آئینہِ دِل

اور جب انسان اللہ کی پسند کا راستہ، نیکی کا راستہ اختیار کرلیتا ہے تو ایسا کرنے والے بندے کو اللہ رب العزت ایک ایسی یسی صفت سے نوازتا ہے جسے الٰہاٰم کہتے ہیں یعنی اپنے دل سے سنائی دینے والی وہ آواز جسے محسوس کر کے ہم اپنے لئے اور دوسروں کے لئے بہت کچھ بھلائی کے کام کر سکتے ہیں اللہ تعلیٰ کی ذات تو ایسی رحمٰن و رحیم ہے کہ کسی کو بخشنے پر آئے تو اسکی ایک چھوٹی سی نیکی کو بھی اس کے لئے ہمیشہ کی کامیابی و کامرانی کا ذریعہ بنا دے

یہ جو انسان کادِل ہے نا رب تعالیٰ کا مسکن ہے آپکی سماعت سے گزرا ہوگا یا کہیں لکھا ہوا آپکی نظر سے گزرا تو ہوگا--- لیکن کیا آپ نے کبھی اس بات کی حقیقت کو محسوس بھی کیا ہے یا نہیں؟
اگر نہیں کیا تو کر کے دیکھیں
یہ جو انسان کا دِل ہے اسکی مثال ایک شفاف آئینے کی طرح ہے، جِس طرح آئینے پر گرد پڑ جانے سے آئینے میں دکھائی دینے والا عکس دھندلا جاتا ہے بالکل اِسی طرح دِل کے آئینے پر بھی گرد پڑ جانے سے دِل کے آئینے میں منعکس عکس دھندلانے لگتا ہے
جبکہ آئینے کا عکس واضح دیکھنا کے لئے آئینے کی گعد کو صاف کر کے دوبارہ شفاف بنایا جاتا ہے تا کہ جو بھی عکس آئینے میں دِکھائی دے واضح اور روشن ہو
سوچنے کی بات یہ ہے کہ دِل کے آئینے پر گرد کیسے پڑتی ہے اور دآئینہءِ دِل کو کیسے شفاف کیا جائے
انسان خطا کا پتلا ہے جس سے بعض اوقات دانستہ و نا دانستہ، چاہتے نا چاہتے بہت سی خطائیں سر زد ہو جاتی ہیں جن کے باعث دل کا شفاف آئینہ دھندلا جاتا ہے
لیکن چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات با برکات رحمتوں کا بیکراں سمندر ہے جو انسان کے لئے مہربان اور محبت کرنے والا ہے جبھی تو اس نے انسان کو اپنی تمام مخلوقات میں افضل ترین مخلوق کا شرف عنایت فرما کر تمام مخلوقات کو اپنے تابع کرنے کی صلاحیت عنایت فرما کر دنیا میں بھیجا ہے تو انسان کو بھی چاہئیے کہ وہ رب تعالٰی کی اس عنایت سے آگاہی حاصل کرے اور اس نوازشِ نے پایاں کی قدر کرتے ہوئے اپنے دِل کو حتی الامکان گرد آلود ہونے سے بچانے کی جستجو کرتا رہے اور اگر خطا یا گناہ سر زد ہو جائے تو مزید سرکشی اختیار کرنے کی بجاءے توبہ کے آنسوؤں سے آئینہِ دِل پر جمی گرد دھو ڈالیں اور جان لیں کہ اللہ رب العزت غفورالرحیم ہے معاف فرمانے والا ہے اپنے بندوں کی خطاؤں سے درگذر فرمانے والا ہے اگر وہ خطا یا گناہ کے بعد اپنی کوتاہی پر ندامت محسوس کرتے ہوئے اپنے رب سے رجوع کریں اور معافی طلب کریں توبہ کا راستہ اختیار کریں تو وہ ضرور اپنے بندوں کو بخشتا ہے جو اس کے بندے سچّے دِل سے توبہ کرنے کے بعد اپنے رب سے مانگتے ہیں
اکثر آپ نے تنہائی کے لمحوں میں محسوس کیا ہوگا کہ آپ کو کہیں اپنے ہی اندر سے کوئی روشنی ابھرتی دکھائی دی ہو کبھی کوئی آواز سنائی دی ہو تو کیا آپ نے کبھی اس روشنی اس آواز پر کبھی غور کرنے کی جاننے کی کوشش کی ہو کہ آخر یہ کیسی آواز ہے کیا راز ہے ان آوازوں کا کیا اِسرار ہے کیا وجہ ہے ---؟
اور اگر نہیں کیا تو اس کو محسوس کریں اسے وہم یا محض خیال سمجھ کر نظرانداز نہ کیا کریں بلکہ سوچیں کہ اس کی حقیقت اور اسکا مقصد کیا ہے
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان سے ایک خطا کہ بعد دوسری اور تیسری خطا سر زد ہو جائے تو وہ اس غلط فہمی کا شکار ہو کر کہ اتنے گناہ سرزد ہو جانے کے بعد وہ خود کو معافی کے قابَل نہ سمجھتے ہوئے توبہ کے راستے پہ نہیں آ پاتا اور
پس یہی غلط فہمی اسے توبہ سے دور رکھتی ہے اور وہ اللہ کی رحمت سے خود اپنی ہی غلط فہمی کے باعث خود کو محروم کرتا چلا جاتا ہے اور
مایوسی کا شکار ہو کر گمراہی کے دلدل میں خود کو دھکیلتا چلا جاتا ہے، خود کو رب کی رحمت سے محروم سمجھنے لگتا ہے کہ جیسے اس کے لئے اب کبھی ہدایت کا راستہ وا نہیں ہوسکتا جب کہ ایسا نہیں اللہ کی قدرت اور رحمت ہر شے پہ قادر ہے وہ جِسے چاہے بخش دے بشرطیکہ رب سے رجوع کیا جائے
"مایوسی کفر ہے" اللہ اپنی رحمت کے دروازے اپنے بندوں کے لئے کبھی بھی بند نہیں کرتا انسان جب چاہے اپنے رب کی طرف رجوع کر سکتا ہے وہ بخشنے والا مہربان ہے بلکہ وہ تو ہر وقت اپنے بندوں کی خطائیں بخشنے کو تیار رہتا ہے بشرطیکہ انسان اپنے دل کے آئینے کو آئندہ کے لئے گناہوں سے گرد آلود نہ ہونے کا سچے دل سے تہیہ کر لے اور نیکی کا راستہ اختیار کر لے
اور جب انسان اللہ کی پسند کا راستہ، نیکی کا راستہ اختیار کرلیتا ہے تو ایسا کرنے والے بندے کو اللہ رب العزت ایک ایسی یسی صفت سے نوازتا ہے جسے الٰہاٰم کہتے ہیں یعنی اپنے دل سے سنائی دینے والی وہ آواز جسے محسوس کر کے ہم اپنے لئے اور دوسروں کے لئے بہت کچھ بھلائی کے کام کر سکتے ہیں اللہ تعلیٰ کی ذات تو ایسی رحمٰن و رحیم ہے کہ کسی کو بخشنے پر آئے تو اسکی ایک چھوٹی سی نیکی کو بھی اس کے لئے ہمیشہ کی کامیابی و کامرانی کا ذریعہ بنا دے
اسی لئے تو کہتے ہیں دل میں جب بھی کوئی اچھی بات آئے کوئی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کرنے کا خیال آئے تو اسے اپنے رب کی رحمت اور الٰہام سمجھ کر اس پر فوری عمل کریں اور اسے دوسروں تک پہنچائیں اور پھیلائیں اس طرح ایک ایک اکائی کی بہتری سے ایک بہترین اور کامیاب قوم کی کامیاب معاشرے کی تشکیل ممکن ہے اور یہ عمل نہ صرف اس دنیا بلکہ اگلے جہان میں بھی ہمارے لئے کامیابی کا باعث ہے ویسے بھی آپ کو جس بھی اچھی بات کا علم ہو اسے دوسروں تک پہنچانا کار خیر ہے اور کار خیر کا خیال جب بھی آئے یا کار خیر کا جب بھی موقعہ ملے اسے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے
اللہ تعالٰی ہم سب کو نیکی کے راستے پر چلنے اور اس پر ہمیشہ قائم رہنے کی توفیق عنایت فرمائے آمین

uzma ahmad
About the Author: uzma ahmad Read More Articles by uzma ahmad: 32 Articles with 24011 views sb sy pehly insan phr Musalman and then Pakistani
broad minded, friendly, want living just a normal simple happy and calm life.
tmam dunia mein amn
.. View More