نور ِخدا

مسجدِ نبوی کا وسیع و عریض دامن شمعِ رسالت ﷺ کے پروانوں سے بھر چکا تھا ۔ لیکن لاکھوں عاشقانِ رسول ﷺ ہر گزرتی گھڑی کے ساتھ مدینہ پاک کی طرف دیوانہ وار بڑھ رہے تھے ۔ چودہ صدیوں سے وقت شب روز کئی کروٹیں بدل رہا ہے ۔ہر بدلتی کروٹ اور نئے دن کے ساتھ پروانوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا ہے ۔ فضاؤں میں پھیلی درود و سلام کی مشکبو گونج کیف و سرور کی لذتیں بکھیر رہی تھی ۔ پروانوں کی آنکھوں میں شوق و اشتیاق دید کی ہزاروں شمعیں روشن تھیں ۔دنیا کے چپے چپے سے آئے یہ لاکھوں پروانے مختلف خدوخال ، زبان اور تہذیب رکھنے کے باوجود اپنے چہروں کو عشقِ رسول ﷺ کے نور سے سجائے ہوئے اِس گوشہ عافیت میں جمع تھے ۔ اِن پروانوں کی یہاں موجودگی بتا رہی تھی کہ کائنات کہ ہر شے فخرِ دو عالم ﷺ کی محبت میں گرفتار ہے ۔ کائنات کا ذرہ ذرہ چپہ چپہ آمنہ کے لال ﷺ کی محبت میں تو گرفتار ہے ہی اصل میں اِس کائنات کا مالک خالق ِارض و سما بھی بھی شہنشاہ ِ دو عالم کی محبت میں گرفتار ہے ۔ اپنے محبوب نبی کریم ﷺ کے نور کی تخلیق سے پہلے نور عشقِ الہی اپنے ہی گرد محوِ طواف رہتا تھا ۔ کیونکہ اِس نور کے اندر اپنے محبوب ﷺ کا عکس اور نور چھلکتا تھا۔ یہ سلسلہ ہزاروں سالوں تک اِسی طرح جاری و ساری رہا ۔صدیوں پر صدیوں گزرتی چلی گئیں اور محبت کا یہ طواف اِسی طرح جاری رہا ۔ پھر خالقِ ارض وسما نے اپنے محبوب ﷺ کے نور کو وجود بخشا تو نورِ عشقِ الہی اِس طرف منعطف ہوا۔حضرت ولی اﷲ محدث دہلوی اِس طرح فرماتے ہیں۔جب اﷲ رب العزت نے اپنے محبوب پاک ﷺ کا نور پاک پیدا فرمایا تو کہا:انت عشقی وانا عشقک۔اے میرے حسنِ ازلی کے مظہر اور میری قدرت کا شاہکار محبوب ﷺ آپؓ ﷺ میرے عشق ہیں اور میں آپ ؓ ﷺ کا عشق ہوں ۔ اور پھر وہم و گمان سے بھی ماورا صدیوں تک محبوب کے نورانی جلوؤں میں مد غم رہا یہاں تک کہ نور عشقِ الہی نے اپنے محبوب ﷺ کے نور سے قرار پکڑا اور 18ہزار عاملین کی مخلوقات پر یہ عیاں ہو گیا کہ کائنات تخلیق کرنے کی وجہ صرف اﷲ رب العزت کے محبوب کی ذات با برکات اقدس و مقدس ہے اگر اس نے اپنے محبوب کا نو رپاک تخلیق نہ کیا ہوتا تو کائنات بھی تخلیق نہ کی جاتی اِس کائنات کی تخلیق اِس ذات کبریا کے محبوب ﷺ کے نور ِ پاک کی مرہون ِ منت ہے محورِ عشق و محبت صرف محمد ﷺ جو اﷲ رب العزت کے آخری رسول ﷺہیں صرف ان کی مایا ناز ہستی اور ستودہ صفات ہستی و شخصیت ہے جس سے اﷲ رب العزت خود بھی محبت فرماتا ہے اور تمام سماوی و ارضی اور آبی و فضائی مخلوقات کے لیے بھی یہ حکم ہے ۔میرے محبوب ﷺ سے محبت لازمی اور ابدی ہے ۔اگر اس کے محبوب ﷺ سے محبت نہ کی جائے تو یہ محبت نقش بر آب سے زیادہ نہیں اصحابِ چشم بینا ان حقائق کی روشنی میں پکا ر پکار کر کہتے ہیں اﷲ تعالی محبوب ﷺ نہیں مگر اس سے جدا بھی نہیں ۔ پھر خالق ارض و شما نے اپنے محبوب کے نور کو حضرت آدم کی جبیں مبارک میں رکھا پھر انہیں زمین پر اتارا اور نسلِ انسانی کا آغاز ہوا ۔ پھر نورِ محمدی ﷺ سفر کرتا ہوا حضرت شیث کی روشن پیشانی پر جگمگایا تو ربِ کعبہ نے حضرت آدم پر وحی بھیجی اے آدم پنے بیٹے شیث سے عہد لیں اور وصایا و مواثین پر کار بند یں کہ وہ نورِ محمدی ﷺ کو کسی صورت بھی ناراض نہ کریں اور وصایا نسل در نسل جاری رہیں ۔کعب احبار سے روایت ہے حضرت آدم نے اپنے بیٹے شیث سے فرمایا ۔ اے میرے بیٹے تم میرے بعد میرے جانشین ہو تم تقوی اختیار کرو اور جب بھی اﷲ تعالی کا ذکر کرو تو اس کے ساتھ حضرت محمد ﷺ کا اسم مبارک ضرور لو کیونکہ میں نے ان ﷺ کا نام ساق عرش پر اس وقت لکھا ہوا دیکھا جب کہ میں روح اور مٹی کی درمیانی حالت میں تھا ۔پھر میں نے تما م آسمانوں کا چکر لگایا تو میں نے اس ہستی ﷺ کی شان محبوبیت کا بارگا ہ ِ رب العزت میں یہ عالم دیکھا کہ آپ ﷺ کا نام پاک محمد ﷺ بھی اﷲ تعالی کو اتنا پیارا ہے کہ آسمانوں میں کوئی جگہ ایسی نہیں دیکھی جہاں محمد ﷺ کا نام نہ لکھا ہو میرے رب نے مجھے جنت میں رکھا تو میں نے جنت میں کوئی محل ، کوئی بالا خا نہ کوئی دریچہ ایسا نہ دیکھا جس پر اسمِ محمد ﷺ تحریر نہ ہو ۔ اے میرے بیٹے میں نے محمد ﷺ نام حوروں کے سینوں پر فرشتوں کی آنکھوں کی پتلیوں میں شجرِ طوبی اور سدر المنتہی کے پتوں پر لکھا دیکھاہے تم بھی کثرت کے ساتھ ان کا ذکر کیا کرو کیونکہ فرشتے بھی ہر وقت ان کا ذکر کرتے رہتے ہیں ۔ حضرت آدم اپنے بیٹے حضرت شیث کو نصیحت کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں ۔اے پیارے بیٹے میری جبیں سے منتقل ہو کر تمھاری پیشانی میں جو یہ نور چمک رہا ہے وہ نورِ محمدی ﷺ ہے جو انبیا کرام کے سرتاج اور نبی آخر الزمان ﷺ ہیں ۔بیٹا توجب بھی اﷲ کا نام لیا کرے تو محمد ﷺ کے نام سے اﷲ کے نام کو سجایا کر کیونکہ ذکرِ محمد ﷺ کے بغیر ذکرِ الہی میں رونق نہیں آتی ۔ اِسم اﷲ اس وقت جمال کمال کا مظاہرہ فرماتا ہے جب اس کے ساتھ اس کے کمالات کا حقیقی مظہر محمد ﷺ آ جا تا ہے ایک روایت میں آتا ہے ۔ حضرت شیث نے اپنے والد حضرت آدم سے دریافت فرمایا والد صاحب آپ ہمیشہ بڑی تر غیبی اندا ز میں نبی آخرالزمان ﷺ کا وصف بیان کرتے آئے ہیں ذرا اتنا تو بتا دیں کہ آپ میں اور نبی آخر الزماں ﷺ میں کیا فرق ہے حضرت آدم یہ سن کر خوف و حیرت سے فرمانے لگے ۔ اے جانِ پدر محمد عربی ﷺ کے ساتھ میرا مقابلہ ہر گز نہ کرنا ان کی بزرگی و شرف کا اندازہ ان کی امت کا موازنہ میرے ساتھ کرنے سے تجھے پتہ چل جائے گا کہ ان کا مرتبہ میری قوت رسائی کی حد سے بعید ہے بیٹا غور سے سن اور یاد رکھ ۔ مجھ سے بے خیال میں ایک بھول ہو گئی تھی تو بحکم اِلہی میرا ستر نکل گیا میں بے ستر ہو گیا ۔ جنت کے پتوں سے ستر چھپانے کی کوشش کی تو پتے مجھ سے بھا گنے لگے اور پناہ مانگنے لگے مگر امت محمد ﷺ ہزار گناہ دانستہ کرے گی پھر بھی ان کا ستر نہیں کھلے گا وہ بے ستری سے بچ جائیں گے اور میں نہ بچ سکا ۔بیٹا ایک خطا مجھ سے سر زد ہو گئی تھی ۔مجھے گھر سے نکا ل دیا گیا فرشتوں نے ملامتیں کیں مگر امت ِ محمدی ﷺ گناہوں پر گناہ کرے گی لیکن ان کو بے گھر نہیں کیا جائے گا ۔ فرشتوں کو ملامت کرنے کی اجازت بھی نہیں ہو گی ۔اے بیٹے تیرے والد کے بے جان ڈھانچہ میں اس وقت تک روح نہ داخل ہونے پائی جب تک میری جبیں پر نو رِ خدا کا قدم نہ آیا یعنی مجھے جان ملی تو صرف فخرِ دو عالم ساقی کو ثر ﷺ کے دم قدم سے ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 801 Articles with 653905 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.