محرم الحرام کی حرمت و عظمت

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رحمت عالم صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:بہترین روزہ رمضان کے فرض روزوں کے بعد اﷲ تعالیٰ کے مہینے محرم کے روزے ہیں(رواہ مسلم)

محترم مہینہ :
چاند کی سالانہ گردش پھر ایک بار اپنا دورہ تمام کر چکی،اور اسلامی سال کا آخری مہینہ ذی الحجہ ختم ہو کر اسلامی سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام شروع ہو گیا اور عجیب بات یہ ہے کہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ میں جد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کی قربانی کاواقعہ پیش آیا، تو محرم کی دسویں تاریخ میں سبط رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کی قربانی کا واقعہ پیش آیا، گویا اسلامی سال کا آخری مہینہ بھی قربانی والا ہے اور پہلا مہینہ بھی قربانی والا ہے ، فرق اتنا ہے کہ پچھلا مہینہ ہم سے قربانی طلب کرتا ہے تو اگلا مہینہ ہم کو طلب کرتا ہے ۔ غرض دونوں مہینے فضیلت ،عظمت اور حرمت والے ہیں،لیکن محرم کی حرمت تو اس کے نام ہی سے ظاہر ہوتی ہے ،اس لیے کہ محرم کے لغوی معنیٰ معظم اور محترم کے ہیں، قرآن کریم میں بیت اﷲ شریف کی نسبت سیدنا ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام کی ایک دعا میں یہ الفاظ ہیں:رَبَّنَآ اِنّیْ أَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ(براہیم)جیسے کعبۃ اﷲ فضیلت اور حرمت والا ہے ، جس کی وجہ سے اسے محرم کہاگیا، ایسے ہی محرم بھی حرمت اور فضیلت والا ہے ،جس کی وجہ سے اسے بھی محرم کہاجاتاہے ۔ چناں چہ ارشادِ باری ہے : اِنَّ عِدَّۃَ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنا عَشَرَ شَھْراً فِی کِتٰبِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرْضَ مِنْھَآ أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ(التوبۃ)

یہ حقیقت ہے کہ مہینوں کی تعداد تو اﷲ کے نزدیک بارہ ہی ہے ،اس دن سے جب سے اس نے زمین وآسمان بنائے ، اور ان میں سے چار مہینے خصوصاًحرمت والے ہیں ،یعنی محرم، رجب ،ذی القعدہ اور ذی الحجہ ۔

اﷲ تعالیٰ کا مہینہ :
پھر ان میں سب سے زیادہ حرمت و فضیلت محرم الحرام کو حاصل ہے ،اسی لیے رحمتِ عالم صلی اﷲ علیہ و سلم نے حدیث بالامیں اسے شہراﷲ (اﷲ کا مہینہ )فرمایا،حالاں کہ مہینے تو سارے اﷲ تعالیٰ ہی کے ہیں ،لیکن یہ مہینہ بہت محترم اور مبارک ہے ، اس لیے حضور صلی اﷲ علیہ و سلم نے اسے اﷲ تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے ’’شَھْرُ اللّٰہِ‘‘ فرمایا، جیسے مساجد تو سب اﷲ تعالیٰ ہی کے گھر ہیں ، مگر مسجدحرام کو ’’بیت اﷲ‘‘ اس کی عظمت و حرمت کی وجہ سے کہا جاتا ہے ، اسی طرح او نٹنیاں تو ساری اﷲ تعالیٰ ہی کی پیدا کی ہوئی ہیں ،مگرحضر ت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو ’’نَاقَۃُ اللّٰہِ‘‘ اس کی عظمت و حرمت کی وجہ سے کہا جاتا ہے ،اسی طرح انبیاءِ کرام تو تمام کے تمام اﷲ تعالیٰ ہی کے بھیجے ہوئے نبی اور رسول ہیں ،مگر ہمارے آقا صلی اﷲ علیہ و سلم کو ان کی عظمت وحر مت کی وجہ سے ’’مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ فرمایا گیا، اسی طرح مہینے تو سب اﷲ تعالیٰ ہی کے ہیں ،مگر محرم الحرام کو اس کی حرمت و فضیلت کی وجہ سے ’’شَھْرُ اللّٰہِ‘‘ فرمایا ،محرم کی حرمت کے لیے یہی کافی ہے ۔

مزید فرمایا کہ یہ ایسا محترم مہینہ ہے کہ نفلی روزوں میں رمضان کے بعد اسی ماہ میں روزہ رکھنا سب سے زیادہ فضیلت کا باعث ہے ’’أَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ‘‘ فرمایا،یعنی جیسے فرائض کے بعد نوافل میں قیام اللیل اﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے ،اسی طرح فرض روزوں کے بعد نفل روزوں میں محرم کے روزے اﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسندہیں، ایک حدیث میں ہے : یعنی ایام محرم میں سے ایک دن کا روزہ رکھنا دوسرے مہینوں کے تیس دن روزہ رکھنے کے برابر فضیلت رکھتا ہے ۔(الطبرانی)

علامہ نووی ؒ(حدیث مسلسل کے تحت)فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صراحت کرتی ہے کہ نفلی روزے رکھنے کے لیے افضل ترین مہینہ محرم ہے ،اس میں عاشوراء اور اس کے علاوہ محرم کے دوسرے ایام کے روزے بھی داخل ہیں، یہ فضیلت ماہِ محرم کے تمام روزوں کو شامل ہے ، لہٰذا اگر اﷲ تعالیٰ توفیق دیں تو اس پورے مہینے کے روزے رکھیں، یا اس کے ہر پیر او رجمعرات کو روزہ رکھیں، ورنہ نو، دس او رگیارہ کا،او رکم از کم نودس یادس گیارہ کو،مگر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر حضور صلی اﷲ علیہ و سلم زیادہ تر شعبان میں روزے کیوں رکھتے تھے ؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ محرم کی افضلیت کا علم آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کواخیری عرصۂ حیات میں دیا گیا۔یا دوسرا جواب یہ ہے کہ اسفار و اعذار کی وجہ سے آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کو محرم میں بکثرت روزہ رکھنے کا موقع نہ مل سکا تھا۔( واﷲ اعلم ۔ مظاہر حق جدید) بہر حال !ان روایات سے محرم الحرام کی حرمت، عظمت اور فضیلت واضح ہوتی ہے ۔

ہجرت کا مہینہ :
پھر یہ مہینہ عظیم الشان تاریخی واقعات کا حامل بھی ہے ،اس میں اہم اہم امور اور مہتم بالشان واقعات رونما ہوئے ،منجملہ ان میں سے رحمت عالم صلی اﷲ علیہ و سلم کی ہجرتِ مدینہ طیبہ کا واقعہ بھی اسی محترم مہینہ کی یادگار ہے ،جس کا بنیادی مقصد اﷲ جل جلالہ کے پیغام و احکام کی حفاظت و دعوت تھا،اور جو باطل پر حق کی کامیابی کا سب سے بڑا پیش خیمہ تھا ،جس کے بعد اسلام اور اہل اسلام کو صحیح طور پر عقیدہ و عمل کی پوری پوری آزادی ملی ،روایات میں آتا ہے کہ نبوت کے تیر ہویں سال محرم الحرام میں رحمتِ عالم صلی اﷲ علیہ و سلم نے بحکم الٰہی ہجرتِ مدینہ کی نیت فرمائی، پھر کچھ دنوں کے بعد روانہ ہوگئے ،اسی وجہ سے سیدنا فاروقِ اعظم ؓ نے اپنے دورِ خلافت کے چوتھے یا پانچویں سال میں حضر اتِ صحابہؓ کے اجماع سے یہ فیصلہ فرمایا کہ حضور صلی اﷲ علیہ و سلم چونکہ اسلامی سال کے پہلے مہینہ ہی میں ہجرت کی نیت کر چکے تھے ،لہٰذا سن ہجری کی ابتداء بھی اسی مہینہ سے کی جائے ، اس طرح سن ہجری کی ابتداء محرم الحرام سے ہوئی، جو ایک یاد گار ہی نہیں، بلکہ اسلامی تشخص (امتیاز)اور مسلمانوں کا شعار ہے ۔( سیرتِ مصطفی)

اﷲ تعالیٰ ہمیں اس مہینہ کی عظمت وحرمت سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے(آمین بجاہ سیدالمرسلین)

Rizwan Ullah Peshawari
About the Author: Rizwan Ullah Peshawari Read More Articles by Rizwan Ullah Peshawari: 162 Articles with 212342 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.