جب سے"اوصاف"اخبارمیں میرامضمون"یوم دفاع۔۔۔مزاحمت کی
طاقت''شائع ہواہے مجھے اب تک اس مضمون کی تحسین کی مد میں بے شمارای میلز
موصول ہوئی ہیں لیکن ایک بہت ہی عزیز رفیق جن کی برسوں سے کوئی اطلاع نہیں
تھی ان کے ظہور ہونے کی اطلاع پردل کی ایک عجیب کیفیت ہوگئی ہے۔ان کی خواہش
اورمجبوریوں کی بناء پر ان کے پیغام کومنظرعام پر لانے سے گریز کرتے ہوئے
ان کے مراسلہ کاجواب تحریر کر رہاہوں۔
"ایک مدت کے بعد آپ کی شگفتہ وفکرانگیزتحریرپڑھنے کو ملی۔مجھے آپ سے یہی
گماں تھاکہ وہ ہاتھ جوبرسوں سے انسان کے اجسام کا پوسٹ مارٹم کررہا ہو،وہ
ہاتھ جوقصابوں جیساکام کرکے انسانوں کوراحت پہنچا رہا ہے یقینا ًایک دن
انسان کی روح کی آسودگی کیلئے اس سے بڑھ کرکسی اعلیٰ اور ارفع مقاصد کیلئے
اپنی ندگی کارخ متعین کرے گا۔الحمداللہ آپ نے بروقت مستحسن قدم اٹھایااوریہ
وقت کی ضرورت بھی تھی حالانکہ کویت میں قیام کے دوران کئی دفعہ ان معاملات
پرآپ سے بحث بھی ہوئی تھی ،بحث میں کتنی ہی باتیں، کتنی ہی الجھنیں اور
کتنے ہی مسائل بیان ہوتے تھے۔اس بحث میں ہم دونوں اپنے دل دماغ کی کتنی ہی
تصویریں بلکہ تصویروں کاپوراالبم ایک دوسرے کے حوالے کردیتے تھے،پھر
ہرتصویر کے ہرپہلو پر بامقصد بات ہوتی تھی لیکن وسائل اورافرادی قوت
پرآکرہمیں یہ تمام تصویریں نامکمل اورادھوری نظرآتی تھیں اورہم جو ایک
دوسرے کے ساتھ بہت فلسفیانہ باتیں کرتے تھکتے نہیں تھے ،رنج والم کی بہت سے
داستانیں اشاروں میں بیان کرتے تھے ،اپنے ہی فلسفے سے شکست کھاکراگلے دن
کیلئے تیاری کرتے تھے کیونکہ یہ سارااندازِ فکرایک خالص رضائے الٰہی کے
حصول کیلئے ہوتاتھا،اس لئے ناامیدی قریب بھی نہیں پھٹکتی تھی کیونکہ اس بات
کاہم دونوں کوعلم تھاکہ مہلتِ زندگی پرچہ دینے کا وقت ہے ،دنیاکمرۂ امتحان
ہے،مالکِ کائنات خود ممتحن ہے اورنفاذِاسلام کانصب العین پرچہ امتحان ہے
اوریہ پرچہ مومن کے ایمان کی کسوٹی ہے نہ کہ اس کا قیام مطلوب ِ مشیت
ہے۔لیکن اس خطے میں آپ نے جہاں انداز فکر میں تبدیلی پیداکی ہے وہاں آپ نے
مجھے مغرب کی آسائش زدہ زندگی سے تائب ہونے کی تلقین کرتے ہوئے واپس آنے کی
نصیحت فرمائی ہے!
یہاں مجھے معمولی سااختلاف کرنے کی اجازت دیں۔آپ بھی کویت آمد سے پہلے
کشمیرسے دہلی کی طرف تشریف لائےتھے جوکہ ہندوستان کا مغرب کی طرف کھلنے
والادروازہ ہے،جس طرح پاکستان کاشہرکراچی مغربی تہذیب کے داخلے کا سب سے
پہلا مستقرہے۔بلاشبہ ہماراقبلہ بھی مغرب کی طرف ہے اوران لوگوں کابھی
جو"مغرب"کے پجاری ہیں لیکن فرق اتناہے کہ ہم "رب المغربین"کی عطاکردہ تہذیب
کے پیروکار ہیں اوروہاں کے بسنے والوں کی اکثریت مغربی تہذیب کی گرویدہ
ہے۔اس مغرب کی جہاں سائنس نے مشینیں بنابناکرافکاروخیالات کی سادہ فضاکو
دھواں دار کر رکھا ہے ۔ اب یورپ سے جوبھی جہاز جاتاہے معلوم ہوتاہے کہ
مغربی تہذیب کاجس قدرگندہ مال درآمدکرکے لاتاہے ،بلند آشیاں لوگ سب سے پہلے
اس میں سے اپناحصہ وصول کرتے ہیں اور اس درآمدکی ہرکھیپ میں کچھ نہ کچھ
نیامال آہی جاتا ہے۔ دین ومذہب کی طرف شکوک وشبہات،ریب وتذبذب کاطرزِ
عمل،ظاہری چمک دمک پرجان دینا معاشرتی زندگی میں مختلف حدودوقیودسے
بیزاری،مذہب سے جان چھڑانے کارحجان،عورتوںکی مساوات کابناوٹی اورنظرفریب
نعرہ!غرضیکہ کیاکچھ ہے جو مغرب (یورپ وامریکا)سے برآمدہوکردہلی وکراچی
پہنچتاہے۔
اس سارے انبارژولیدگی میں جودل ودماغ میں کانٹے چبھ جاتے ہیں ،اب اس سے
پہلے کہ یہ کانٹے نکلیں اورزخم مندمل ہوکرقلب ونظرکی صحت بحال ہو کچھ دوسرے
کانٹے آکردل ودماغ کومجروح کردیتے ہیں اورایک سخت عذاب تشکیک میں
مبتلاکردیتے ہیں اوریہ سارامشاہدہ شدت سے ارضِ مملکتِ خداداد میں پچھلی کئی
دہائیوں سے دیکھنے کوکچھ زیادہ ہی مل رہاہے۔ مسلمان عورت جس کاطرۂ عظمت
عصمت وحیاتھا،اب بازاروں میں ولائتی سامان نمائش کی طرح بے باکی وبے حجابی
کااشتہاربن کر گھس آئی ہے۔فیشن شوکے نام پرکیٹ واک کے اجتماعات میں ہوس
بھری نظریں کھلے عام اپنی پسند وناپسندکاپروانہ جاری کرکے اپنی راتوں
کورنگین بنانے کاذریعہ بن چکی ہیں۔جن بازاروں کو حضور اکرم ۖنے شیطان کی
گزرگاہیں قراردیاتھا،وہ بازاراب نمائش کی گیلریاں بن گئے ہیں۔جن اخباروں
میں کبھی مسلمان عورت کی تصویرنہیں دیکھی تھی اب نہ صرف اخبارات بلکہ
الیکٹرانک میڈیامیں ہرچندمنٹ بعدان میں حیافروش تاجروں کی تیارکردہ کریموں
کے اشتہارات چندٹکوں کی خاطران الفاظ میں شائع اورنشرہوتے ہیں کہ"برقعہ
پہنناکالے پن کو چھپانے کی علامت ہے "۔
ثقافت کے لفظ کوعریانی،مے خواری،بے حیائی اورناچ رنگ کے مفہوم میں لیا
جارہاہے اورحکومت خدادادپاکستان ثقافت کے نام پربڑی بڑی آرٹ کونسلوں پر اس
غریب اورمظلوم قوم کالاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپیہ صرف کررہی ہے بلکہ
حکومت پاکستان کے کئی عہدیدار ترنگ میں آکر اعلان کرتے ہیں کہ یہ اسلامی
مملکت کی آرٹس کونسلیں اپنے پروگرامز کے ذریعے ملک میں {قہر خداوندی سے}
جوزلزلے اورسیلاب سے متاثرین کی امدادکررہی ہیں۔ الاامان الحفیظ !خداکے غضب
کومزیدبھڑکانے کی کھلے عام دعوت دے رہے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ بچپن میں اسلامی مدرسے میں جب صبح سویرے اسمبلی ہوتی تھی
توتمام امت مسلمہ کیلئے بالعموم اور پاکستان کیلئے بالخصوص دعائے خیر بھی
ہوتی تھی اورہرروزکوئی نہ کوئی استادکسی اسلامی موضوع پرخطاب بھی کرتے
تھے۔یہی وجہ ہے کہ اس اسکول کے فارغ التحصیل طلباء میں دوسرے اسکولوں کے
طلباء کی نسبت اسلامی محبت واخوت کچھ زیادہ ہوتی تھی اور اپنے مافی
الضمیرکی ادائیگی میں بے خوفی اوربیباکی حدسے زیادہ ہوتی تھی۔اس کا عملی
تجربہ کویت میں ہوا جب میں اورآپ ایران کے انقلاب سے متاثر ہوکران کی پہلی
انقلابی سالگرہ میں شمولیت کیلئے دوستوں کی شدید مخالفت کے باوجود روانہ
ہوگئے تھے ۔واپسی پرکویت کے ائرپورٹ پرہی پاسپورٹ ضبط کر لئے گئے تھے ۔ یہ
توکبھی سوچانہ تھاکہ کویت کے جس جدید ہوائی اڈے کی تعمیر کی نگرانی میرے
ذمہ تھی،چندسال بعداس کے ایک حصے میں بنی حوالات میں مجھے آپ کی معیت میں
اس حال میں چندگھنٹے بھی گزارنے ہونگے۔ کچھ گھنٹے سلاخوں کے پیچھے جانے کی
سنت یوسفی اور اسوۂ حنبلی کی ادائیگی کا بھی بھرپورموقع ملا۔بالآخرہماری
بے گناہی ہماراجرم قرار پائی اوریہ قیدوبندکے چندگھنٹے ازراہِ لطف ہمارے
کھاتے میں محض اس لئے ڈال دیئے گئے کہ افسر مجازدوپہرکے کھانے کے بعداپنی
ڈیوٹی کے دوران ہی قیلولہ فرمارہے تھے۔ہم حیران تھے کہ کیوں بند کردیئے گئے؟
اربابِ اقتدارخوش کہ طاقت کانشہ ابھی ہمیں ان کے پاؤں پکڑنے پر مجبور کردے
گا لیکن بھلاہوان چنددوستوں کاجو ہماری خاطرپھرقربانی دینے کیلئے موقع پرآن
دھمکے اوروہ جواللہ کوبھی بطور ضامن ماننے کوتیارنہیں تھے اپنے ہی کویتی
بھائیوں پراحسان کرکے ہمیں مستقبل میں تائب وتابعداررہنے کا فیصلہ سناتے
ہوئے اگلے دن کیلئے سی آئی ڈی کے دفترمیں حاضری کے پروانۂ پردستخط
کرواکراحسان جتارہے تھے۔(جاری ہے) |