حضرت داؤد علیہ السلام کا زمانہ تھا جب ایک شریف النفس
اور کمزور آدمی اپنے رب سے اکثر یہ دعا مانگا کرتا تھاکہ وہ محنت و مشقت کے
قابل نہیں رہا، اُسے غیب سے روزی ملتی رہے، اُس کی یہ دعا تمام لوگوں کے
علم میں تھی، لوگ اُسے کہتے کہ اﷲ نے تجھے ہماری طرح ہاتھ اور پاؤں عطاء
کیے ہیں پھر تو محنت کے بغیر کیوں رزق مانگتا ہے، لوگ حضرت داؤد علیہ
السلام کی مثال دیتے کہ وہ پیغمبر خدا ہیں اور اﷲ نے اُنہیں خوش الحانی بھی
عطاء کی ہے مگر وہ روزی محنت و مشقت کرکے کھاتے ہیں، وہ شخص سب کی باتیں
سنتا مگر کسی کی پرواہ کیے بغیر آہ و زاری جاری رکھتا، وہ پہلے سے بھی
زیادہ بڑھ کر اپنے رب سے گڑ گڑا کر دعائیں مانگنے لگا، ایک دن رحمت ِحق جوش
میں آئی، اس کے گھر کا دروزاہ اچانک کھلا اور ایک موٹی تازی گائے اس کے گھر
میں گھس آئے، اس نے اُسے فوراً ذبح کیا اور قصاب کو بلا کر اُس کی بوٹیاں
بنوالیں، اسی دوران گائے کا مالک بھی اپنی گائے کو تلاش کرتا ادھر آنکلا،
یہ منظر دیکھا تو بولا ارے ظالم یہ کیا غضب کر ڈالا، یہ گائے تو میری تھی،
تجھے کس نے اجازت دی کہ اسے ذبح کرکے اس کی بوٹیاں کروا ڈالیں، اُس نے کہا
بھائی زیادہ چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں ، اﷲ تعالیٰ رازق اور رحیم و کریم
ہے اُسی نے میری دعا قبول فرما کر میرا رزق بھیجا ہے، گائے کے مالک نے اس
شخص کو پکڑا اور حضرت داؤد علیہ السلام کی عدالت میں لے گیا اور دعویٰ پیش
کیا، دونوں کی باتیں سن کر حضرت داؤد علیہ السلام نے اس مقدمہ کا فیصلہ ایک
روز بعد سنانے کا حکم صادر فرمایا اور پیغمبر خدا اپنے حجرے میں چلے گئے
اور اپنے علیم وخبیر،آقاومالک کے سامنے سجدہ ریز ہو کر حقیقت ِحال سے
باخبری کی دعا مانگی، اﷲ رب العزت نے اپنے پیغمبر پر اسرار و رموز کھول
دئیے۔ اگلے روز حضرت داؤد علیہ السلام نے گائے کے مالک کو بلا کر اس معاملے
پر پردہ پوشی کا حکم فرمایا، گائے کا مالک ناراض ہوگیا اور اِسے ظلم قرار
دیا اور اصرار کرنے لگا کہ میرے ساتھ ایسا کیوں؟ جب کیوں کا اصرار بڑھنے
لگا تو حضرت داؤد علیہ السلام نے گائے کے مالک سے فرمایا کہ تو اپنا سارا
مال اور جائیداد اُس گائے ذبح کرنے والے کے حوالے کر دے اگر تو نے ایسا نہ
کیا تو تیری سخت رسوائی ہوگی پھر جو ظلم و ستم تُو کرتا رہا ہے اُس سے پردہ
بھی اٹھا دیا جائے گا، یہ سنتے ہی گائے کا مالک آپے سے باہر ہو گیا اور
پیغمبر خدا سے بھی بدتمیزی پر اُتر آیا کہ میرے ساتھ ایسا کیوں؟
اب حضرت داؤد علیہ السلام نے تیسرا حکم جاری کیا کہ اپنے تمام سامان کے
ساتھ اپنے اہل و عیال بھی اس کے حوالے کر دے، اب تو وہ شخص سٹپٹا گیا اور
مارنے مرنے پر آگیا، لوگ نہیں جانتے تھے کہ پیغمبر خدا یہ حکم کیوں دے رہے
ہیں، حضرت داؤد علیہ السلام نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت
آگیا ہے کہ گائے کے مالک کے پوشیدہ راز ظاہر کرنا ہوں گے۔ پیغمبر خدا لوگوں
کو لے کر دریا کے کنارے پر ایک گھنے درخت کے پاس پہنچ کر رُک گئے اور لوگوں
سے مخاطب ہو کر پوچھا کیا تم لوگوں کو معلوم ہے کہ اس درخت کے نیچے ایک شخص
کا قتل ہوا تھا ، جواب نہیں میں تھا، پھر فرمایا مجھے دنیا اور آسمانوں میں
چھپے تمام رازوں کو جاننے والے اﷲ نے بتایا دیا ہے کہ اس گائے والے نے اپنے
آقا کے مال و زر اور ساری جائیداد پر قبضہ کرنے کے لالچ میں اُسے قتل کر
دیا تھا اور یہ شخص جو اﷲ سے رزق بغیر محنت و مشقت مانگا کرتا تھا یہ اُسی
کا بیٹا ہے، اس گائے والے ظالم نے اپنے آقا کے بچوں کو بہت ستایا، آج اس کی
کیوں نے اس مردود کا پردہ فاش کردیا ہے، پھر پیغمبر خدا نے اس ظالم شخص سے
فرمایا، اے سگ ِدنیا! تو شریعت کے مطابق فیصلہ سننا چاہتا ہے تو سن اب اس
کی تعمیل تجھ پر فرض ہے، تو نے جس چھری سے اپنے آقاکو قتل کیا اُس پر تیرا
نام کنندہ ہے اور وہ چھری ابھی زمین کھود کر نکال لی جائے گی۔ حضرت داؤد
علیہ السلام کے حکم پر زمین کھودی گئی تو ایک انسانی کھوپڑی اور ایک خنجر
نما چھری نکلی جس پر گائے کے مالک کا نام کنندہ تھا، لوگوں نے پیغمبر خدا
سے معافی مانگی مگر اب گائے کے مالک کا جرم ثابت ہو چکا تھا، اس لیے اُس
چھری سے اُس کی گردن اُس کے تن سے جدا کردی گئی۔
یہ صرف اس کیلئے نہیں بلکہ بحیثیت انسان ہماری طمع اور لالچ میں انسانی
جبلت’’میں نہ مانوں‘‘ اور اپنے جرم پر ’’کیوں، کب ، کیسے اور کیا‘‘ جیسی
توجیحات ہماری ہٹ دھرمی، ہوس، گھمنڈ، غرور اور تکبر ہمیں ہمارے انجام تک
پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔میاں محمد نوازشریف کا ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘
اب ایک قومی نعرہ بن چکا ہے جس کا جواب دینا بھی مقتدر حلقوں کیلئے لازم و
ملزم بنتا جا رہا ہے، مفاہمت کی بجائے مزاحمتی پالیسی ملک پھر پیچھے کی طرف
دھکیل دے گی، جمہوریت کی بساط لپیٹ کر ایک دفعہ پھر ٹیکنو کریٹ حکومت بنانے
کی افواہیں گردش کر رہی ہیں، میاں محمد شہبازشریف اور چوہدری نثار کی
مفاہمتی پالیسی اور محترمہ مریم نواز کی مزاحمتی پالیسی سے مسلم لیگ ن دو
حصوں میں تقسیم ہوتی نظر آرہی ہے، طمع نفسانی اور اقتدار کی ہوس اس قدر ہم
پر حاوی ہو چکی ہے کہ قبر کی چاردیواری تک ہمارے اندر کی خواہشات ہم پر
غالب رہتی ہیں۔راجہ رنجیت سنگھ کے بعد اِس خطے میں شریف خاندان کا زمانہ
اقتدار طویل ترین ہے، اس کے باوجود ہم اپنے خوابوں سے باہر نہیں نکل رہے
کیونکہ شاید عزت سے رخصت ہونا اس خطے کی روایت نہیں، اقتدار کی جنگ میں
برصغیر میں کیا نہیں ہوا، دین اسلام کے علم کے دعویدار اورنگزیب عالم گیر
نے اقتدار کی خاطر اپنے والد شہنشاہ ہمایوں کو اقتدار سے الگ کرکے نہ صرف
زندان میں ڈال دیا بلکہ اس کی آنکھیں بھی ضائع کرادیں، اپنے حقیقی بھائیوں
کو اقتدار کے بے رحم گھوڑوں کے پاؤں تلے روند ڈالا، برصغیر کی سرزمین پچھلے
آٹھ سو سالوں سے غلاماناں ذہنیت چلی آرہی ہے، جسے اقتدار ملتا ہے وہ اپنی
رعایا کو غلام اور خود کو بادشاہ تصور کرنا شروع کر دیتا ہے، اس خطے کی یہ
بدقسمتی ہیہر آنے والا آمر جمہوریت کا راگ الاپنا شروع کر دیتا ہے اور عوام
کے دوٹوں کی بھیک سے اقتدار میں آنے والے جمہوری لیڈر آمریت کی راہ پر چل
نکلتا ہے، جب اقتدار میں ہوں تو شہنشاہوں والا جاہ و جلال ان کے گلے کا طوق
بن جاتا ہے اور جب اقتدار سے باہر آجائیں تو انقلاب کے نعرے زور و شور سے
سنائی دیتے ہیں۔ میاں نوازشریف کی زبان سے تیس سال بعد اب انقلاب کا نعرہ
بد ترین مذاق کے سوا کچھ نہیں، دنیا کی سپر طاقت امریکہ کے سابق سربراہ بل
کلنٹن اور باراک اوباما اپنی جوانی میں اقتدارکی ٹرم پوری ہونے کے بعد گوشۂ
گمنامی میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں، کبھی ان کی تقریروں میں نہیں سنا کہ
اگر میں یا میری فیملی کا قتدار چلا گیا تو ملک کی ترقی رُک جائے گی، ملک
تباہ ہو جائے گا، کیا ملک شخصیات کے محتاج ہوتے ہیں۔۔۔ نہیں، شخصیات اپنہی
دھرتی ، اپنی زمین ، اپنے ملکوں کی محتاج ہوتی ہیں۔
میاں محمد نوازشریف کو اب کیوں کی رَٹ چھوڑ کر آگے سوچنا ہوگا، اگر مفاہمت
کی بجائے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا گیا اور ہٹ دھرمی ہی اوڑھنا بچھونا
بنایا گیا تو چوہدری نثار اور میاں شہبازشریف کی مفاہمت کی پالیسی بھی ہاتھ
سے جاتی نظر آئے گی اور اس بند پٹاری سے وہ گند نکلے گا کہ شریف فیملی
توکیا پاکستان کے عوام بھی دوسری دنیا سے منہ چھپاتے پھریں گے اور پھر بات
دور تک نکل جائے گی۔ابھی کل میاں نوازشریف کی نااہلی سے خالی ہونیوالی سیٹ
، لاہور کے حلقہ این اے 120 پر پولنگ ڈے ہے، محترمہ مریم نواز نے تمام
اداروں اور مقتدر قوتوں کو للکار کر بھرپور الیکشن مہم چلائی ہے، عوام ،
عدلیہ اور افواجِ پاکستان تک نشانے پر ہیں، یہ آج بھی لاہور شہر کا گندہ
ترین حلقہ ہے جہاں سے جیت کر میاں نوازشریف وزیراعظم تک پہنچتے رہے ہیں، 4
سال بعد پھر اس حلقے میں بڑے بڑے لوگ دیکھنے کو مل رہے ہیں، الیکشن کا رزلٹ
چاہے کچھ بھی ہو ، شاید اسی بہانے اس علاقے کا گند صاف ہو جائے اور اُنھیں
آرسانک ملے پانی سے نجات مل جائے، بے شمار پارٹیاں اور 40 سے زائد امیدوار
پانی کی طرح پیسہ بہا رہے ہیں، کاش اپنی دکانداریوں کے علاوہ یہ لوگ عوام
کا بھی سوچ لیں، عام آدمی صحت، تعلیم ، روزگار تک پہنچ سکے تاکہ بہتر
معاشرہ معرض وجود میں آسکے۔
خلیفہ ہارون الرشید نے بہلول سے پوچھا کہ چور کے بارے میں کیا حکم ہے،
بہلول نے کہا عالی جاہ! اگر چور پیشہ ور ہو تو چور کا ہاتھ کاٹ دینا چاہئے
، اگر چوری مجبور ہو کر کی ہو تو حاکمِ وقت کی گردن اُڑا دینی چاہئے۔
|