اس مہینہ محرم الحرام کی عظیم یادگار وں میں سے
سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کی شہادت کا واقعہ بھی ہے ،جو یکم محرم الحرام
کو پیش آیا ،بد قسمتی سے شیعہ ذہنیت نے محرم الحرام کو شہادتِ سیدنا حسینؓ
کے ساتھ خاص کر دیا ،جب کہ حقیقت یہ ہے کہ گلشن اسلام کو جن شہداء نے اپنا
قیمتی خون دے کر سدا بہار کیا ہے ان میں امام العادلین، ناصر دین مبین امیر
المومنین خلیفۃ المسلمین سیدنا فاروقِ اعظم رضی اﷲ عنہ کا نامِ نامی اسمِ
گرامی سرِ فہرست ہے ،آپؓ آسمانِ عدالت و شجاعت پر آفتاب بن کر چمکے اور
اسلام کو ماہتابِ عالم تاب بنا دیا ،آپ ؓ کو ہمیشہ شہادت کی آرزو رہا کرتی
تھی ،دعا میں فرمایا کرتے تھے :’’اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنِیْ شَھَادَۃً فِیْ
سَبِیْلِکَ، وَاجْعَلْ مَوْتِیْ فِیْ بَلَدِ رَسُوْلِکَ‘‘(معارف الحدیث)
الٰہ العالمین !میں تیرے راستے میں شہادت کا سوال کرتا ہوں ،اور تیرے رسول
صلی اﷲ علیہ و سلم کے شہر میں موت چاہتا ہوں ،دعا دل سے مانگی تھی، اس لیے
بارگاہِ الٰہی میں منظور ہوگئی، جس کا ظہور اس طرح ہوا کہ ابو لؤلؤ فیروز
نامی ایک ایرانی مجوسی (پارسی) جو حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کا غلام تھا اور
چکیاں بنانے کا ماہر تھا ،وہ ہر وقت فاروقِ اعظم رضی اﷲ عنہ کی فتوحات کی
خبروں سے دلی حسد کی وجہ سے اندرہی اندر کڑھتا رہتا تھا ،خصوصاً ایرانی
فتوحات کی خبر سے تو اس کا دل جل کر خاک ہو گیا اور حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ
عنہ کے خلاف اس کے دل میں جوشِ انتقام بڑھ گیا ،وہ اسی فکر و انتظار میں
رہتا تھا کہ اپنے ہم مذہب ،ہم مسلک اور ہم وطنوں کا کسی نہ کسی طرح فاروقِ
اعظم ؓسے بدلہ لیا جائے ، چنانچہ ایک روزآپ ؓ حسبِ معمول مسجد نبوی میں
مصلائے رسول صلی اﷲ علیہ و سلم پر نمازِ فجر پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے،تو یہ
مجوسی غلام بھی نمازی کی شکل اختیار کر کے پہلی صف میں آپؓ کے برابرآپؓ کے
پیچھے کھڑا ہو گیا، فاروقِ اعظمؓ نے جو ں ہی نمازِفجر شروع فرمائی اس کمینہ
نے پیچھے سے زہر میں بجھے ہوئے خنجر سے پے در پے وار کر کے آپؓ کو زخمی کر
دیا ،اورزخموں سے چور فاروقِ اعظم ؓ نے گرتے وقت فوراً حضرت عبد الرحمن بن
عوف ؓکا بازو پکڑ کر مصلیٰ پر امامت کے لیے کھڑا کر دیا ،اور اشارہ سے نماز
مکمل کرنے کا حکم فرمایا ۔ (مستدرک/سیرۃ الصحابہ)
اس نے آپؓ کے ساتھ اور لوگوں کو بھی زخمی کر دیا، لیکن بالآخر پکڑ لیا گیا،
تو وہی خنجر اپنے سینہ میں اتاردیا( اپنے سینہ میں اپنا خنجر ؟دیکھا آپ نے
!فاروقِ اعظم ؓ کے دشمن کی پرانی نشانی )اس نے خود کشی کر لی۔(الفاروق)
حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ نے نماز ختم کی، صحابہ ؓکو معلوم ہوا تو آپؓ کے
گرد محراب کے قریب جمع ہو گئے ،ایک اضطراب کی کیفیت طاری ہو گئی ،علاج کے
لیے مدینہ کے مشہور طبیب کو بلایا گیا ،لیکن اس کی پلائی ہوئی دوا زخموں کے
راستے سے باہر نکل گئی، آپؓ کو یقین ہو گیا کہ ان شاء اﷲ میری آرزوئے شہادت
پوری ہوگی،اس وقت آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایاکہ اب مجھے دو اکی ضرورت نہیں کہ
دوا کا وقت ختم ہوا اور دعا کا وقت شروع ہوا ،لہٰذا مجھ کو میرے مولیٰ کے
سپرد کرو، اور یہ بتاؤ کہ میرا قاتل کون ہے ؟صحابہ ؓ نے عرض کیا:مجوسی غلام
ہے ، توسن کر آپؓ نے اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ میرے خون سے کسی مسلمان
کے ہاتھ رنگین نہیں ہوئے ۔
پھر اپنے بیٹے سیدنا عبد اﷲ بن عمر ؓ کو فرمایا:میرا سر اپنی گود سے ہٹا کر
زمین پر رکھ دو، شاید اﷲ تعالیٰ کو مجھ پر رحم آجائے ، نیز فرمایاکہ ام
المومنین و المومنات، عفیفۂ کائنات سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت
میں جا کر میرا سلام عرض کر کے درخواست کرنا کہ عمر پہلوئے رسول صلی اﷲ
علیہ و سلم میں دفن ہونے کے لیے وہ جگہ چاہتا ہے جو آپ نے اپنے لیے رکھی ہے
، جب بیٹے نے اپنی روحانی ماں سے درخواست رکھی تو منظور کر لی گئی، ماں
عائشہ صدیقہ ؓ فرمانے لگیں:کوئی اور ہوتا تو میں انکار کر دیتی ،لیکن عمر
فاروق ؓجیسے جلیل القدر صحابی ٔرسول کو میں انکار نہیں کر سکتی، ام
المومنین رضی اﷲ عنہانے پہلوئے مصطفی میں دفن ہونے کی اجازت دے کر شہید
منبر و محراب سید نا عمر بن خطابؓ کو ہمیشہ کے لیے جنت میں سلا دیا۔
’’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا ‘‘زخمی ہونے کے تین دن کے بعد بعمر
۶۳سال ۲۴ ھ یکم محرم کو سیدنا فاروقِ اعظم رضی اﷲ عنہ کی شہادت کا واقعہ
پیش آیا ۔(الفاروق)
آپؓ کتنے خوش نصیب تھے کہ زندگی میں تو ہر وقت حبیب خدا صلی اﷲ علیہ و سلم
کے قریب رہے ہی، شہادت کے بعد بھی آپ صلی اﷲ علیہ و سلم سے جدائی گوارہ نہ
ہوئی ۔
آج ضرورت ہے اس بات کی کہ محرم الحرام کی آمد پر ہم اس کی عظمت و فضیلت سے
فائدہ اٹھا کر زیادہ سے زیادہ اﷲ جل شانہ کی عبادت اور حضور صلی اﷲ علیہ و
سلم کی سچی اطاعت میں اپنا وقت گذاریں اور اس میں رونما ہونے والے عظیم
الشان واقعات سے نصیحت و عبرت حاصل کریں کہ اسلامی سال کا یہ پہلا مہینہ
محرم الحرام عبادت و عبرت کا ہے ، اس کی عظمت کا تقاضا یہ ہے کہ خصوصاً اس
میں ہر قسم کے محرمات و منکرات، خرافات و رسومات، بدعات اور معاصی سے مکمل
اجتناب کریں ،تا کہ اس کا اثر پورا سال بلکہ زندگی بھر باقی رہے ،غفلت میں
ہر گز نہ گذاریں۔
یاد رکھو ! جس طرح دین کی حفاظت و دعوت کے لیے بوقتِ ضرورت اپنا پیارا ملک
چھوڑنا ضروری ہے ،جسے ہجرت کہتے ہیں ،اور وہ محرم کی ایک یادگار بھی ہے،اسی
طرح دین کی حفاظت کے لیے ہر وقت معاصی سے اجتناب کرنا بھی نہایت ضروری ہے ،
کہ مہاجر صرف وہی نہیں جو دین کی حفاظت و اشاعت کے خاطر بوقت ضرورت اپنا
ملک چھوڑ دے ،بلکہ مہاجر وہ بھی ہے جو ہر وقت اپنے دین کی حفاظت کے لیے
جملہ معاصی چھوڑ دے ،حدیث میں یہی بات بیان کی گئی فرمایا:’’وَالْمُھَاجِرُ
مَنْ ھَجَرَ مَا نَھٰی اللّٰہُ عَنْہُ‘‘(بخاری)
عقلمند لوگ سال کے ختم پرپورے سال کاجائزہ او رحساب کرتے ہیں کہ ہم نے
دنیوی اور اخروی اعتبار سے سال بھر میں کیا کھویا اورکیا پایا، اور اب
آئندہ کیا کرناہے ، اس کا عملی (شرعی) پروگرام او رنظام بناتے ہیں، پچھلی
زندگی کی غفلتوں او رگناہوں پر توبہ او ر آئندہ زندگی کو بہتر سے بہتربنانے
کی طرف توجہ او رکوشش کرتے ہیں، یہی وہ ہدایت ہے جو ہمیں نئے اسلامی سال سے
ملتی ہے ۔
اﷲ تعالیٰ ہر قسم کے خرافات، رسومات ،بدعات اور جملہ معاصی سے ہر وقت ہمیں
محفوظ فرمائے (آمین)
جَزَی اللّٰہُ عَنَّا مُحَمَّداً صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا
ہُوَ أَہْلُہ
٭…٭…٭ |