مولانا رومی کا ایک قول ہے کہ دوست وہ ہے جو تمہں اُس وقت
پسند کرئے جب تم کچھ بھی نہ ہو اور یہ بھی کہ دشمن ہمیشہ دماغ کے منتخب کرؤ
اور دوست کردار کے، جبکہ شیخ سعدی کا کہنا ہے کہ دوست وہی ہے جو اپنے دوست
کا ہاتھ اُس کی پریشانی اور تنگی میں ہی پکڑتا ہے۔گو کہ موجودہ زمانے میں
ایسے دوست خال خال ہی ملتے ہیں مگر جس کو مل جائیں وہ بلاشبہ دنیا کا خوش
قسمت ترین انسان ہے۔حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ جو شخص تمہارا
غصہ برداشت کرئے اور ثابت قدم رہے تو وہی تمہارا سچا دوست ہے اور یہ بھی
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا ہی قول ہے کہ جس کو ایسے دوست کی تلاش ہو جس
میں کوئی خامی نہ ہو اُسے کبھی بھی دوست نہیں ملتا۔پتا نہیں کیوں میں جب
بھی دوستی جیسے مقدس رشتے کے بارئے میں سوچتی ہوں مجھے شکسپیر کے مشہورِ
زمانہ تاریخی کردار جولیس سیزر اور بروٹس یاد آ جاتے ہیں۔بروٹس جس پر سیزر
خود سے بھی زیادہ اعتبار کرتا تھا، اُسی بروٹس نے محض اقتدار حاصل کرنے کے
لئے سیزر کو جان سے مار دیا ۔سیزر پر موت سے چند لمحے پہلے ہی انکشاف ہوا
کہ وہ کسی دشمن کے ہاتھوں نہیں بلکہ اپنے دوست کے ہاتھوں ہی موت کی آغؤش
میں جا رہا ہے۔مشہور زمانہ فقرہ، یو ٹو بروٹس، وہی آخری فقرہ تھا جو مرنے
سے پہلےسیزر کی زبان سے نکلا اور پھر امر ہو گیا۔سیزر کے سامنے تو صرف ایک
بروٹس تھا مگر ہمارئے اردگرد تو نجانے کتنے بروٹس ہیں جو دوستی کا نام
استعمال کرکے ہماری جڑیں کاٹ رہے ہیں۔زمانہ طالبعلمی میں کسی لکھاری کا ایک
فقرہ پڑھا تھا جو آج تک ذہن پر نقش ہے کہ مجھے میرئے دوستوں سے بچاؤ دشمنوں
کا انتظام میں خود کر لوں گا۔کچھ عرصے پہلے ایک دوست نے سماجی رابطے کی ایک
ویب سائٹ پر ایک پوسٹ لگائی جس کے ذریعے تمام دوستوں سے پوچھا گیا تھا کہ
اپنے ایسے دوستوں کے نام بتائیں جو فیس بُک کے ذریعے ہی آپ کو ملے ہوں اور
آپ کے دل کے بہت قریب ہوں۔میرا خیال تھا کہ اکثریت کا جواب نفی میں ہوگا
کیونکہ عمومی تاثر یہی ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے کی جانے والی دوستیاں زیادہ
دیر قائم نہیں رہ پاتیں مگر دوستوں کے جوابات پڑھ کر میں حیران رہ گئی
کیونکہ سوائے چند ایک کو چھوڑ کر اکثریت نے چار سے پانچ دوستوں کے نام لکھے
تھے جو انٹرنیٹ کے ذریعے اُنہیں ملے اور اب اُنہی دوستوں کا شمار اُن کے
نہایت قریبی دوستوں میں ہوتا ہے۔سماجی رابطے کی ان ویب سائٹس کو تو لوگوں
نے خواہ مخواہ بدنام کیا ہوا ہے اچھے لوگ آپ کو یہاں بھی مل سکتے ہیں۔اپنی
خاموش طبع کے باعث میرے دوستوں کی تعداد بہت محدود ہے۔مگر جتنے بھی ہیں سب
میرے دل کے بہت قریب ہیں ۔دوستوں کے بارے میں میرا نظریہ یہی ہے کہ دوست
وہی جس سے بات کرتے وقت آپ کو کسی قسم کی کوئی جھجھک محسوس نہ ہو جس سے
گفتگو کسی بھی قسم کے تکلف کے بغیر ہو ۔کہا جاتا ہے کہ سچا اور اچھا
دوست ہمیں صرف زمانہ طالبعلمی میں ہی ملتا ہے۔عملی زندگی میں تو صرف ساتھ
چلنے والے لوگ ہوتے ہیں دوست کوئی نہیں ہوتا ۔میں اس بات سے متفق نہیں ہوں
۔کالج لائف کی دوستیاں بےشک بہت یادگار ہوتی ہیں مگر مجھے تو عملی زندگی
میں بھی چند ایک ایسی دوستیں ملیں جو آج میرئے دل کے بہت قریب ہیں ۔کسی
دانا کا قول ہے کہ دوست سے کبھی کوئی توقع نہ رکھو کیونکہ توقعات کا پیالہ
ہمیشہ ٹھوکروں کی زد میں سکتا ہے جبکہ میرا یہ ماننا ہے کہ وہ دوست ہی کیا
جو آپ کی توقعات پر پورا نہ اُتر سکے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ زیادہ توقعات
بھی اس رشتے کو کھا جاتی ہیں۔موجودہ زمانے میں ہمارا سب سے بہترین دوست
ہمارا سیل فون ہے۔جس کے ساتھ ہم زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا چاہتے ہیں۔سیل
فون کے ساتھ کھیلتے ہوئے ہم اکثر اپنے ساتھ بیٹھے دوستوں کو بہت بُری طرح
نظرانداز کردیتے ہیں جس کا ہمیں شاید احساس تک نہیں ہوتا ۔کسی سیانے نے
دوسرئے سے پوچھا کہ دوست کا کیا مطلب ہوتا ہے، سیانے نے جواب دیا کہ دوست
ہی تو وہ واحد رشتہ ہے جس کا کوئی مطلب نہیں ہوتا ۔کوئی غیر آپ کو دھوکا
دئے آپ برداشت کر لیتے ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ دوست کی طرف سے دیا جانے والا
دھوکا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے اور یہ تکلیف ہمیں مدتوں یاد رہتی ہے اشفاق
احمد سے کسی نے پوچھا کہ مجھے کیسے پتا چلے گا کہ کون میرا سچا دوست ہے
اشفاق احمد نے جواب میں بڑی پیاری بات کہی کہ وہ انسان جو تم سے بات کرتے
کرتے رو پڑا ہو ،جس نے اپنے آنسو تم سے بانٹے ہوں وہی تمہارا دوست ہے۔یہ سچ
ہے کہ خوشیوں میں توسب دوست ہوتے ہیں ۔سچا دوست وہی ہے جو آپ کی مشکل میں
کام آٰے جس کے کندھے پر سر رکھ کر آپ آنسو بہا سکو ۔ہم اپنے دوستوں کے خادم
ہی تو ہوتے ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ دوستی میں کوئی حساب نہیں ہوتا ۔جہاں
بات حساب کتاب کی آ جائے سمجھ لیں کہ اب وہاں آپ کی ضرورت نہیں رہی ۔اگر آپ
کو کوئی اچھا دوست نہیں مل رہا تو اکیلے بیٹھ کر اپنی ذات کا تجزہہ کریں ہو
سکتا ہے آپ کی ذات میں کچھ ایسا ہو جو کسی کو آپ کے قریب آنے ہی نہ دئے رہا
ہو۔اکثر اوقات اپنے اندر ذرا سی تبدیلی لانے سے ہمیں بہت اچھے دوست مل جاتے
ہیں۔سیل فون سے زیادہ اپنے دوستوں اور گھر والوں کو وقت دیں ۔آپ خود بھی
بہت اچھے دوست بن جائیں گے۔آخر میں نوجوان نسل کے نمائندہ شاعراحمد علی کیف
کی ایک غزل کے چند اشعار نقل کر رہی ہوں۔ جو کہ نہ صرف ایک اچھے شاعر بلکہ
ایک بہت اچھے انسان بھی ہیں۔
" طلوع درد پہ کچھ اشک ڈالتا میرئے دوست
وہ میں ہوں میں میری دستار اُچھالتا میرئے دوست
سیاہ ذات نہیں رہ سکا ہوں بستی میں
میں آ گیا تیرئے سورج اُجالتا میرئے دوست
سحر تراش کےسورج غضب سے تاب کرئے
میں تھک گیا تیرئے لہجے غزالتا میرئے دوست
میں پاؤں پاؤں بکھرتا رہا تیری گلیوں
کوئی تو ہاتھ مجھے بھی سنبھالتا میرئے دوست" |