برازیل کے بعد امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی
جنرل اسمبلی کے 72ویں سیشن سے دوسرا خطاب کیا۔ صدر ٹرمپ کی روایتی تقاریر
میں پاکستان کے بارے میں جارحانہ انداز اپنایا جاتا ہے۔ تا ہم اس خطاب میں
صدر ٹرمپ شمالی کوریا، ایران، عراق اور شام کے خلاف مشتعل پائے گئے۔ شمالی
کوریا کے لیڈر کم جونگ کو ’’راکٹ آدمی ‘‘ کا خطاب دے کر نتائج کی دھمکی دی۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا خطاب جمعرات کو ہو رہا ہے۔ یہ ان کا اقوام
متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پہلا خطاب ہو گا۔ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ
میں بہت نہیں بلکہ سب س زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ اس وجہ سے ملک کو خود دہشت
گردی کا شکار ہونا پڑا۔ ہزاروں معصوم لوگ اس کا نشانہ بنے۔ اربوں روپے کی
املاک تباہ ہوئیں۔ اس دہشتگردی میں بھارت اور اس کی شے پر کام کرنے والے
ممالک بھی پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں۔ بھارتی حاضر سروس کرنل کلبھوشن جادیو
نے پاکستان کے پڑوسی ممالک کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے دراندازی کی اور
دہشتگردی کا نیٹ ورک قائم کیا۔ جس طرح شمالی کوریا امریکی مفادات کے خلاف
کام کر رہا ہے۔ اسی طرح بھارت بھی پاکستان کے خلاف کام کر رہا ہے۔ اس نے
کشمیر میں معصوم عوام کا قتل اعام تیز کیا ہے۔ لوگ بھارتی ریاستی دہشتگردی
اور جارحیت کا شکار بن رہے ہیں۔ دہلی حکومت تما م جمہوری روایات کو پامال
کرتے ہوئے کشمیریوں کو فوجی آمریت اور مظالم کی زد میں لا رہی ہے۔ اس کا
مقصد بندوق اور طاقت سے لوگوں کو غلام بنائے رکھنا ہے۔
بھارت اقوام متحدہ میں اصلاحات اور سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے لئے
لابنگ کر رہا ہے۔ لیکن وہ خود سات دہائیوں سے سلامتی کونسل کی قراردادوں کی
نفی کر رہا ہے۔ ان پر عمل در آمد کے لئے ہونے والی جدوجہد کو دہشتگردی کا
رنگ دے کر دنیا کو گمراہ کر رہا ہے۔ اس نے کمال ہوشیاری اور مکاری سے
کشمیریوں کی تحریک آزادی ک خلاف عالمی سطح پر محاز کھڑا کیا ہے۔ جب کہ یہ
تحریک سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل در آمد کے لئے ہے۔ ذمہ داری دنیا
کی ہے۔ سلامتی کونسل نے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اس کے لئے کشمیریوں کا خون
بہایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی عمل داری کی مخالف کے لئے بھارت کشمیریوں
کا قتل عام کر رہا ہے۔ بھارت 70سال سے سلامتی کونسل کے فیصلے کو مسترد کر
رہا ہے۔ وہ کیسے اس فورم کا مستقل رکن بن سکتا ہے۔ بھارت کو سلامتی کونسل
کا غیر مستقل رکن بھی تب تک نہیں بنانا چاہیئے جب تک وہ اس ادارے کی
قراردادوں پر عمل نہیں کرتا۔ بلکہ بھارت کو اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل
کا ڈیفالٹر ملک قرار د ے کر اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیئے۔ بھارت اقوام
متحدہ کو اہمیت ہی نہیں دیتا۔ وہ غیر سنجیدہ ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما
سوراج وفد کے ہمراہ جنرل اسمبلی س خطاب کریں گی۔ جبکہ پاکستان انتہائی
سنجیدہ ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم جنرل اسمبلی سے خطاب کر رہے ہیں۔ اس وقت
دنیا موسمیاتی تبدیلی پر فکر مند ہے۔ بھارت کا اس فکر مندی کا اظہار ایک
فریب ہے۔ بھارت خود ہمالیہ اور بلند خطوں میں اپنی فوجیوں کی تعداد میں
اضافہ کر رہا ہے۔ جو گلیشیئرز کے پگلنے اور موسم کو گرم کرنے، فضائی آلودگی
میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ بھارتی فورسز ہر سال جنگلوں میں آگ لگا دیتے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی اور آلودگی کا ذمہ دار ملک کس طرح آلودگی کے خلاف بات کر
کے دنیا کو دھوکہ د ے رہا ہے۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی
نیویارک میں بھارتی وزیرخارجہ سے ملاقات پاکستان کے خلاف محاذ گرم کرنے کی
کڑی سمجھی جاتی ہے۔ جس طرح اندرا گاندھی نے مکتی باہنی کی مدد کی اسی طرح
نریندر مودی شمالی اتحاد کے حمایت یافتہ طالبان کی مدد کر رہے ہیں۔ انہیں
دہشتگردی کی تربیت اور اسلحہ دیا جا رہا ہے۔ دنیا کو اس پر بھی بات کرنا
چاہیئے۔ سشما سوراج نے فلسطین پر غیر وابستہ تحریک’’ نام ‘‘اجلاس میں شرکت
کر کے اسرائیلی دہشتگردی کے شکار معصوم فلسطینیوں کا مذاق اڑایا ہے۔
اسرائیل اور بھارت کھل کر معصوم عوام کے خلاف سرگرم ہیں۔ وہ بندوق کی نوک
پر انہیں غلام رکھنا چاہتے ہیں۔
شام کے مہاجرین کو پناہ دینے پر لبنان ، اردن اور ترکی جیسے ممالک کی تعریف
کی جاتی ہے۔ جب کہ پاکستان تین دہائیوں سے افغانستان کے لاکھوں مہاجرین کو
پناہ دے رہا ہے۔ پاکستان کے اس کردار کو نظر انداز کرنا غیر مناسب ہو گا۔
پاکستان نے ہمیشہ افغانستان میں امن اور ترقی کے لئے کردار ادا کیا۔ جب کہ
بھارت نے افغانستان میں دہشتگردی کے کئی کیمپ قائم کئے ہیں۔ جو بھارت قونصل
خانوں کی سرپرستی میں کام کر رہے ہیں۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نیو یارک میں او آئی سی کے کشمیر رابطہ گروپ ،
نام، جی 77، ای سی او، سارک، دولت مشترکہ، ڈی 8 ، جیسے اجلاسوں کو نتیجہ
خیز بنانے میں کردار ادا کر سکیں گے۔ جب کہ عالمی امن، سلامتی اور ترقی
پاکستان کی بھی خواہش ہے۔ توقع ہے کہ وزیراعظم جنرل اسمبلی کے خطاب،
سیکریٹری جنرل انٹینیو گوٹررس ک ساتھ ملاقات اور فارن تعلقات کونسل، پاک
امریکہ بزنس کونسل سے خطاب، عالمی میڈیا سے بات چیت میں مسلہ کشمیر، عالمی
اور علاقی سیاست میں پاکستان کی پالیسی واضح کریں گے۔ جیسے کہ اقوام متحدہ
میں مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے بھی واضح کر دیا ہے ، وزیراعظم دنیا
کو بھارت کی جانب سے بات چیت سے فرار ، کشمیریوں کا قتل عام، جنگ بندی لکیر
کے آر پار بلا اشتعال گولہ باری سے شہریوں کو نشانہ بنانے وغیرہ جیسے ایشوز
سے بھی آگاہ کریں گے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ایجنسیاں ماورائے عدالت
تحریک آزادی سے وابستہ لیڈر شپ اور کارکنوں کو انتقامی کارروائی کے طور پر
حراست میں لے کر قید کر رہی ہے۔ وزیراعظم دنیا کو اس بارے میں بھی آگاہ
کریں تو بھارت ب نقاب ہو سکتا ہے۔
دنیا آج امن اور بہتر زندگی کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔ جنرل اسمبلی کا اجلاس
بھی رواں سال اسی پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ تا ہم تنازعات کو پرامن طور
حل کئے بغیر یہ خواب پورا نہین ہو سکتا۔ جنرل اسمبلی کے صدرمیروجکوف لاجکق
نے بھی اپنے افتتاحی کلمات میں یہی بات کی کہ اقوام متحدہ لوگوں کے لئے
قائم کی گئی ہے۔ اس لئے اس کا فوکس بھی عوام ہی ہیں۔ عوام کا قتل عام کرنے
اور ریاستی دہشتگردی میں مصروف ریاستوں کے بارے میں اقوام متحدہ نے سنجیدہ
اقدامات نہ کئے تو امن اور ترقی یا عوام کی خوشحالی کے مقاصد پورے نہیں کئے
جا سکتے۔
|