مراد رسول، خلیفہ دوم، فاروق اعظم، حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ

حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے یوم شہادت کے حوالے سے خصوصی تحریر (یکم محرم الحرام یوم شہادت حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ )
اسلام کے ہیرو
جن کے مسلمان ہوجانے سے اسلام کی تاریخ کا ایک بالکل نیا دور شروع ہو ا !

آج یکم محرم الحرام ہے وہ تاریخ جس روز مراد رسول ،خلیفہ دوم ،فاروق اعظم ،حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے، یکم محرم کو اتوار کا دن تھا جب حضرت عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حضرت عائشہ کے حجرہ مبارک میں رسول اﷲؐ اور حضرت ابو بکرصدیقؓ کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔ آپؓ کی نماز جنازہ حضرت صہیبؓ نے پڑھائی، جب کہ حضرت عثمان غنیؓ، حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، حضرت سعدؓ اور عبداﷲ بن عمرؓ نے آپ کو قبر میں اتارا ،حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو کس بدبخت نے کب اور کس طرح شہید کیا اس کا احوال اس کالم کے آخر میں آئے گا اس وقت ہم حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اسلام میں آمد کے تاریخ ساز واقعے کے حوالے سے تفصیلات بیان کرتے ہوئے مضمون کو آگے بڑھاتے ہیں۔

نبی آخری الزماں حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب مشرکین کو اسلام کی دعو ت دینا شروع کی تو انہوں نے ان کے ساتھ نہایت برا سلوک کیا اور سوائے چند لوگوں کے جو اسلام میں داخل ہوگئے تھے، باقی سب نے ان کی راہ میں ہر طرح کی رکاوٹیں کھڑی کیں۔ مشرکین کے ناروا طرز عمل کی وجہ سے رسول اﷲؐ نے اﷲ تعالیٰ سے دعا فرمائی کہ :ترجمہ: ’’اے اﷲ ان دو آدمیوں ابوجہل یا عمر بن خطاب میں سے جو تیرے نزدیک محبوب ہے، اس کے ساتھ اسلام کو عزت دے، (یعنی اسے مسلمان کردے) ‘‘(سنن ترمذی) اسی طرح ایک اور روایت میں اس طرح مذکور ہے کہ حضرت محمدؐ نے دعا فرمائی کہ: اے اﷲ! ان دو عمروں میں سے جو آپ کو محبوب ہے، اس کے ذریعے اسلام کو قوت عطا فرما۔ ایک عمرو ابن ہشام (ابوجہل) اور دوسرے عمرؓ بن خطاب۔ چنانچہ حضرت عمرؓ بن خطاب اﷲ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ثابت ہوئے۔ واضح رہے کہ اس دور میں عمرؓ اور ابوجہل کی بہادری اور شجاعت کا مقابلہ کوئی اور شخص نہیں کر سکتا تھا، چنانچہ بارگاہ الٰہی میں آپ کی دعا قبول ہوئی اور اس دورکی سب سے زیادہ بہادر اور انصاف پسند شخصیت عمرؓ نے اسلام قبول کر لیا، اسی لئے حضرت عمر فاروق ؓ کو مراد رسولؐ بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود فرماتے ہیں کہ جب عمر (رضی اﷲ عنہ) نے اسلام قبول کر لیا تو ہم اس وقت سے برابر عزت میں (غالب) رہے۔ (صحیح بخاری)۔

مراد رسولؐ سیدنا حضرت عمرؓ واقعہ فیل کے13 سال بعد583 کو مکہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام خطاب اور والدہ کا نام ختمہ تھا، جو ہشام بن مغیرہ کی صاحبزادی تھیں۔ والدین نے ان کا نام عمرؐ رکھا، جب کہ ان کی کنیت ابو حفص تھی، لقب فاروق تھا۔ حضرت عمرؓ کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت پر رسول اﷲؐ سے جا ملتا ہے۔ قبیلہ قریش کی مکہ پر سرداری تھی اور یہ قبیلہ سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے تھا، آگے چل کر قریش کے10 قبیلے بن گئے۔ نبی کریمؐ کا تعلق قبیلہ بنو ہاشم سے تھا، جب کہ حضرت عمرؓ قبیلہ بنو عدی سے تھے۔ نبوت کے چھٹے سال33 برس کی عمرؓ میں اسلام لائے۔ قد مبارک دراز تھا اور رنگ سفید، لیکن سرخی مائل تھا اور رخساروں پر کم گوشت تھا۔ آپ ’’علم الانساب‘‘ کے ماہر اورشہ زوری و گھڑ سواری میں کمال کی مہارت رکھتے تھے۔

حضرت فاروق اعظمؓ، رسول خداؐ کے مخصوص صحابہؓ میں سے ہیں اور بارگاہ الہیٰ میں آپ کے تمام افعال مقبول ہیں، حتیٰ کے جب ابتدا میں آپ مشرف بہ اسلام ہوئے تو جبرئیل علیہ السلام نے بارگاہ رسالتؐ میں حاضر ہو کر عرض کیا ،ترجمہ: یا رسول اﷲ ! آسمان والے آج عمرؓکے مشرف بہ اسلام ہونے پر بشارت و تہنیت دیتے ہیں اور وہ خوشیا ں منا رہے ہیں۔

سیدنا حضرت عمر ؓکے بارے میں رسول اﷲؐ کا ارشاد ہے کہ :عمرؓ کی زبان حق بولتا ہے۔ (ابن ماجہ) اسی طرح سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ سے روایت ہے کہ رسول اﷲؐ نے فرمایاکہ: ’’ترجمہ’’ بے شک اگلی امتوں میں محدث (جنہیں الہام اور کشف ہوتا تھا) ہوتے تھے اور اگر اس امت میں کوئی (محدث) ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے‘‘۔ (صحیح بخاری) رسول خدا کی حضرت عمرؓ کے بارے میں کہی گئی یہ بات حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی، کیونکہ اس طرح کے کئی واقعات سیرت کی کتابوں میں قوی راویوں سے مذکور ہیں، جن کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اکثر حضرت عمرؓ مقام جنگ سے کافی دور ہونے کے باوجود میدان جنگ میں شریک مجاہدوں کو بروقت اور صحیح حکمت عملی اختیار کرنے کا پیغام پہنچایا کرتے تھے اور ان کی رائے کی وجہ سے مسلمان مجاہدوں کو کئی بار کفار کے مقابلے میں فتح حاصل ہوئی۔

مراد رسول، فاروق اعظمؓ، حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مسلمان ہو جانے سے اسلام کی تاریخ کا ایک بالکل نیا دور شروع ہوا، کیونکہ حضرت عمرؓ کے اسلام لانے سے قبل مسلمان نہایت بے بس اور مجبور تھے اور وہ اپنے مذہبی فرائض کو اعلانیہ اداکرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے، بلکہ ان کا خود کو مسلمان ظاہر کرنا بھی خطرے سے خالی نہ تھا اور خانہ کعبہ میں نماز پڑھنا تو بالکل ناممکن تھا، لیکن حضرت عمر ؓکے اسلام لانے کے بعد مسلمانوں کی حالت ایک دم بدل گئی۔ حضرت عمر ؓنے ناصرف اپنے ایمان لانے کو چھپایا نہیں، بلکہ مشرکین کو جمع کر کے بآواز بلند اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ7 نبویؐ میں اسلام لائے اور13 نبوی میں انہوں نے اجازت ملنے کے بعد دیگر مسلمانوں کے ساتھ مدینہ ہجرت کی۔

حضرت عمرؓ فطرتاً ذہین اور صاحب الرائے تھے اور ان کی رائے کے درست ہونے کی اس سے بڑی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ ان کی دیئے ہوئے بہت سے مشورے مذہبی احکام بنا دیئے گئے۔ شراب کی حرمت، ازدوا ج مطہرات کا پردہ اور مقام ابراہیمؑ کو مصلےٰ بنانے کے متعلق بھی حضرت عمر ؓنے نزول وحی سے قبل رسول اﷲؐ کو رائے دی تھی اور جب مکہ سے ہجرت کر کے مسلمان مدینہ پہنچے تو مدینہ میں مسلمانوں کا حال مکہ کے مسلمانوں جیسا نہ تھا، بلکہ انہیں آزادی اور اطمینان حاصل تھا اور مسلمانوں کی تعداد میں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا تھا، جس کی وجہ سے اب لوگ اکٹھے ہو کر نماز اور دیگر مذہبی فرائض ادا کرنا چاہتے تھے، اس لئے ا س بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ نماز کے اعلان کا کوئی ایسا طریقہ متعین کیا جائے، جس سے لوگوں کو پتہ چل جائے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے اور باجماعت نماز کی ادائیگی کیلئے لوگ ایک جگہ جمع ہو سکیں۔ حضرت محمدؐ نے جب اس کا اہتمام کرنا چاہا تو بعض صحابہؓ کی رائے ہوئی کہ آگ جلا کر لوگوں کو خبر کی جائے اور بعض نے کہا کہ یہودیوں اورعیسائیوں کے طریقے سے لوگوں کو اطلاع کی جائے، اس موقع پر حضرت عمرؓ نے تجویز پیش کی کہ ایک آدمی کو اس اعلان کیلئے مقرر کیا جائے جو لوگوں کو باآواز بلند نماز کی طرف متوجہ کرے۔ حضرت محمدؐ کو یہ تجویز پسند آئی اور اسی وقت حضرت بلال حبشیؓ کو اذان کا حکم دیا گیا اور اسلام کا ایک اہم ترین شعار حضرت عمرؓ کی رائے کے مطابق شروع ہوا، جو تاقیامت اسی طرح جاری و ساری رہے گا۔

حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور ان کے اجداد اسلام لانے سے قبل بھی مکہ کے معززین میں شمار ہوتے تھے اور قبیلوں کے درمیان اختلافی معاملات کے حل کیلئے حضرت عمرؓ کے اجداد کے فیصلے کو تسلیم کیا جاتا تھا، جب کہ حضرت عمرؓ جب اسلام لائے تو وہ مکہ کے ان چند لوگوں میں شامل تھے، جو پڑھنا لکھنا جانتے تھے، جو کہ ان کی امتیازی خصوصیات میں شامل ہے۔ مسلمان ہو جانے کے بعد حضرت عمرؓ کو رسول اﷲؐ کی اتنی قربت حاصل ہوئی کہ اکثر وبیشتر اہم معاملات میں آنحضرت محمدؐ حضرت عمرؓ کی رائے کے مطابق ہی فیصلہ فرمایا کرتے تھے اور اگر کبھی کوئی فیصلہ ایسا ہوتا، جس سے حضرت عمرؓ اختلاف فرماتے تو ان کے فیصلے کی تائید میں قرآن کی کوئی آیت ناز ل ہو جایا کرتی تھی یا حضرت عمرؓ کسی معاملے میں اپنی کوئی رائے دیا کرتے تو اکثر اس کی تائید میں کوئی آیت یا سورۃ نازل ہو کر ان کی رائے کو دین اسلام کا حصہ بنا دیا کرتی تھی، جیسا کہ شراب کو حرام قرار دینے کے معاملے میں حضرت عمر ؓ کی رائے کے مطابق قرآنی آیت نازل ہوئی اور شراب کو مسلمانوں کیلئے قطعی حرام قرار دیا گیا اور پھر غزوہ بدرکے موقع پر مسلمانوں کے ہاتھوں کفار کے تقریباً 70 آدمی مارے گئے اور اتنے ہی گرفتار ہوئے، جن میں سے اکثر قبیلہ قریش کے بڑے بڑے سردار شامل تھے۔ اس لئے یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے، اس معاملے میں رسول اﷲؐ نے تمام صحابہؓ سے رائے لی، لوگوں نے مختلف رائے دیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی رائے تھی کہ ان سب کو جزیہ لے کر چھوڑ دیا جائے، لیکن حضرت عمرؓ نے اس سے اختلاف کیا اور کہا کہ: ’’ان سب کو قتل کر دینا چاہئے اور اس طرح کہ ان میں سے ہر ایک کو اس کا عزیز اپنے ہاتھوں سے قتل کرے، ان میں جو میرا عزیز ہے، اس کا کام میں تمام کروں اور اسی طرح سب لوگ کریں، لیکن حضرت محمدؐ کی شان رحمت کو حضرت ابوبکرؓ کی رائے پسند آئی اور ان سب قیدیوں کو جزیہ لے کر چھوڑ دیا گیا، لیکن بارگاہ الٰہی میں یہ عمل پسند نہیں کیا گیا اور یہ آیت نازل ہوئی۔ آیت: ما کان لنبی ان یکونہ لہ اسریٰ متیٰ یحن فی الارضَ۔ ترجمہ : ’’کسی پیغمبر کیلئے یہ مناسب نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں، جب تک وہ خونریزی نہ کر لے‘‘ جو کہ حضرت عمر ؓ کی رائے کی تائید تھی۔ اسی طرح حضرت عمرؓ اکثر معمالات میں اصل مقام سے دور ہونے کے باوجود جو کہا کرتے تھے، وہ درست ثابت ہوتا تھا، جو ان کی الہامی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے اور ان کی اس امتیازی خصوصیت کے حوالے سے حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲؐ نے فرمایا کہ: ’’تم سے پہلے بنی اسرائیل میں ایسے لوگ گزر چکے ہیں، جن سے فرشتے باتیں کرتے تھے، (جنہیں الہام ہوا کرتا تھا) اگرچہ وہ نبی نہ تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا ہوا تو وہ حضرت عمر فاروقؓ ہوں گے‘‘۔ (صحیح بخاری)

ان سب باتوں سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اﷲؐ اور اﷲ تعالیٰ کی نظر میں حضرت عمرؓ کو کیا مقام حاصل تھا اور سب سے بڑھ کر خود نبی آخری الزماں حضرت محمدؐ کا یہ ارشاد کہ: ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتے‘‘ (ترمذی) سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ ناصرف مراد رسولؐ تھے، بلکہ رسول اﷲؐ اور خود اﷲ تعالیٰ کے منظور نظر بھی تھے اور یہ مقام ان کو دین اسلام سے سچی محبت، عقیدت اور اسلام کیلئے بے بہا خدمات اور کارناموں کی بدولت حاصل ہوا تھا، جب کہ حضرت محمد ؐ نے یہ بھی فرمایا کہ: جس راستے سے عمر گزرتا ہے، شیطان وہ راستہ چھو ڑ دیتا ہے۔ (بخاری ومسلم) عمر کی زبان پر خدا نے حق جاری کر دیا ہے۔ (بیہقی) میرے بعد ابوبکرؓ اور عمرؓ کی اقتدا کرنا۔ (مشکواۃ)

حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت صرف سوا دو برس قائم رہی، لیکن ان کے عہد میں جتنے بڑے بڑے کام انجام پائے، ان سب میں حضرت عمرؓ ناصرف شریک رہے، بلکہ قرآن شریف کی تدوین کا کام بھی خاص حضرت عمرؓ کے اصرار اور مشورے سے عمل میں آیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنی علالت کے دوران، وفات سے کچھ دن قبل حضرت عمرؓ کو اپنے بعد خلیفہ بنانے کا اعلان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ :’’اس زمین پر حضرت عمرؓ سے زیادہ مجھے کوئی عزیز نہیں اور اگر اﷲ نے پوچھا کہ تو نے حضرت عمرؓ کو خلیفہ کیوں بنایا تو میں عرض کروں گا کہ میں نے لوگوں میں سب سے بہترین شخص کو ان پر خلیفہ بنایا‘‘۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی رحلت کے بعد حضرت عمرؓ کا دور خلافت13 ہجری کو شروع ہوا اور 10 سال 6 ماہ اور 10 دن تک جاری رہا، جس کے دوران حضرت عمرؓ کی قیادت میں مسلمانوں نے 22 لاکھ مربع میل کے علاقے پر اسلام کا جھنڈا لہرایا اور یہ وہی حضرت عمر ؓہیں، جن کی بہادری دیکھ کر یہودی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر عمر10 برس اور حکومت کرتے توپوری دنیا میں نبی کریمؐ کا حکم نافذ کروا دیتے۔ حضرت عمرؓ کا فتوحات اورکارناموں سے بھر پور دور حکومت یکم محرم24 ہجری کو ان کی شہادت کے ساتھ اختتام پذیر ہوا اور مسلمان اسلام کے عظیم ہیرو سے محروم ہو گئے۔ حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں بے شمار تعمیراتی کام بھی پایہ تکمیل تک پہنچےِ جن میں خاص طور پر مسجد نبویيؐ کی تعمیر و توسیع میں حضرت عمرؓ نے خصوصی دلچسپی لیِ جس کی تفصیل یہ ہے کہ پہلے مسجد نبویؐ کا طول و عرض 100x100 ذراع تھا، جو فاروق اعظمؓ کے کئے گئے اضافے سے 120x140 ذراع ہو گیا۔ حضور اکرمؐ کے زمانے میں مسجد نبویؐ کا رقبہ 2475 مربع میٹر تھا، اس میں حضرت عمرؓ نے1100 مربع میٹر کا اضافہ کیا، جس کے بعد مسجد نبویؐ کا مجموعی رقبہ3575 مربع میٹر ہو گیا۔ حضرت محمدؐ کے زمانے میں مسجد نبویؐ کی چھت تقریباً9 فٹ اونچی تھی، آپ نے اسے11 ذراع اونچا کر دیا۔ حضرت محمدؐ نے مسجد نبویؐ کے ستون کھجور کے تنوں سے بنائے تھے، حضرت عمرؓ نے اسے لکڑی سے بنوا دیئے۔ حضورؐ نے مسجد نبوی کے صرف3 دروازے رکھے تھے، حضرت عمرؓ نے لوگوں کی سہولت کے پیش نظر ان میں مزید3 دروازوں کا اضافہ کر دیا اور یوں مسجد نبویؐ کے کل6 دروازے ہو گئے، جب کہ حضرت عمرؓ نے دنیاوی گفتگو اور شعر گوئی وغیرہ کیلئے مسجد کے ایک گوشے میں علیحدہ سے ایک جگہ بنا دی، تاکہ مسجد کا تقدس برقرار رہے، ورنہ اس سے قبل لوگ مسجد نبویؐ کے اندر نماز سے فارغ ہونے کے بعد یا نماز سے قبل جائے نماز کے قریب ہی بیٹھ کر دنیاوی گفتگو اور شعر گوئی وغیرہ کیا کرتے تھے۔

حضرت عمرؓ کو اگر اسلام کا ہیرو کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ انہوں نے اپنے دور خلافت میں عدل و انصاف اور بہادری و جانفشانی کے ساتھ فتوحات کی جو مثالیں قائم کی تھیں، وہ آج کے دور میں بھی بطور مثال پیش کی جاتی ہیں۔ جب بھی ایک اچھے اور ایماندار، بہادر اور انصاف پسند اہل حکمران کا ذکر کیا جاتا ہے تو حضرت عمرؓ کا نام سرفہرست لیا جاتا ہے۔ غزوہ احد کے بعد حضرت عمرؓ کو یہ شرف حاصل ہوا کہ ان کی صاحبزادی حضرت حفصہؓ، رسول اﷲؐ کے نکاح میں آئیں، اس طرح حضرت عمرؓ کو حضرت محمدؐ کے سسر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہو گیا، جب کہ حضرت عمرؓ آج بھی روضہ رسولؐ میں رسول اﷲ حضرت محمدؐ کے پہلو میں آرام فرما رہے ہیں۔ یعنی اسلام لانے سے لیکر شہادت پاجانے کے وقت تک اور پھر بعد ازوفات بھی آپ کو رسول اﷲؐ کا خصوصی قرب حاصل ہے۔

حضرت عمرؓ کے خوف خدا کے حوالے سے حضرت عمرؓ کی اہلیہ عاتکہ ایک واقعہ بیان کرتی ہیں کہ :عمرؓ بستر پر سونے کیلئے لیٹے تو نیند نہ کر سکے، باربار اٹھ کر رونا شروع کر دیتے تھے۔ میں پوچھتی تھی کہ : اے امیرالمومنینؓ کیا ہوا؟ تو وہ کہتے تھے کہ: ’’مجھے محمدؐ کی امت کی خلافت ملی ہوئی ہے، ان میں مسکین بھی ہیں، ضعیف بھی ہیں، یتیم بھی ہیں اور مظلوم بھی، مجھے ڈر لگتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ مجھ سے ان سب کے بارے میں سوال کریں گے، اگر مجھ سے کوتاہی ہوئی تو میں اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کو کیا جواب دوں گا۔ اس حوالے سے حضرت عمرؓ کا ایک اور ارشاد ہے کہ: ’’اﷲ کی قسم! اگر دجلہ کے دور دراز علاقے میں بھی کسی خچر کو راہ چلتے ہوئے ٹھوکر لگ جائے تو مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں اﷲ تعالیٰ مجھ سے یہ سوال نہ کر دیں کہ :اے عمر تو نے وہ راستہ ٹھیک کیوں نہیں کرایا تھا‘‘۔

حضرت عمرؓ اﷲ تعالیٰ سے اچھی امید رکھنے کے ساتھ اپنے اعمال کے حوالے سے ہمیشہ فکر مند رہا کرتے تھے اور بہت زیادہ خوف خدا رکھتے تھے۔ اس حوالے سے حضرت عمرؓ کا یہ ارشاد کافی مشہور ہے کہ: ’’اگر اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن یہ اعلان فرما دیں کہ پورے انسانوں میں سے صرف ایک شخص جنت میں جائے گا تو مجھے اپنے رب سے یہ امید ہے کہ (انبیا علیہ السلام کے علاوہ) وہ شخص میں ہوں گا اور اگر اﷲ تعالیٰ روز قیامت یہ اعلان فرما دیں کہ (انبیا علیہم السلام کے علاوہ) تمام انسانوں میں سے صرف ایک شخص جہنم میں جائے گا اور باقی سب کو نجات ہوگی تو مجھے خوف ہے کہ وہ شخص میں ہوں گا۔ اﷲ تعالیٰ کی رحمت پر یقین اور اﷲ کے عذاب کے خوف کا یہ عالم حضرت عمرؓ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو واضح کرتا ہے کہ ایک طرف تو وہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے نہایت پر امید نظر آتے ہیں، لیکن دوسری طرف ان کو اس بات کی بھی فکر ہے کہ انہیں ان کے اعمال کے بدلے جہنم میں بھی بھیجا جا سکتا ہے۔

حضرت عمرؓ کے دور خلافت کی سب سے نمایا ں خوبی عدل و انصاف تھی، ان کے عہد میں کبھی انصاف سے تجاوز نہیں کیا گیا، جس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عمرؓ قانون کے معاملے میں سب کو ایک ہی نظر سے دیکھا کرتے تھے اور ان کے دور میں بادشاہ اور فقیر، رشتہ داروں اور غیروں کیلئے ایک ہی قانون تھا۔ اس حوالے سے چند واقعا ت ہی عہد فاروقی کے عدل و انصاف کو ظاہر کرنے کیلئے کافی ہیں۔ جیسا کہ ایک دفعہ عمرو بن العاصؓ کے صاحبزادے عبداﷲ نے ایک شخص کو بے وجہ مارا تو حضرت عمرؓ نے اسی مضروب شخص سے ان کے کوڑے لگوائے، اس موقع پر عمرو بن العاصؓ بھی موجود تھے، دونوں باپ بیٹے خاموشی سے حضرت عمرؓ کا انصاف دیکھتے رہے اور کچھ نہ کر سکے۔ حضرت عمرؓ اسلام کے مقابلے میں محبت اور رشتہ داری کے تعلقات سے بالکل بھی متاثر نہیں ہوتے تھے اور جو فیصلہ انصاف کے مطابق ہوتا تھا، اسی پر عمل کرتے تھے، خواہ اس فیصلے سے ان کا کوئی قریبی عزیز ہی سزا کا مستحق قرار پاتا ہو، یہی وجہ تھی کہ مدینے کے سب سے پہلے معرکے، جنگ بدر کے موقع پر حضرت عمر ؓ نے ناصرف حضرت محمدؐ کے ہمراہ دست و بازو بن کر بہادری اور جان فشانی کے ساتھ حصہ لیا، بلکہ دوران جنگ عاص بن ہشام ابن مغیرہ (جو رشتے میں حضرت عمرؓ کا ماموں تھا) کو خود اپنے خنجر کے وار سے ہلاک کیا۔

حضرت عمرؓ نے20، افراد کی معیت میں13 نبوی میں مدینہ منورہ ہجرت کی اور قبا میں سیدنا رفاعہ بن منذر کے مکان میں قیام فرمایا۔

حضرت عمرؓ کا عدل و انصاف بھی ایسا تھا کہ ان کے دور خلافت میں رعایا کو ناانصافی کا کوئی اندیشہ نہ تھا اور سب کو اس بات کا اعتماد تھا کہ ہر معاملے میں ان کے ساتھ عدل و انصاف کیا جائے گا، یہی وجہ تھی کہ جب حضرت عمرؓ کا انتقال ہوا تو آپؓ کی سلطنت کے ایک دور دراز کے علاقے کا ایک چرواہا بھاگتا ہوا آیا اور چیخ کر بولا: ’’لوگو! حضرت عمرؓ کا انتقال ہو گیا‘‘۔ لوگوں نے حیرت سے پوچھا: ’’تم مدینے سے ہزاروں میل دور جنگل میں ہو، تمہیں اس سانحے کی اطلاع کس نے دی‘‘۔ چرواہا بولا: ’’جب تک حضرت عمر فاروقؓ زندہ تھے، میری بھیڑیں جنگل میں بے خوف پھرتی تھیں اور کوئی درندہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا، لیکن آج پہلی بار ایک بھیڑیا میری بھیڑ کا بچہ اٹھا کر لے گیا، میں نے بھیڑیے کی جرأت سے جان لیا کہ آج حضرت عمر فاروقؓ اس دنیا میں موجود نہیں رہے‘‘۔ رعایا کا حکمران پر اس درجہ بھروسہ اور اطمینان حضرت عمرؓ کے دور حکومت کی ایک ایسی امتیازی خصوصیت تھی کہ جس کی مثال اس کے بعد تاریخ اسلام میں نہیں ملتی۔

امیر المومنین حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں ایک عورت اپنے ہاتھ میں لاٹھی لئے راستہ ڈھونڈ رہی تھی، وہ زمانے بھر کی مصیبتوں کی ماری ہوئی تھی، اس نے حضرت عمر بن الخطابؓ کو جو لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے تھے، روکا اور ایک طرف لے گئیں۔ حضرت عمرؓ اس کے قریب ہوئے، اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا اور اپنے کان اس کی طرف لگائے اور کافی دیر تک اپنے کان اس کی نحیف آواز کی طرف لگائے رکھے، تاکہ اس کی بات سن سکیں۔ پھر ساری بات سن کر آپ نے اس کی ضرورت کو پورا فرمایا اور اس کے بعد جب حضرت عمرؓ ان لوگوں کی طرف واپس آئے جو کافی دیر سے کھڑے ان کا انتظار کر رہے تھے تو کسی آدمی نے کہا کہ: ’’اے امیرالمومنینؓ! آپ رضی اﷲ عنہ نے اس بڑھیا کی خاطر قریش کے آدمیوں کو روکے رکھا؟حضرت عمرؓ نے فرمایا تیرا ناس ہو! جانتے ہو کہ یہ بڑھیا کون تھی؟ اس آدمی نے کہا کہ میں نہیں جانتا، حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ یہ وہ خاتون ہیں، جن کا شکوہ اﷲ تعالیٰ نے ساتوں آسمان کے اوپر سنا، یہ خاتون خولہ بنت ثعلبہ رضی اﷲ عنہا ہیں۔ خدا کی قسم! اگر وہ رات تک میرے پاس سے واپس نہ جاتیں تو میں بھی ان کی ضرورت پوری کرنے تک واپس نہ لوٹتا۔

حضرت فاروق اعظمؓ، رسول خداؐ کے مخصوص صحابہؓ میں سے ہیں اور بارگاہ الہیٰ میں آپ کے تمام افعال مقبول ہیں، حتیٰ کے جب ابتدا میں آپ مشرف بہ اسلام ہوئے تو جبرئیل علیہ السلام نے بارگاہ رسالتؐ میں حاضر ہو کر عرض کیا ،ترجمہ :یا رسول اﷲ ﷺ! آسمان والے آج عمرؓ کے مشرف بہ اسلام ہونے پر بشارت وتہنیت دیتے ہیں اور وہ خوشیاں منا رہے ہیں۔ سیدنا حضرت عمرؓ کے بارے میں رسول اﷲؐ کا ارشاد ہے کہ :عمرؓ کی زبان حق بولتا ہے۔ (ابن ماجہ)

حضرت عمر ؓرعایا کا حال معلوم کرنے کیلئے رات کو گشت کیا کرتے تھے۔ ایک رات وہ حسب معمول گشت کر رہے تھے کہ انہیں ایک گھر سے بچوں کے رونے کی آواز آئی، آپ نے دیکھا کہ ایک ہنڈیا چولہے پر چڑھی ہوئی ہے۔ آپؓ نے گھر کی مالکہ سے پوچھا کہ بچے کیوں رو رہے ہیں؟ عورت نے بتایا کہ گھر میں کھانے کو کچھہ نہیں، یہ ہنڈیا چولہے پر اس لئے چڑھائی ہے کہ بچے پانی ابلتا ہوا دیکھ کر کچھ حوصلہ کریں۔ یہ سن کر آپ کو بہت افسوس ہوا، آپ سیدھے گھر آئے، کھانے پینے کا سامان ایک بوری میں رکھا اور اپنی کمر پر لاد کر اس عورت کے گھر پہنچے، بوری اس عورت کے سپرد کی اور کھانا پکانے میں بھی اس عورت کی مدد کی، جب کھانا تیار ہو گیا تو سب نے کھانا کھایا، اس پر حضرت عمرؓ کو تسلی ہوئی۔

خلیفہ دوم حضرت عمرؓ ایک مرتبہ مسجد میں منبر رسولؐ پر کھڑے ہوکر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہوا اور آپ کو مخاطب کر کے کہنے لگا کہ: اے عمرؓ ہم تیرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے، جب تک تم یہ نہیں بتاؤگے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے، وہ تو زیادہ ہے، جب کہ بیت المال سے جو کپڑا ملا تھا، وہ اس سے بہت کم تھا، یہ سن کر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مجمع میں میرا بیٹا عبداﷲ موجود ہے، اس پر عبداﷲ بن عمر کھڑے ہو گئے۔ عمر فاروقؓ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ بتاؤکہ تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے، ورنہ قسم ہے اس ذات کی، جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں گا۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ نے بتایا کہ بابا کو جو کپڑا ملا تھا، وہ بہت ہی کم تھا، اس سے ان کا پورا کپڑا نہیں بن سکتا تھا اور ان کے پاس پہننے کا جو لباس تھا، وہ بہت خستہ حال ہو چکا تھا، اس لئے میں نے اپنا کپڑا اپنے والد کو دے دیا۔

آج کل کے حکمران اپنی سیکورٹی کے نام پر جو حفاظتی انتظامات کرواتے ہیں، اس پر قومی خزانے سے لاکھوں روپے کے خرچے کے علاوہ کئی سو پولیس والوں کی ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں، اہم شاہراہیں بند کی جاتی ہیں، جن سے عام لوگوں کو ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے روزمرہ کی ذمہ داریاں انجام دینے میں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایک حکمران فاروق اعظمؓ بھی تھے، جن کے دور کی سیکورٹی کا اندازہ اس ایک واقعے سے ہی بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

ایک دفعہ امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ کسی کام سے جا رہے تھے۔ ایک سیاح کو پتہ چلا کہ وہ مسلمانوں کے امیر ہیں تو وہ انہیں دیکھ کر بہت حیران ہوا اور بھاگا بھاگا آپ کے پاس پہنچا اور پوچھا، آپ مسلمانوں کے امیر ہیں؟ آپ نے جواب دیا میں ان کا امیر نہیں، بلکہ ان کا محافظ ہوں‘‘۔ سیاح نے پوچھا آپ اپنے ساتھ حفاظتی دستہ کیوں نہیں رکھتے؟ آپ نے جواب دیا عوام کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ میری حفاظت کریں، یہ تو میرا کام ہے کہ میں ان کی حفاظت کروں‘‘۔

قرآن مجید کی متعدد آیات مبارکہ آپ کی رائے کی تائید میں نازل ہوئیں۔ حضرت شاہ ولی اﷲ کے مطابق قرآن کی27 آیات حضرت عمرؓ کی رائے کے مطابق نازل ہوئیں۔ ایک روزحضرت عمر فاروق ؓنے بارگاہ مصطفویؐ میں عرض کیا: ’’یا رسول اﷲ! اگر ہم مقام ابراہیمؑ (جس پتھر پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی) کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لیں؟ (صحیح بخاری) ابھی یہ بات عرض کی ہی تھی کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے حکم آگیا کہ :’’واتخذوا من مقام ابراہیم مصلیٰ‘‘۔ ترجمہ: مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لو‘‘۔ چونکہ اس پتھر نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے بوسے لئے تھے، جس کی وجہ سے اس پتھر کا مقام عام پتھروں سے بلند و بالا تھا اور اندیشہ تھا کہ کل کو ایسا نہ ہوکہ لوگ کعبہ کے سامنے اس کو نئی درگاہ بنا لیں۔ چنانچہ سیدنا حضرت عمرؓ نے اس معاملے کو حتمی شکل دلوائی اور شرک کے تمام پہلو ختم کر دیئے، جب کہ اس کے بعد حضرت عمرؓ مسجدالحرام میں ’’حجر اسود‘‘ کے قریب آئے اور اس کا بوسہ لے کر فرمایا کہ: ترجمہ: ’’بے شک میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، نہ تو نقصان دے سکتا ہے، نہ نفع اور اگر میں نے حضرت محمدؐ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تومیں تجھے کبھی نہ چومتا‘‘َ۔ (صحیح البخاری)

خلافت فاروق اعظمؓ کا دور حکومت اور اہم کارنامے
حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے بعد10 سال6 ماہ10 دن تک 22 لاکھ مربع میل کے علاقے پر اسلامی خلافت قائم کی۔ آپ کے دور میں3600 علاقے فتح ہوئے۔ آپ کے دور میں900 مساجد اور 4000 عام مسجدیں تعمیر ہوئیں۔ دنیا کی دو بڑی سلطنتوں قیصر و کسریٰ کا خاتمہ بھی آپ کے ہی دور میں ہوا۔ آپؓ کے دور میں نہایت اہم فتوحات حاصل ہوئیں اور14 ہجری میں دمشق، بصرہ اور بعلبک کے علاقے فتح کئے گئے۔ 15 ہجری میں شرق اردن، یرموک اور قادسیہ کے عظیم الشان معرکوں میں فتح حاصل ہوئی۔ 16 ہجری میں اہواز مدائن اور ایران کے کئی علاقوں پر اسلام کا پرچم لہرایا گیا اور اسی سال عراق پر بھی اسلامی خلافت قائم ہوئی۔ آپ ہی کے دور خلافت میں نماز تراویح کی جماعت کا نظام قائم کیا گیا۔ غرض یہ کہ سیدنا عمرؓ کے فضائل بہت زیادہ ہیں، ان کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے تو کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔

ایرانیوں نے اپنے جذبہ انتقام کی آگ بجھانے کیلئے حضرت عمرؓ کے قتل کی سازش تیار کی۔ مغیرہ بن شعبہؓ کے ایرانی پارسی غلام ابولولو فیروز مجوسی نے نماز فجر کے دوران پہلی ہی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے فوراً بعد زہر میں بجھے ہوئے خنجر سے حضرت عمرؓ پر قاتلانہ حملہ کیا تو آپؓ زمین پر گر پڑے، اس کے بعد آپ تین روز زخمی حالت میں رہے اور آخر کار یکم محرام الحرام کو شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔
حضرت عمرؓ کی شہادت کے آخری لمحات کا احوال کچھ یوں ہے کہ سیدنا عمرؓ27 ذوالحجہ بروز چہار شنبہ کی صبح کو مسجد تشریف لائے اور صفوں کو درست کرنے کے بعد امامت شروع کی تو آپ پر ایک یہودی مجوسی ابولولو فیروزنے خنجر سے حملہ کرکے شدید زخمی کر دیا، جس کی وجہ سے آپؓ گر پڑے توحضرت عباسؓ نے عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو ہاتھ سے پکڑ کر آگے کر دیا، پھر انہوں نے نماز مکمل کرائی، مجوسی ابو لولو فیروز نے حضرت عمر فاروقؓ پر حملہ کرنے کے بعد نماز میں دائیں بائیں کھڑے ہوئے لوگوں پر خنجر سے وار کیا، جس سے13 افراد زخمی ہوئے، جن میں سے9 بعد میں شہید ہو گئے۔ آپؓ کو دودھ پلایا گیا تو وہ انتڑیوں کے راستے سے باہر آگیا۔ آپ تین روز زخمی حالت میں زندہ رہے اور بالآخر یکم محرم الحرام کو شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے اور آپ کو یکم محرم کو اتوار والے دن حضرت عائشہ کے حجرہ مبارک میں رسول اﷲؐ اور حضرت ابو بکرصدیقؓ کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔ آپؓ کی نماز جنازہ حضرت صہیبؓ نے پڑھائی، جب کہ حضرت عثمان غنیؓ، حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، حضرت سعدؓ اور عبداﷲ بن عمرؓ نے آپ کو قبر میں اتارا اور یوں اسلام کے اس عظیم ترین ہیرو کا بے مثال دور حکومت اختتام کو پہنچا اور عالم اسلام ایک نہایت بہترین حکمران سے ہمیشہ کیلئے محروم ہو گیا، لیکن آپ کا کردار، آپ کی خدمات اور آپ کی امتیازی خصوصیات کی وجہ سے رہتی دنیا تک آپ کا نام زندہ رہے گا کہ پوری دنیا میں آج بھی ایک بہترین عادل حکمران کے طور پر سب سے پہلے آپؓ کا ہی نام لیا جاتا ہے اور آپ کے دورخلافت کو بہترین دور حکومت سمجھ کر اس سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے اور عدالتی فیصلوں تک میں آپ کے کئے ہوئے فیصلوں کی مثالیں دی جاتی ہیں۔

غرض یہ کہ حضرت عمرؓ کی شخصیت اتنی ہمہ جہت اور ہمہ صفت ہے اور آپؓ کے کارناموں، خصوصیات اور واقعات کی فہرست اتنی طویل ہے کہ کسی ایک مضمون میں ان سب کا تذکرہ ممکن ہی نہیں ہے، بلکہ اگر حضرت عمرؓ جیسی بے مثال شخصیت پر تفصیل سے لکھا جائے تو کئی ضخیم کتابیں وجود میں آسکتی ہیں۔ لہٰذا راقم نے اپنے اس مضمون میں نہایت اختصار سے کام لیتے ہوئے آپؓ کی شخصیت کے کچھ گوشوں پر روشنی ڈالنے کی جسارت کی ہے اور اپنے مطالعے اور حضرت عمرؓ سے طبعی مناسبت ہونے کی وجہ سے پوری کوشش کی ہے کہ میری یہ کاوش قارئین کے معیار پر پورا اتر سکے اور ان کی دلچسپی اور معلومات میں اضافے کا سبب ثابت ہو، اب میں اپنی اس کوشش میں کس حد تک کامیاب رہا، اس کا فیصلہ تو ناقدین اور قارئین ہی کر سکتے ہیں۔ اﷲ تعالی اسلام کے عظیم ہیرو خلیفہ دوم، مراد رسول حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے لکھی گئی میری اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمالے تو مجھ جیسے گناہ گار پر اﷲ تعالیٰ کا یہ خاص کرم ہوگا۔۔۔
 

Fareed Ashraf Ghazi
About the Author: Fareed Ashraf Ghazi Read More Articles by Fareed Ashraf Ghazi : 119 Articles with 142479 views Famous Writer,Poet,Host,Journalist of Karachi.
Author of Several Book on Different Topics.
.. View More