۔ کسی انسان یا مسلمان کا قتل اور خودکشی کی سزا تو خود قرآن و حدیث میں بیان ہوگئی تھی۔

کیا ان لوگوں نے قرآن مجید میں نہیں پڑ ھا تھا کہ جس نے کسی انسان کو قتل کیا بغیر اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا ملک میں فساد برپا کیا ہو، تو گویا اس نے سب کو قتل کیا، اور جس نے اس کو بچایا تو گویا سب کو بچایا۔ اور یہ کہ کسی مؤمن کے لیے روا نہیں کہ وہ کسی مؤمن کو قتل کرے مگر یہ کہ غلطی سے ایسا ہوجائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو کوئی کسی مسلمان کو عمداً قتل کرے گا تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے ایک عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے ۔

اور رسول اللہ کا یہ فرمان بھی کیا انہیں معلوم نہ تھا کہ جس نے اپنے آپ کو کسی لوہے سے قتل کیا تو وہ لوہا اس کے ہاتھ میں ہو گا کہ (بطور سزا) جہنم کی آگ میں اس سے اپنے پیٹ کو مارے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور جس نے اپنے آپ کو زہر پی کر قتل کیا تو وہ زہر اس کے ہاتھ میں ہو گا کہ (بطورِ سزا) جہنم کی آگ میں اس کے گھونٹ بھرے ۔‘‘
’’یہ سب ٹھیک ہے مگر پھر بھی یہ ان کی اجتہادی غلطی تھی۔ کیونکہ یہ لوگ جن مسلمان سپاہیوں ، عوام اور علما کو مارتے تھے انہیں کافر اور دشمن حق سمجھ کر مارتے تھے ۔ ان کی نیت تو ٹھیک تھی۔‘‘
’’تم عجیب باتیں کر رہے ہو۔ بالفرض اگر کوئی شخص مجرم بھی ہے تب بھی خدا کی شریعت میں یہ طے ہے کہ مجرم کو سزا صرف عدالتی کاروائی کے ذریعے ہی سے دی جا سکتی ہے ۔ اس سزا پر عمل صرف حکومت وقت کرسکتی ہے ۔ عدالت اور حکومت بھی یہ سب صرف اپنے ہی مسلمہ دائرہ عملداری میں کرسکتی ہے ۔ اس کے علاوہ اگر کسی اور نے یہ سزا کسی کو سنانے اور نافذ کرنے کی کوشش کی تو پھر یہ فساد فی الارض تھا، جس کی سخت ترین سزا قرآن پاک میں بیان ہوئی تھی۔‘‘
صالح کی بات یہیں تک پہنچی تھی کہ وہ خود کش حملہ آور قریب آ گیا اور صالح سے بولا:
’’کیا تم مجھے اس شخص کا پتہ بتا سکتے ہو جس نے مجھے اس حال میں پہنچایا؟‘‘
صالح نے ایک سمت اشارہ کر کے کہا:
’’دیکھو وہ رہا وہ شخص جس نے تمھیں اس کام پر تیار کیا تھا۔ جس نے تمھیں دھوکہ دیا۔ تم سے بے گناہ انسانوں اور مسلمانوں کے قتل کا بدترین جرم کرایا۔‘‘
یہ سنتے ہی یہ خود کش حملہ آور بھاگتا ہوا اس آدمی کی سمت گیا۔ اس کے قریب پہنچ کر اس نے اپنا سر ایک طرف پھینکا اور دونوں ہاتھوں سے اس کا گلا پکڑ کر دبانے لگا۔ ساتھ ہی اس کے قریب پڑ ے سر سے آواز بلند ہورہی تھی۔ بدبخت تو نے مجھے بھی برباد کیا خود بھی برباد ہوا۔ میں تجھے نہیں چھوڑ وں گا۔ میں تجھے نہیں چھوڑ وں گا۔ زمین میں گرا شخص اذیت سے تڑ پ رہا تھا، مگر وہ خود کو اس حملہ آور کی گرفت سے چھڑ انے میں کامیاب نہیں ہورہا تھا۔ دوسرے لوگ اپنی پریشانی وقتی طور پر بھول کر یہ تماشہ دیکھنے کے لیے کھڑ ے ہوگئے ۔
صالح نے اس صورتحال پر تبصرہ کیا:
’’ایسے تماشے اس وقت میدان حشر میں جگہ جگہ ہورہے ہیں ۔ پیروکار اپنے لیڈروں کو، اصاغرین اپنے اکابرین کو، عقیدت مند اپنے علما اور درویشوں کو اسی طرح پیٹ رہے ہیں ۔ اپنا غصہ نکال رہے ہیں ۔ مگر اب کیا فائدہ! ہاں ، مگر اس عمل میں پریشان اور افسردہ حال لوگوں کو ایک طرح کا تماشہ ضرور دیکھنے کو مل جاتا ہے ۔‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اس تماشے نے کچھ دیر کے لیے ہماری توجہ بھی اپنی طرف مبذول کرالی، مگر پھر صالح مجھے لے کر آگے بڑ ھنے لگا۔ راستے میں میں نے صالح سے کہا: ’’میں تو یہ سوچ کر پریشان ہوں کہ دنیا میں کچھ دیر کی لوڈ شیڈنگ اور گرمی سے ہماری حالت انتہائی ابتر ہوجاتی تھی۔ اور یہاں تو اتنا طویل عرصہ ہو چکا ہے مگر لوگوں کو اس مصیبت سے نجات نہیں مل رہی۔ تمھارے ساتھ کی وجہ سے مجھے تو یہاں کے مصائب و شدائد بالکل محسوس نہیں ہورہے ، مگرجو لوگ یہاں ہیں ان کے ساتھ تو واقعی بہت برا معاملہ ہورہا ہے ۔‘‘
’’اپنے الفاظ کی تصحیح کر لو۔ برا نہیں ہورہا عدل ہورہا ہے ۔ ہاں معاملہ بلاشبہ شدید ہے اور اسی وجہ سے ساری مخلوقات نے اختیار اور اقتدار کے اس بارِ امانت کو اٹھانے اور سزا جزا کے اس کڑ ے امتحان میں کھڑ ے ہونے سے انکار کر دیا تھا۔‘‘

’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ عام لوگوں کے ساتھ اتنی مشکل ہے تو جن لوگوں نے سارے انسانوں کی طرف سے اقتدار اور اختیار کا بار اٹھایا ان کے ساتھ کیا ہوا ہو گا۔ میرا اشارہ ظالم حکمرانوں اور بددیانت اہلکاروں کی طرف تھا۔‘‘
’’دیکھنا چاہتے ہو کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے ؟‘‘

میں نے اثبات میں گردن ہلائی۔ صالح ایک سمت بڑ ھتے ہوئے بولا:
’’ ابھی تک ہم صرف اس علاقے میں گھوم رہے تھے ، جہاں وہ لوگ تھے جن کا حساب کتاب ہونا ہے ۔ جس طرح سابقین کا معاملہ ہے کہ وہ عرش کے نیچے خدا کے انعامات میں کھڑ ے ہیں اور ان کا حساب کتاب نہیں ہونا صرف رسمی طور پر ان کی کامیابی کا اعلان ہونا ہے ، اسی طرح کچھ بدبخت ہیں جن کی بد اعمالیوں کی بنا پر ان کی جہنم کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہے ۔ہم انہی کی سمت چل رہے ہیں ۔‘‘

ہم جیسے جیسے آگے بڑ ھ رہے تھے گرمی کی حدت اور شدت بہت تیزی سے بڑ ھتی جا رہی تھی۔ مجھے اس کا اندازہ اس بڑ ھتے ہوئے پسینے سے ہوا جو لوگوں کے جسم سے بہہ رہا تھا۔ لوگوں کے جسموں سے پسینہ قطروں کی صورت میں نہیں بلکہ دھار کی شکل میں بہہ رہا تھا، مگر زمین اتنی گرم تھی کہ یہ پسینہ تپتی زمین پر گرتے ہی اس میں جذب ہوجاتا۔ پیاس کے مارے لوگوں کے ہونٹ باہر نکل آئے تھے اور وہ کسی تونس زدہ اور پیاسے اونٹ کی طرح ہانپ رہے تھے ، مگر پانی کا یہاں کیا سوال؟

ان کے چہروں پر پریشانی سے کہیں زیادہ خوف کے سائے تھے ۔ یہ خوف کس چیز کا تھا یہ بھی تھوڑ ی ہی دیر میں معلوم ہو گیا۔ اچانک لوگوں کے درمیان ایک عجیب ہلچل مچ گئی۔ لوگ ادھر ادھر بھاگنے لگے ۔ مجمع چھٹا تو دیکھا کہ ایک آدمی کے پیچھے دو فرشتے دوڑ رہے ہیں ۔ یہ ویسے ہی فرشتے تھے جیسے عرش کے سائے کی طرف جاتے ہوئے ہمیں نظر آئے تھے ۔ ایک کے ہاتھ میں آگ کا کوڑ ا تھا اور دوسرے کے ہاتھ میں ایسا کوڑ ا تھا جس میں کیلیں نکلی ہوئی تھیں ۔

وہ آدمی ان سے بچنے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہا تھا، مگر یہ فرشتے اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے تھے ۔ مجھے محسوس ہوا کہ فرشتے جان بوجھ کر اسے تھکا رہے ہیں ۔ وہ اس کے قریب پہنچ کر اسے ایک کوڑ ا مارتے اور کہتے جا رہے تھے کہ اے حکمران اٹھ اور اپنی مملکت میں چل۔ کوڑ ا پڑ تے ہی وہ شخص چیختا چلاتا گرتا پڑ تا بھاگنے لگتا۔ پھر وہ فرشتے اس کے پیچھے دوڑ نے لگتے ۔

مجھے ان موصوف کا تعارف حاصل کرنے کے لیے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑ ا۔ صالح نے خود ہی بتا دیا:
’’یہ تمھارے ملک کے سربراہ مملکت ہیں ۔‘‘

کچھ ہی دیر میں سربراہ مملکت آگ اور کیلوں والے کوڑ ے کھا کر زمین بوس ہو چکے تھے ۔ جس کے بعد فرشتوں نے انہیں ایک لمبی زنجیر میں باندھنا شروع کیا جس کی کڑ یاں آگ میں دہکا کر سرخ کی گئی تھیں ۔ سربراہ مملکت بے بسی سے تڑ پ رہے اور رحم کی فریاد کر رہے تھے ، مگر ان فرشتوں کو کیا معلوم تھا کہ رحم کیا ہوتا ہے ۔ وہ بے دردی سے انہیں باندھتے رہے ۔ جب ان کا پورا جسم زنجیروں سے جکڑ گیا تو اتنے میں کچھ اور فرشتے آ گئے ۔ پہلے فرشتے ان سے بولے : ’’ہم نے سربراہ مملکت کو پکڑ لیا ہے ۔ تم جاؤ اور ان کے سارے حواریوں ، درباریوں ، خوشامدیوں اور ساتھیوں کو پکڑ لاؤ جو اس بدبخت کے ظلم اور بدعنوانی میں شریک تھے ۔‘‘

چنانچہ مجمع میں بڑ ے پیمانے پر وہی ہلچل، بھاگ دوڑ اور مارا پیٹی شروع ہوگئی۔ تھوڑ ی ہی دیر میں ایک گروہ کثیر جس میں وزرا، مشیر، بیوروکریٹ، وڈیرے ، جاگیردار، سرمایہ دار اور ہر طرح کے ظالم جمع تھے ، گرفتار ہو گئے ۔ اس کے بعد ان فرشتوں نے سب کو سر کے بالوں سے پکڑ کر چہرے کے بل گھسیٹنا شروع کر دیا۔ وہ ہمارے قریب سے گزرے تو ان کی کھالوں کے جلنے کی بدبو ہر طرف فضا میں بکھری ہوئی محسوس ہوئی۔ اس بدبو کا احساس ہوتے ہی صالح نے میری کمر پر ہاتھ رکھا تو میری جان میں جان آئی۔ وہ ان کو ہمارے سامنے سے کھینچتے ہوئے مزید بائیں جانب لے گئے ۔ میں ان کے گھسیٹے جانے کے سبب بن جانے والی لکیروں اور ان پر پڑ ے خون کے ان دھبوں کو دیکھتا رہا جو ان کے جسموں سے رس رہا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنے ذہن کو تھوڑی تکلیف ضرور دیجیے گا۔۔۔۔۔ کہ ہمارا دین کیا کہتا ہے اور ہم کیا کر رہے ہیں ہمیں جانا کہاں ہے اور اس کے لیے ہم نے کیا کر کے رکھا ہے۔۔۔
Owais
About the Author: Owais Read More Articles by Owais: 27 Articles with 26507 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.