مسئلہ آوارہ کتوں کا!

 بچے کی عمر سات آٹھ برس تھی، سکول سے چھٹی ہونے کے بعد ذمہ داری کی صورت کتابوں ، کاپیوں سے بھرے بستے کا بوجھ اٹھائے وہ گھر کی طرف رواں دواں تھا، ستمبر کی گرمی سے پسینے بھی چھوٹ رہے تھے، پیدل چلنے سے پیاس سے لب بھی خشک ہورہے تھے۔ سکول سے گھر زیادہ دور نہیں تھا، اس کی ماں بھی واپسی کے وقت اپنے لختِ جگر کا بڑی شدت سے انتظار کرتی تھی، اس کے لئے حسبِ توفیق ٹھنڈے مشروب کا اہتمام ہوتا، فوراً ہی بعد اس کے لئے گرم کھانا تیار کیا جاتا، تاکہ بچے کو کسی قسم کے احتجاج کاموقع نہ ملے۔ بچوں کی اپنی ماؤں سے احتجاج کی کہانی بھی عجیب ہے، بچے لڑائی پر آمادہ ہوتے ہیں اور مائیں پیار محبت پر ۔ دونوں کی اپنی اپنی فطرت ہے، اور فطرت انسان کو عمل پر مجبور کردیتی ہے۔ نتیجتاً کامیابی مامتا کی ہوتی ہے۔ اس روز اس کا بچہ وقت پر نہیں پہنچا، تاخیر حد سے بڑھی تو ساتھ ہی تشویش نے بھی حد عبور کی، وہ بے چین ہو کر گھر سے باہر نکلی، دوسری گلی کے کونے پر پہنچی تھی کہ لوگوں نے روداد سنائی کہ ایک بچہ سکول سے واپس آرہا تھا کہ آوارہ کتوں کے ایک غول نے دبوچ لیا،چشمِ تصور یہ منظر دیکھ سکتی تھی، لوگ وہاں پہنچے، بچے کو ہسپتال منتقل کیا گیا، مگر وہ زخموں کی تاب نہ لا سکا، دنیا کے جھنجھٹ میں پڑنے سے قبل ہی وہ دنیا کو چھوڑ گیا۔ ماں کو بچہ ملا تو ناقابلِ برداشت منظر دیکھ کر وہ بے ہوش ہو گئی۔ اس بچے کی تصویر اخبار میں شائع ہوئی، ساتھ ہی خبر بھی۔ تصویر میں تو کچھ پردہ تھا، مگر خبر میں استعمال کئے گئے الفاظ پڑھنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔

اخباروں میں آوارہ کتوں کے بارے میں خبریں تو شائع ہوتی رہتی ہیں، مختلف لوگوں اور تنظیموں کی طرف سے کتوں کی تلفی اور خاتمے کے بارے میں مطالبات بھی ہوتے ہیں، اور اس خطرے سے آگاہ بھی کیا جاتا ہے کہ آوارہ کتے گلی محلے میں نکلنے والے بچوں کے پیچھے بھاگتے ہیں، جس سے معاملہ خراب بھی ہو سکتا ہے، بعض اوقات کسی کے زخمی ہونے کی خبر بھی آجاتی ہے، مگر کسی بھی ادارے کی طرف سے اِن آوارہ کتوں کے سدِ باب کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ خبروں کے تسلسل کا مطلب یہ ہے کہ مسئلہ الجھا ہوا ہے، حالات درست نہیں۔ لیکن کوئی ادارہ ایکشن نہیں لیتا۔ گلی محلوں کے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں، اچھی اچھی آبادیوں میں بھی کتوں کے غول آزادانہ گھوم پھر رہے ہوتے ہیں، جہاں سایہ دیکھا ڈیرے ڈال دیئے، جہاں موسم بدلتا دیکھا کسی دوسرے محلے کی طرف کوچ کر گئے۔ جہاں کھلی جگہ دیکھی اٹھکیلیاں کرنے لگے، جہاں میدان پایا ایک دوسرے کے پیچھے بھاگنے لگے، گویا دوسومیٹر کی دوڑ میں مصروف ہیں۔ جہاں کہیں ریت وغیرہ دیکھی تو رات وہیں پر بسر کرنے کا منصوبہ بنا لیا، حتیٰ کہ جتنے روز ریت وغیرہ وہاں پڑی رہے گی، یہ بن بلائے مہمان وہیں پر قیام کریں گے۔ راتوں کو پطرس بخاری کے کھینچے ہوئے نقشے کے مطابق مشاعرے کرتے اور غزلیں پڑھتے ہیں، مختلف عمروں کے کتے مختلف انداز میں بھونک بھونک کر نیندیں حرام کردیتے ہیں۔

یہ منظر بھی ہر اُس گلی محلے میں دیکھا جاسکتا ہے، جو نسبتاً کھلے علاقے میں واقع ہے، سویر شام اِ ن گلیوں سے گزرنے والے بچے کس طرح کتوں کے غول سے خوفزدہ ہوتے ہیں، کیسے راستے بدلتے ہیں، کیسے کتوں کو دیکھ کر پیچھے بھاگتے ہیں، کبھی یہ بچے بڑوں کا سہارا لے کر یا اُن کی اوٹ میں کتوں کے حملے سے بچ کر گزر جاتے ہیں اور شکر کرتے ہیں۔ بعض اوقات کتے کس طرح بچوں کے پیچھے بھاگتے ہیں؟

بچوں کے لئے یہی عمل بہت بڑی دہشت گردی ہے، ہر وقت خوف ان پر سوار رہتا ہے۔ بچوں کے علاوہ یہ آوارہ کتے بڑوں پر بھی حملہ کرنے سے گریز نہیں کرتے، جس کے پیچھے کوئی کتا پڑ جائے، اس کا جان چھڑانا یا جان بچانا مسئلہ بن جاتا ہے، موٹر سائیکل وغیرہ کے آگے پیچھے بھاگنے کی پریکٹس بھی کی جاتی ہے، کسی وقت کوئی گر بھی جاتا ہے، اور کبھی کسی کی ٹانگ پر یہ ظالم اپنے دانت بھی گاڑ دیتے ہیں۔ آجکل چونکہ بلدیاتی ادارے فعال ہیں، کونسلر کی حد تک بالکل بنیادی سطح تک نمائندے موجود ہوتے ہیں، اس لئے ہر نمائندہ اپنے علاقے سے خوب واقف ہوتا ہے، جن کی مدد سے آوارہ کتوں کی تلفی کی مہم چلائی جانی وقت کی اہم ضرورت ہے، تاکہ ایک بڑے عذاب سے قوم کی جان خلاصی ہو سکے، اگر اسے اہم ایشو تصور نہ کیا گیا تو قوم کی مائیں اپنے بچوں کو یونہی روتی رہیں گی۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428448 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.