بابا گرمیت سنگھ رام رحیم

 بغل میں چھری منہ میں رام رام

کہنے کو تو موجودہ دور مذہب بیزاری کے دور سے جانا جاتا ہے لیکن حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ انسانی سوچ پر مذہب کے نمایاں اثرات رہے ہیں اور انسانی سماج کی تشکیل اور فعالیت میں بھی مذہبی عقیدت اور رسم و رواج کا کافی عمل دخل رہا ہے۔ بلا تامل کہا جا سکتا ہے کہ انسان چاہے کتنا بھی جدیدیت کی طرف گامزن ہو وہ کبھی بھی مذہبی عقائد سے کلی طور پر بے نیاز نہیں ہوسکتا ہے۔ بلکہ زمانہ جتنا آگے کی اور بڑھتا جائے گا معنویت اور روحانیت کی طلب بھی اتنی ہی زیادہ بڑھتی جائے گی۔خاص طور سے مشرقی معاشروں میں مذہب کو روح کی حیثیت حامل ہے۔اس وجہ سے مذہبی رہنماووں کو بھی مشرقی معاشرے میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔یہاں کی معاشرت میں ان کا سکہ خوب چلتا ہے ۔ان کے تئیں عوامی اعتماد و حمایت کا موازنہ دیگر طبقوں سے کیا جائے تو نمایاں فرق نظر آئے گا۔ یقینا ایک مخصوص قسم کی عقیدت ان کے ساتھ عام لوگوں کو وابسطہ ہوتی ہے۔اس عقیدت و احترام سے بعض اوقات سوءِ استفادہ بھی کیا جاتا ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ استحصال کا ذریعہ وہی چیز بن سکتی ہے کہ جس کا چلن ہو۔یہی وجہ ہے کہ جہاں اصلاح پسند اور انقلابی رہنماووں نے وقتاً فوقتاً مذہبی جذبہ کو استعمال کر کے عالمِ انسانیت کی کایا پلٹ کے رکھ دی وہاں استحصالی عناصر نے مذہب اور مذہبی عقیدت کے تئیں انسانی جذبہ کو اپناالو سیدھا کرنے کا ایک ذریعہ بنایا۔واضع رہے یہ استحصالی عناصر کسی خاص مذہب کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں میں مُلااِزم ، ہندووں میں برہمن اِزم یا جدید اصلاح میں بابااِزم اور عیسائیوں میں پوپ اِزم اس کی چند ایک صورتیں ہیں۔نیز مذکورہ استحصال کے بھی ایک کئی ایک روپ ہے ۔کہیں اسی جذبہ کے غلط استعمال سے قتل و غارت گری کا بازار گرام کیا جاتا ہے اور کہیں اسی کی وساطت سے جنسی تلذز حاصل کیا جاتا ہے کہیں اس کی آڑ میں خاندانی راج پاٹ کی چولہیں مظبوط کی جاتی ہے۔اور کہیں پیری مریدی کے سلسلے کو دوام بخش کرپیر نما ٹھگ اپنے سیدھے سادھے مریدوں کو ٹھگتے آرہے ہیں۔ایسے’’ مذہبی سرمایہ داروں ‘‘خاصی تعداد یہاں موجود ہے جنہوں نے مذہب کو حصولِ زر کا ذریعہ بنایا ۔اور ایک بڑا اثاثہ جمع کیا ۔

بلاشبہ مذہب ہوا و ہوس پر قدغن لگانے اور نفسِ امارہ کو رام کرنے کا ایک موثر ترین ذریعہ ہے لیکن ان سادھو نما ٹھگوں کی اس وقت دنیا میں کمی نہیں ہے کہ جو روحانیت اور آستھا کو نفسانی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بناتے ہیں۔تعجب کی بات یہ ہے کہ ایسے دنیا پرست ترکِ دنیا کا درس دیتے تھکتے نہیں ہیں۔اور موہ مایا (حبِ جاہ و دولت)کے جال سے نکلنے کی تدبیریں بتانے والے مایا اور حبِ دنیا کی چلتی پھرتی مورتیاں ثابت ہوتے ہیں۔ ان ہی مورتیوں میں سے ایک مورتی ریاست ہریانہ کے ایک بہت ہی بڑے ڈیرے یعنی مذہبی پرچار کے ایک مرکز سے برآمد ہوئی ۔یہ مذہبی مرکزڈیرا سچا سودا کے نام سے مشہور ہے۔ اور اس مورتی کا نام گرمیت سنگھ رام رحیم ہے۔گرمیت سنگھ رام رحیم ۱۹۹۰ ء میں اس آشرم کا سربراہ بن گیا۔پورے ہندوستان میں چالیس آشرموں کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں بھی اس کے کئی ایک آشرم ہیں ۔بتایا جاتا ہے کہ رام رحیم کے قریباً ۵ کروڑ عقیدتمند دنیا بھر میں موجود ہیں۔ دراصل یہ اندھی عقیدت ہی ہے جو رام رحیم جیسے شیطان صفت انسانوں کو بھگوان کا درجہ دیتی ہے اور جب ایک شیطان بھگوان کی گدی سنبھالے تو وہی کچھ ہوتا ہے کہ جو ایک عرصے سے ڈیرا سچا سودا آشرم میں ہو رہا تھا۔ایسا ہرگز نہیں کہ اس ڈھونگی بابا جیسے افراد کو اپنی حقیقت کا احساس نہیں ہوتا ہے البتہ مریدوں کی ساد ہ لوحی اور بے جا عقیدت ان کے ضمیر کی آواز کو دبا دیتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ ’’پیراں نمی پرند مریداں می پرانندـ‘‘ یعنی پیر ہوا میں نہیں اڑتے ہیں البتہ مرید انہیں اڑاتے ہیں۔دوسری چیز جو ان جیسے بد قماش لوگوں کو کچھ بھی کر گزرنے اور کسی بھی حد تک جانے پر آمادہ کرتاہے وہ یہ کہ انہیں صاحبِ اقتدار و صاحبِ رسوخ افراد کی جانب ہر قسم کی حمایت حاصل ہوتی ہے ۔ بابا گرمیت سنگھ رام رحیم کو بھی انہی دو چیزوں نے لے ڈوبا اور ان کے سہارے اس نے ایک عالی شان جاگیر کھڑی کر دی تھی۔یہ جاگیر سینکڑوں ایکڑ پر پھیلی زمین پر مشتمل تھا۔ جس میں اس بابا کا غار نما محل ہے جہاں ہر قسم کا سامانِ عیش و عشرت پایا جاتا ہے۔ بابا کے دیگر بے شمار اثاثوں کی مالیت بے حد و حساب ہے۔اس انوکھے اور جدید سادھو کے شوق بھی عام سادھووں سے بالکل نرالے تھے۔کھیل کود ،گانا بجانا،فلمیں بنانا ،نئے نئے ڈیزائین کے ملبوسات پہننا،بائک اورجدید سہولیات سے لیس گاڑیاں چلانا اس کے چند ایک مشغلے تھے۔اس کے پاس دسیوں ایسی جدید اور آرام دہ گاڑیاں ہیں جن میں کچھ گاڑیوں کی قیمت سولہ کروڑ سے اٹھارہ کروڑتک ہے۔ عیش و عشرت کے ساتھ ساتھ بابا نے پورے ملک میں اپنا رعب و دبدبہ بھی قائم کیا تھا۔کہا جاتا تھا کہ ہریانہ اور پنجاب میں حکومت کسی کی بھی ہو حکم اسی سادھو کا چلتا تھا۔ ان دو ریاستوں کے بڑے بڑے سیاست دان حتیٰ کہ ریاستی وزیر بھی اس کے سامنے جبین سائی کو باعثِ سعادت جانتے تھے۔ ۲۰۱۵ ء میں اینڈین ایکسپرس کے ذریعے کئے گئے ایک سروے کے مطابق رام رحیم ملک کے سو موثرترین اور طاقتور ترین افراد میں شامل تھا۔بظاہر یہ آشرم آستھا اور عقیدت کا مرکز تھا لیکن اس کے روحِ رواں بابا رام رحیم کی کرتوت جو فاش ہوئیں تو یہ آشرم ایک گورکھ دھندے کا اڈہ نکلا۔جہاں اس رنگیلے سادھو کی بادشاہت قائم تھی اس کے اشاروں پر وہاں کاپورا نظام چلتا تھا۔ سینکڑوں رضاکاروں بشمول دوسو نو (۲۰۹) سادھویاں یہاں اپنے گرو کی خدمت پر مامور تھیں۔ اس سادھو نما شیطان نے گویا اپنے خاص رہائش کو حرم سرا بنارکھا تھا ۔ان خواتین کے علاوہ کسی کو بھی بابا کے خاص کمرے تک رسائی حاصل نہیں تھی۔ یہ ڈھونگی بابا نہ صرف جنسی ہوس کا رسیا تھا بلکہ اس پر الزام ہے کہ اپنی حقیقت کو پوشیدہ رکھنے کے لئے اس نے کچھ افراد کو قتل کروایا۔ایسے میں اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ظاہری اعتبار سے اس نے کروڑوں افراد کو یہ فریب دیا تھا کہ وہ ایک روحانی شخصیت ہے اور اپنے نام کے ساتھ رام رحیم جھوڑکر یہ باور کرایا کہ وہ مذہبی منافرت سے بالا تر ایک ایسی آئڈیو لاجی کو فروغ دینے میں مصروف ہے کہ جس میں ہر مذہب کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔یہ فریبی تین اعتبار سے خود کو نہایت ہی محفوظ سمجھ رہا ہوگا۔ اول یہ کہ اس نے نہایت ہی عیاری کے ساتھ اپنے آپ کو ایک روحانی اور کرامتی شخصیت کے طور سادہ لوح عقیدت مندوں سے منوا لیا تھا۔دوم: اسی نام پر اس نے عربوں مالیت کا اثاثہ جمع کیا تھا۔اور امیر ترین افراد میں شامل تھا۔ سوم یہ کہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں پر اس کا رعب و داب کافی چلتا تھا۔ بالفاظِ دیگر فرعون کی طاقت ،قارون کی دولت اور بلعم بعورکی فریب خوردہ روحانی شخصیت ایک ہی قالب میں مجتمع ہوگئی تھی۔ اس قسم کے شاطر،افراد کی دشمنی مول لینا ایک عام انسان کے لئے خطرے سے خالی نہیں ہوا کرتی ہے ۔بلا شبہ اس کام کے لئے غیر معمولی جرأت و ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔اسی جرأت کا اظہارمیں ایک لڑکی نے کیا جو اسی آشرم میں ایک سادھوی کی حیثیت سے رہ چکی ہے۔ اور خود بھی اس جنسی درندے کے ہوس کا شکار ہو گئی ہے۔مذکورہ خاتون نے ۲۰۰۲اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری کو ایک خفیہ خظ لکھا ۔ جس میں اس خاتون اور ڈیرا سچا سودا میں قیام پزیر دیگر خواتین کے ساتھ ہو رہی گوناگوں زیادتیوں کی روداد لکھی گئی تھی۔اسی خط نے بابا رام رحیم کا اصلی چہرہ مہر ہ سامنے لایا۔ مگر جرأت ِ اظہار کا اس خاتون کو بھاری قیمت چکانا پڑی ۔ اس کا بھائی رنجیت سنگھ جو خود بھی اسی آشرم میں بطورِ خدمت گزار کام کر رہا تھا ۔کو اس جرم میں قتل کیا گیا کہ اس نے بہن کے ساتھ مل کر بابا کے خلاف بغاوت کی ۔یہاں پر اس خط کے چند ایک چیدہ چیدہ اقتباس پیش کئے جاتے ہیں تاکہ اندازہ ہو جائے کہ کس طرح مذہب اور معنویت کے نام بھی ایک گھناونا کھیل کھیلا جاتا ہے ۔ یہ خاتون اپنے اس خط میں وزییرِ اعظم سے مخاطب ہو کر رقمطراز ہے۔

’’میں گزشتہ پانچ سال سے آشرم میں ایک سادھوی کی حیثیت سے رہ رہی ہوں۔ میرے ساتھ اور بھی دسیوں خواتین سولہ سے اٹھارہ گھنٹے یہاں خدمت میں مصروف رہتی ہیں۔ہمارا وہاں جنسی استحصال کیا جارہاہے۔میں ایک پڑھی لکھی لڑکی ہوں میرے گھر والے گرمیت سنگھ رام رحیم کے اندھے بھگت (عقیدت مند) ہیں۔انہی کے کہنے پر میں ڈیرا سچاسودا سرسا ہریانہ میں ایک سادھوی کی حیثیت سے رہنے لگی۔
ڈیرے میں آنے کے دو سال بعد ایک بار مجھ سے بابا کی ایک خاص سادھوی نے کہا کہ مہاراج تجھے بلا رہے ہیں ۔ اس بات پر میں خوشی سے پھولے نہیں سمائی کہ پہلی بار مجھے پرمہاتما نے بلایا ہے۔لیکن جب میں بابا کے خصوصی کمرے میں گئی تو وہاں کے ماحول کو دیکھ کر میرے پیروں کے نیچے زمین کھسک گئی۔بابا بیڈ پر بیٹھا تھا اس کے ہاتھ میں ٹی ،وی کا ریموٹ اور سرہانے پرریوالور(REVOLVER)رکھا ہوا تھا۔ اورسامنے لگے ٹی،وی پر فحش مناظر رقصاں تھے ۔

اس (گرمیت سنگھ)نے مجھے بیڈ پر بیٹھنے کا حکم دیااور کہا کہ جب تم یہاں سادھوی بن کر آئی تھی اسی وقت تو نے اپنا جسم و جاں مجھے سونپ دیا تھا۔یہ کہہ کر وہ مجھ سے دست درازی کرنے لگا۔ جب میں نے اپنی ناموس کو بچانے کے لئے مزاحمت کی تواس نے کہاکہ میں خدا ہوں اور تجھ پر میرا مکمل اختیار ہے۔ میں چاہوں تو تمہاری جان بھی لے سکتاہوں۔ جب میں نے یہ کہا کہ کیا خدا بھی ایسا کام کر سکتا ہے ؟تو اس نے جواب میں کہا کہ بھگواں کرشن کے ساتھ بھی تین سو سٹھ(۳۶۰) گوپیاں تھی جن کے ساتھ وہ پریم لیلا کیا کرتے تھے۔اس نے مجھے ڈرایا دھمکایا اور میں بے بس ہو کر اس کے ہوس کا شکارہوگئی۔

مہاراج کی ہدایات کے مطابق سفید کپڑے پہننا،سر پر دوپٹا رکھنا،کسی مرد کی جانب آنکھ اٹھا کر نہ دیکھنا،اور مردوں سے دس فٹ کی دوری پر رہنا ہم(سادھو یوں) کے لئے لازمی ہے۔بظاہر ہم دیویاں ہے مگر اصل میں ہماری حالت بازاری عورتوں سے مختلف نہیں ہے۔

ایک مرتبہ جب میں نے اپنے گھر والوں سے کنایتاً کہا کہ ڈیرے میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ جب بھگوان کے پاس رہتے ہوئے تجھے ٹھیک نہیں لگ رہا ہے تو پھر کہاں پر ٹھیک ہوگا۔ تمہارے ذہن میں برے خیالات گردش کرنے لگے ہیں۔‘‘

یہ خط ان مریدوں اور اندھے عقیدت مندوں کے لئے بھی چشم کشا ہے کہ جو روحانی کمالات کے دعویٰ دار ہر شخص کی باتوں میں اپنا سب کچھ اس پر لٹانے کے لئے تیار رہتے ہیں ۔یہ ایک قلم کی سیاہی تھی کہ جس نے ایک خود ساختہ مہان آتما کے سیاہ کارنامے فاش کر دئیے۔ اور اس قلم کا ساتھ ایک اور قلم نے دیا ۔یہ قلم ایک فرض شناس اور بے باک صحافی رام چندر چترپتی کا تھا۔ رام رحیم اور ڈیرا سچا سودا کی اصل حقیقت سامنے لانے میں اس نے کلیدی رول نبھایا۔ وہ ’’پوراسچ ‘‘ کے نام سے اخبار نکالتے تھے ۔پورا سچ میں ڈیرے اور گرمیت سنگھ کے حوالے سے سچائی مسلسل چھپتی رہی ۔جس سے گرمیت سنگھ اور اس کے حوالیوں موالیوں کی نیندیں اڑ گئیں۔ چترپتی کو کافی ڈرایا دھمکایا گیا لیکن وہ خوف زدہ ہوئے نہ لالچ میں آگئے اسے ۲۴ ستمبر ۲۰۰۲ ء کو گولی مار کر ابدی نیند سلا دیا گیا۔ بالآخر پندرہ سال بعد ان دو تحریروں نے رنگ لایا ۔اور سی ،بی، آئی پنچکلاہ عدالت نے گرمیت سنگھ رام رحیم کو مجرم قرار دیااور جنسی زیادتی کے دو الگ الگ معاملوں میں دس دس سال کی قید کی سزا سنائی۔بیس سال قید کی سزاسن کر خود کو بھگوان کہنے والا گرمیت سنگھ حواس باختہ ہو کر عدالت کے فرش پر بیٹھ گیا اور دھاڑیں مار کر رونے لگا۔

مذہب اور روحانیت کے نام پر عیاشی کا اڈہ کھولنا قابلِ مذمت فعل ہے ۔مگر اس سے بھی شرمناک امر یہ ہے کہ رام رحیم کے ہزاروں ماننے والے عدالت کے فیصلہ پر سیخ پا ہوگئے۔ انہوں نے توڑ پھوڑ کی اورچند ہی گھنٹوں میں کروڑوں کی سرکاری و غیرسرکاری املاک کو آگ لگا کر پھونک ڈلا۔احتجاج اس شدت کا تھا کہ جوابی کاروائی میں قریباً چالیس افراد کی جانیں گئیں۔اور سینکڑوں افراد زخمی ہو گئے۔گویا ان ساون کے اندھوں کو اپنے گرو کے متعلق ہریالی کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔اور وہ سب اسی غلط راہ وروش پر گامزن ہیں جس میں کہنے والے کہتے ہیں ۔کہ ’’پیرِ من خس است اعتقادِ من بس است یعنی میرا گرو اور پیر خس و خاشاک کی مانند نہایت ذلیل شخص ہی سہی مگر پھر بھی اس کے تئیں میرا اعتقاد کافی ووافی ہے۔‘‘بلوائیوں کایہ کہناکس قدر مضحکہ خیز ہے کہ ان کا بابا بے قصور ہے۔حالانکہ بابا کے ساتھ ناانصافی کے امکانات نفی کے برابر تھے ۔اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے اس کے پاس تمام وسائل موجود تھے۔دولت، شہرت، اثرو رسوخ، عوامی حمایت کے ہوتے ہوئے بھی عدالت کسی کو خواہ مخواہ کیسے قصور وار ٹھہرا سکتی ہے؟

بہر کیف جہاں اندھے عقیدت مندوں کے لئے رام رحیم کی کتابِ زندگی چشم کشا ہے وہاں ان نقلی پیروں،ڈھونگی باباووں، مذہبی سرما یہ داروں،مذہب کے نام پر خاندانی بالا دستی قائم کرنے والوں کے لئے بھی عبرت آموز ہے ۔ اور ساتھ ہی ساتھ ان افراد کے لئے بھی حوصلہ افزا ہے کہ جو اس قسم کے افراد کے استحصال کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ بابا رام رحیم جیسے فریب کاروں کے چہرے سے مذہب کا نقاب نوچنے کے لئے کوئی جرأت اظہار کا مظاہرہ کرے اور کوئی اس کی حمایت میں قلم کی سیاہی صرف کرے اور ضرورت پڑھنے پر اپنے خون سے حقیقت کی گواہی دے۔
 

Fida Hussain
About the Author: Fida Hussain Read More Articles by Fida Hussain: 55 Articles with 61211 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.