حق گوئی، صدق بیانی، سماج کے چہرے پر ابھرتے نقوش کو
لفظوں کا پیرہن عطا کرنا، سیاسی نظریات کی کوتاہی کو عیاں کرنا، لوگوں کو
دھوکہ دینے والے چہروں کو بے نقاب کرنا، سماج کو گندگی سے پاک کرنا، غلط
رجحانات کی بیخ کنی کرنا، دنیا کی چمک دمک خوبصورتی و رنگینی سے متاثر ہوئے
بغیر حقائق کو بے نقاب کرنا عظیم صحافی کی نشانی ہے۔ صحافت کے اصول و ضوابط
متقاضی ہیں کہ حقائق کو عیاں کیا جائے، سماج میں دبے کچلے طبقات کے مسائل
کو اجاگر کیا جائے، ان کے حقوق کے لئے نعرہ بلند کیا جائے، حکومت وقت کی
توجہ ان کے مسائل کی جانب مبذول کرائی جائے، ان کی زندگی کا درد و کرب پیش
کیا جائے، اس کا درماں تلاش کیا جائے، مسائل کی گتھیاں حل کی جائیں، لائحہ
عمل پیش کیا جائے، نفرت، بغض و عناد کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے، یہی
صحافت کا مقصد اور منشاء ہے۔جو شخص اس طریقہ پر کاربند ہے وہ سچا صحافی اور
قلم کا سپاہی ہے، اس کی زندگی جمہوری نظام کی تقویت کا باعث ہے، اس کے
خیالات ملک کی ترقی کے ضامن ہیں، اس کا قلم جھوٹ کو لرزہ بر اندام کرنے کے
لئے کافی ہے، اس کی تحریر معاشرہ کے لئے آب حیات ہے، وہ سماج سے گندے
خیالات کو ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہے،سیکولر ازم کی حقیقت سمجھانے پر قادر
ہوتا ہے، خیالات کے دھارے کو موڑنے کے قابل ہوتا ہے، جذبات کے سمندر میں
طغیانی پیدا کرنا اس کے لئے مشکل کام نہیں ہوتا۔
ان ہی اوصاف کی حامل صحافی گوری لنکیش کا قتل ہوا ہے جو ملک کے لئے بہت بڑا
خسارہ ہے، صحافت کے لئے انتہائی نقصان کا باعث ہے، آنکھیں آبدیدہ ہیں، قلب
ماتم کناں ہیں، جذبات مشتعل و بے قابو ہیں، افکار پر اندیشوں کے بادل چھائے
ہوئے ہیں، اس صورت حال میں قلم کو جنبش دینا، صورت حال پر اظہار خیال کرنا
انتہائی مشکل امر ہے لیکن یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے جسے بھلا دیا جائے، آنکھیں
موند لی جائیں، گذرنے والا وقت اس قلب شکن واقعہ کو حافظہ سے محو کردے،
گوری لنکیش بس یاد بن کر رہ جائیں، اس واقعہ کو ہمیں یاد رکھنا ہے، گوری
لنکیش کو زندہ رکھنا ہے، ان کے نظریات کو باقی رکھنا ہے،سچائی کی جنگ کو
لڑنا ہے، انگریزوں نے بھگت سنگھ، سکھ دیو، راج گرو اشفاق اللہ خاں کو شہید
کیا، مگر ان کے نظریات کو سولی نہ چڑھا سکے، ان کے مشن کو قتل نہ کرسکے، ان
کی چاہت و منشاء کو نہ مار سکے، اس لئے ہم آج آزاد ملک میں سانس لے رہے
ہیں، ہمیں بھی اس نظرئیے کو زندہ رکھنا ہے جس کے لئے ایم ایم گلبرگی نے،
دھابولگر نے، گوری لنکیش نے جان گنوائی اور ایک رپورٹ کے مطابق بی جے پی کی
حکومت میں اب تک 18صحافی قتل کئے جاچکے اور کوشش کرنی ہے، سماج میں سب کو
یکساں حقوق میسر آئیں، باطل کے لئے گوری کا قتل سبق ثابت ہو ان کے خون کے
قطرات رائیگاں نہ ہوں، پھر کسی صحافی کو حق کی تلاش میں موت نہ ملے –
گوری لنکیش وہ عظیم صحافی ہیں صحافت جن کے خون میں تھی، ان کے والد نے
1980میں ہفتہ واری اخبار نکالا، کنڑ زبان میں عوام کے مسائل کو پیش کیا،
غرباء ومساکین کی زندگی سے کھادی پہننے والوں کو رو برو کرایا، ملک کی ترقی
سے متعلق گفتگو کرنے والوں سے ملایا، زندگی بھر یہی کوشش کرتے رہے، ہمیشہ
پسماندہ طبقات کی مدد کے لئے ان کے قلم نے تلوار کا کام کیا، غلط نظریات کے
خلاف ان کا قلم دلیل قاطع بن کر واضح ہوتا تھا، ان کی خدمات کے اعتراف میں
انہیں ساہتیہ ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا گیا۔ 2000میں ان کا انتقال ہوا، پھر
اس اخبار کو گوری نے نکالا حالانکہ وہ ابتدا میں اس اخبار کو بند کرنا
چاہتی تھیں، مگر پھر اپنے بھائی کے ساتھ مل کر انہوں نے اس اخبار کو جاری
رکھا، آپسی اختلافات بھی ہوئے، ان کے نظریات کو غلط بھی قرار دیا گیا،
انہیں ڈرایا اور دھمکایا بھی گیا، حملے کرواکر ان کا حوصلہ توڑنے کی کوششیں
بھی کی گئیں، مگرنہ انہیں ٹوٹنا تھا نہ وہ ٹوٹیں، چٹان کی طرح اڑی رہیں اور
اپنے مقصد کی جانب قدم بڑھاتی رہیں، بالآخر ان کے دشمنوں نے انہیں قتل کرنے
کا فیصلہ کر ہی لیا اور اسے انتہائی بھیانک انداز میں اختتام تک پہنچایا،
گوری پر سات گولیاں چلائی گئیں، تین گولیوں نے ان کے جسم کو چھلنی کیا، ان
کی روح پرواز کر گئی، گوری نے جان دے دی صحافت کی آبرو نیلام نہیں ہونے دی،
صحافت کو امیروں کے پاؤں کی جوتی اور سیاسی لیڈروں کے گھر کی لونڈی نہیں
بننے دیا اس کے معیار و وقار کی حفاظت کی، اپنی جان دے قلم کا پرچم بلند
کیا اور زبان حال سے یہ کہتی رہیں :
میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے
ہمارے لئے شرم کی بات ہے، اس ملک کے باشندوں کی گردنیں جھکی ہیں جو ’’بیٹی
بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘‘ کا نعرہ دیتا ہے اور بیٹی کو حقائق بیان کرنے کے جرم
میں سزائے موت دیتا ہے، اس کی موت پر پھبتیاں کستا ہے، اسے صحیح ٹھہراتا
ہے، مرنے
|